سوال:
نماز کے لیے زبان سے نیت کا کیا حکم ہے؟
جواب:
نیت دل کا وظیفہ ہے۔ زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔
❀ علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ (861 ھ) لکھتے ہیں:
”بعض حفاظ نے فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحیح یا ضعیف سند سے ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کرتے وقت فرمایا ہو: میں فلاں نماز پڑھتا ہوں۔ نہ ہی کسی صحابی یا تابعی سے ثابت ہے، بلکہ یہ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے، تو اللہ اکبر کہتے، لہذا یہ (زبان سے نیت کرنا) بدعت ہے۔“
(فتح القدير: 266/1 267)
❀ علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ (970 ھ) لکھتے ہیں:
”تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ اگر نمازی دل سے نیت کرے اور زبان سے نہ کرے، تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے، جیسا کہ کئی ایک سے ثابت ہے، نیز خامیہ میں بھی یہی لکھا ہے۔“
(البحر الرائق شرح کنز الدقائق: 292/1)
❀ شیخ الاسلام، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728 ھ) فرماتے ہیں:
”متواتر روایات اور امت مسلمہ کے اجماع سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ اکبر کے ساتھ نماز شروع کرتے تھے۔ تکبیر سے قبل سری و جہری طور پر نیت کے الفاظ ادا کرنا کسی مسلمان سے ثابت نہیں، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی صحابی سے بھی ثابت نہیں کہ آپ نے کبھی ایسا کیا ہو یا اس کا حکم دیا ہو۔ یہ تو معلوم ہے کہ زبانی نیت کی کوئی حیثیت ہوتی تو اسے نقل کرنے پر بہت زیادہ اہتمام اور داعیہ ہوتا۔ اہل تواتر کو نہ شریعت نے اجازت دی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی واقعہ ثابت آیا ہے کہ کسی متواتر کے نقل کو چھپالیں، جب اسے کسی نے بھی نقل نہیں کیا، تو معلوم ہوا کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔“
(مجموع الفتاوى: 236/22 237)
❀ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751 ھ) لکھتے ہیں:
”نیت کسی کام کے کرنے پر پختہ عزم کا نام ہے اور اس کا محل دل ہے۔ زبان سے اس کا تعلق نہیں۔ تب ہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یا آپ کے صحابہ سے کسی بھی کام میں الفاظ سے نیت کرنا ثابت نہیں، بلکہ ہم آج تک اس کا ذکر ہی نہیں سنے۔ وضو اور نماز کے شروع میں جو الفاظ گھڑ لئے گئے ہیں، شیطان نے انہیں وسوسے کا شکار لوگوں کے لیے میدان کارزار بنایا ہے۔ انہیں ثواب کی امید دلاتا ہے اور عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے اور اسے صحیح طور پر ادا کرنے کی طلب ڈال دیتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ان وسوسات کا شکار آدمی ان الفاظ کو بار بار دہراتا ہے اور خود پر سختی کرتا ہے۔ جب کہ یہ نماز کا حصہ نہیں ہے۔ نیت کسی کام کے ارادے کو کہتے ہیں، کسی کام کا پختہ ارادہ کرنے والے کو ناوی (نیت کرنے والا) بھی کہتے ہیں۔ ارادے کو نیت سے جدا نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ارادہ نیت کی حقیقت میں داخل ہے۔ جو وضو کے لیے بیٹھے، اس نے وضو کی نیت کی اور جو نماز کے لیے کھڑا ہوا، اس نے نماز کی نیت کی۔ کوئی عاقل آدمی کسی کام کو، چاہے وہ عبادات ہوں یا کوئی اور کام، بغیر نیت کے نہیں کر سکتا، لہذا نیت انسان کے مقصود افعال کے ساتھ لازم ہے۔ اس کے لیے کسی قسم کی مشقت یا حصول کی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی اپنے اختیاری افعال میں نیت کو ختم کرنا بھی چاہے، تو نہیں کر سکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے نماز اور وضو بغیر نیت کے ادا کرنے کا مکلف بناتا، تو یہ تکلیف مالا يطاق کی قبیل سے ہوتا، جو اس کے بس کی بات نہیں۔ اگر معاملہ ایسے ہے، تو حصول نیت کے لیے مشقت اٹھانے کی کیا ضرورت؟ اگر نیت کے ہونے میں شک گزرے، تو یہ جنون (پاگل پن) کی قسم ہے، کیونکہ انسان کا اپنی حالت کو جاننا یقینی امر ہے۔ ایک عقل مند اپنے آپ کو شک میں کیسے ڈال سکتا ہے؟ مثلاً اگر کوئی امام کی اقتدا میں ظہر ادا کرنے لگے، تو وہ اس میں کیسے شک کر سکتا ہے؟ اس حالت میں اگر اسے کوئی کسی اور کام کے لیے بلائے، تو وہ کہے گا کہ میں مصروف ہوں اور نماز ظہر پڑھنے لگا ہوں۔ اگر کوئی اسے نماز کی طرف جاتے ہوئے پوچھے، کہاں جا رہے ہو؟ تو کہے گا کہ میں با جماعت نماز پڑھنے جا رہا ہوں۔ جانتے بوجھتے ایک عقل مند خود کو شک میں کیسے ڈال سکتا ہے؟“
(إغاثة اللهفان في مصايد الشيطان: 136/1 137)
❀ نیز فرماتے ہیں:
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے کھڑے ہوئے، تو اللہ اکبر کہا۔ اس سے قبل کچھ نہیں کہا، نہ کبھی الفاظ سے نیت کی۔ نہ ہی یہ کہا کہ میں اللہ کے لیے چار رکعات نماز فلاں، رو بقبلہ ہو کر بہ طور امام یا مقتدی ادا یا قضاء، فلاں وقت ادا کرتا ہوں۔ یہ دس بدعات ہیں۔ ان میں ایک لفظ بھی کسی نے صحیح، ضعیف، متصل یا مرسل سند کے ساتھ نقل نہیں کیا، بلکہ کسی محدث سے بھی ایسا ثابت نہیں ہے۔ کسی تابعی نے اسے مستحسن سمجھا، نہ ائمہ اربعہ نے۔ بعض متاخرین سے امام شافعی رحمہ اللہ کے قول کو سمجھنے میں خطا ہوئی کہ انہوں نے نماز کی بابت فرمایا: یہ روزے کی طرح نہیں ہے، ہر کوئی اس میں ذکر کے ساتھ ہی داخل ہوتا ہے۔ اس نے سمجھ لیا کہ ذکر سے مراد تلفظ کے ساتھ نیت کرنا ہے، حالانکہ امام شافعی رحمہ اللہ کی مراد تو تکبیر تحریمہ ہے۔ بھلا امام شافعی رحمہ اللہ اس کام کو مستحب کیوں کر کہہ سکتے ہیں، جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، کسی خلیفہ راشد یا صحابی نے کسی ایک نماز میں بھی نہ کیا ہو۔ ان کی ہدایات اور سوانح حیات موجود ہے، اگر کوئی ہمیں اس سلسلہ سے ایک حرف بھی ثابت کر دے، ہم اسے قبول کریں گے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کر لیں گے، کیونکہ ان کی ہدایت سے کامل کوئی ہدایت نہیں ہو سکتی اور سنت وہی ہے، جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صاحب شریعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کریں۔“
(زاد المعاد في هدي خير العباد: 194/1)
❀ علامہ شرنبلالی رحمہ اللہ (1069 ھ) لکھتے ہیں:
”ہمارے مشائخ میں سے جنہوں نے کہا ہے کہ الفاظ سے نیت کرنا سنت ہے، ان کی مراد سنت نبوی نہیں، بلکہ بعض مشائخ کا طریقہ مراد ہے، جو انہوں نے تابعین کے دور کے بعد زمانہ مختلف ہو جانے اور دل پر مشغولیت بڑھ جانے کی وجہ سے جاری کر دیا تھا۔“
(مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح، ص 84)
❀ ملاعلی قاری رحمہ اللہ (1014 ھ) نقل کرتے ہیں:
”ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ نے بڑی عجیب بات کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی نیت الفاظ سے کی، لہذا ہم نے اسے تمام عبادات پر قیاس کر لیا۔
ہم کہتے ہیں کہ کسی روایت میں نہیں آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ میں حج کی نیت کرتا ہوں، بلکہ یہ آیا ہے کہ اللہ! میں حج کا ارادہ کرتا ہوں۔ یہ تو دعا ہے۔ خبر نیت کے قائم مقام تب ہوگی، جب اسے انشاء بنایا جائے، جو کہ عقد (لین دین) میں ہوتا ہے، نیز عقد انشائی غیر معلوم چیز ہے۔ اس احتمال کے باوجود بھی استدلال درست نہیں اور اسے مقیس علیہ بنانا صحیح نہیں، بلکہ محال ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ الفاظ سے نیت کے عدم ورود سے اس کا عدم لازم نہیں آتا۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے، جب تک ورود (ثبوت) نہ ہو، تب تک عدم وقوع ہی لازم آئے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے، تو اللہ اکبر کہتے تھے، اگر آپ کوئی اور الفاظ بولتے، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے نقل کر دیتے، نیز مصیبت الصلوة سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: جب آپ نماز پڑھنے لگیں، تو اللہ اکبر کہیں۔ یہ دلیل ہے کہ نیت کے الفاظ کی کوئی حیثیت نہیں۔ امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے امام بخاری رحمہ اللہ سے پوچھا: آپ تکبیر تحریمہ سے پہلے کچھ پڑھتے ہیں؟ فرمایا نہیں۔“
(مرقاة المفاتيح شرح مشكوة المصابيح: 42/1)
❀ علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ (1304 ھ) لکھتے ہیں:
”یہاں تین صورتیں بنتی ہیں:
① صرف دل کی نیت پر اکتفا کر لینا، اتفاق ہے کہ یہ کافی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہی طریقہ مروی ہے۔ نیز ان میں کسی سے بھی یہ کہنا ثابت نہیں کہ میں نے فلاں نماز کی فلاں وقت میں نیت کی یا نیت کرتا ہوں، وغیرہ۔ ابن ہمام نے فتح القدیر میں اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں یہ بات واضح کر دی ہے۔
② صرف الفاظ سے نیت کرنا، دل کا ارادہ و قصد نہ ہو، یہ بالا اتفاق ناکافی ہے۔
③ دونوں کو جمع کرنا، تحفة الملوک کے مطابق یہ سنت ہے، جو کہ درست نہیں اور المنیہ کے مطابق یہ مستحب ہے، یعنی علما کا فعل ہے اور انہوں نے اسے مستحب کہا ہے، ایسا نہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا یا آپ نے اس کی ترغیب دلائی تھی، کیونکہ یہ بالکل ثابت نہیں۔ احناف نے اسے مستحب اور مستحسن کہنے کی علت یہ بتائی ہے کہ اس سے دل و زبان کی موافقت اور ایک فرض کے لیے اہتمام ہو جاتا ہے۔“
(عمدة الرعاية في حلّ شرح الوقاية: 139/1)