نماز کے لیے تیز چل کر جانا کیسا ہے؟ شرعی رہنمائی
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

نماز کے لیے تیز تیز چلنے کا حکم

سوال

نماز کے لیے تیز تیز چل کر جانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز کی ادائیگی کے لیے تیز تیز چلنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت دی ہے کہ نماز کے لیے سکون اور وقار کے ساتھ چل کر جانا چاہیے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلد بازی اور تیزی سے چلنے سے منع فرمایا ہے۔

بعض اہل علم کی رائے:

◈ بعض علماء نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر تیز رفتاری ایسی ہو جو معیوب نہ سمجھی جائے اور
اگر اندیشہ ہو کہ پہلی رکعت فوت ہو جائے گی تو اس وقت تیز چلنے میں کوئی حرج نہیں،
◈ مثال کے طور پر: اگر کوئی شخص مسجد میں داخل ہو اور امام حالت رکوع میں ہو،
◈ اور وہ اس نیت سے کچھ تیزی سے چلے کہ رکعت مل جائے،
◈ بشرطیکہ اس کی رفتار بری یا غیر مہذب نہ ہو، تو ایسا کرنا جائز ہے۔

البتہ:

بعض لوگ دوڑتے یا بھاگتے ہوئے مسجد میں آتے ہیں،
یہ طریقہ ممنوع ہے کیونکہ یہ وقار اور سکون کے خلاف ہے۔
نماز میں وقار اور سنجیدگی مطلوب ہے، اور جلد بازی سے نماز کی روح متاثر ہوتی ہے۔

بہتر طریقہ:

◈ بہتر اور افضل یہی ہے کہ سکون و وقار کے ساتھ مسجد میں آیا جائے،
چاہے کوئی رکعت فوت ہی کیوں نہ ہو جائے۔
◈ حدیث کا عمومی مفہوم بھی یہی تقاضا کرتا ہے کہ نماز کے لیے آنے والا شخص سکون سے چلے اور جلد بازی نہ کرے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے