عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ كنت اعرف انقضاء صلوة النبى صلى الله عليه وسلم بالتكبير میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا اختتام تکبیر ( الله اكبر ) سے پہچان لیتا تھا۔
البخاری: 842، مسلم: 583/120، ولفظہ: كنا نعرف انقضاء صلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالتكبير
امام ابو داود نے اس حدیث پر ”باب التكبير بعد الصلوة“ باب باندھا ہے (قبل ح 1002)۔ لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ (فرض) نماز کے بعد امام اور مقتدیوں کو اونچی آواز سے الله اكبر کہنا چاہیے، یہی حکم منفرد کے لیے بھی ہے۔ ان رفع الصوت بالذكر میں الذکر سے مراد التكبير ہی ہے جیسا کہ حدیث بخاری وغیرہ سے ثابت ہے۔ اصول میں یہ مسلم ہے کہ الحديث يفسر بعضه بعضا یعنی ایک حدیث دوسری حدیث کی تفسیر کرتی ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ ما كنا نعرف انقضاء صلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا بالتكبير“ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ختم ہونا معلوم نہیں ہوتا تھا مگر تکبیر ( الله اكبر سننے) کے ساتھ۔
مسلم: 583/121
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پوری کر کے (ختم کرنے کے بعد تین دفعہ استغفار کرتے ( استغفر الله استغفر الله استغفر الله ) اور فرماتے: اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ
مسلم: 591
آپ صلی اللہ علیہ وسلم درج ذیل دعائیں بھی پڑھتے تھے:
لَا إِلَٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ ٱلْمُلْكُ وَلَهُ ٱلْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
البخاری: 844، مسلم: 593
اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَىٰ ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ
ابو داود: 522 اوسندہ صحیح، النسائی: 1304 وصححه ابن خزیمہ: 751 وابن حبان، الاحسان: 2017، 2018 والحاکم علی شرط الشیخین (273/1) ووافقه الذہبی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہر نماز کے بعد تینتیس (33) دفعہ تسبیح ( سبحان الله ) تینتیس (33) دفعہ تحمید ( الحمد لله ) اور تینتیس (33) دفعہ تکبیر ( الله اكبر ) پڑھے اور آخری دفعہ «لَا إِلَٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ ٱلْمُلْكُ وَلَهُ ٱلْحَمْدُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ»پڑھے تو اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اگرچہ وہ (گناہ) سمندر کے جھاگ کے برابر (بہت زیادہ) ہوں۔“
مسلم: 597
تینتیس (33) دفعہ سبحان الله ، تینتیس (33) دفعہ الحمد لله ، اور چونتیس (34) دفعہ الله اكبر کہنا بھی صحیح ہے۔
دیکھیے مسلم: 596
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ہر نماز کے بعد معوذات ( وہ سورتیں جوقل اعوذ سے شروع ہوتی ہیں ) پڑھیں۔
ابو داود: 523 اوسندہ حسن، النسائی: 1337 اولی طریق آخر عند الترمذی: 2903 وقال: ”غریب وطریق ابی داود: صححه ابن خزیمہ: 755 وابن حبان، الاحسان: 2001 والحاکم (253/1) علی شرط مسلم ووافقه الذہبی۔“
ان کے علاوہ جو دعائیں قرآن و حدیث سے ثابت ہیں ان کا پڑھنا افضل ہے، چونکہ نماز اب مکمل ہو چکی ہے لہذا اپنی زبان میں دعا مانگی جا سکتی ہے۔
نماز کے بعد اجتماعی دعا کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ دعا کرتے تھے اور آخر میں اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے چہرے پر پھیر لیتے تھے (البخاری فی الادب المفرد: 609 وسندہ حسن)۔ اس روایت (اثر) کے راویوں محمد بن فلیح اور فلیح بن سلیمان دونوں پر جرح مردود ہے، ان کی حدیث حسن کے درجے سے نہیں گرتی، نیز دیکھیے فقرہ: 15، حاشیه: 5
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قرأ آية الكرسي فى دبر كل صلوة مكتوبة لم يمنعه من دخول الجنة إلا أن يموت
النسائی فی الکبری: 9928 (عمل الیوم واللیلة: 100 وسندہ حسن، وکتاب الصلوة لابن حبان (اتحاف المبرة لابن حجر: 259/6 ح 6480))۔
”جس نے ہر فرض نماز کے آخر میں (سلام کے بعد) آیت الکرسی پڑھی، وہ شخص مرتے ہی جنت میں داخل ہو جائے گا۔“