نماز کے اول وقت اور افضل وقت کی وضاحت
سوال:
نماز کا اول وقت کون سا ہے؟
نماز ادا کرنے کے لیے افضل وقت کون سا ہے؟ کیا اول وقت افضل ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زیادہ کامل نماز وہی ہے جو اس وقت ادا کی جائے جو شریعت میں اس کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے جواب میں، جس نے آپ سے دریافت کیا تھا کہ:
❀ اللہ عزوجل کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلصَّلَائُ عَلٰی وَقْتِہَا))
(صحیح البخاري، المواقیت، باب فضل الصلاة لوقتہا، ح: ۵۲۷، صحیح مسلم، الایمان، باب بیان کون الایمان باللہ تعالی افضل الاعمال، ح: ۸۵ (۱۳۹))
یعنی: ’’نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔‘‘
یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے "اول وقت” کی صراحت نہیں کی، کیونکہ بعض نمازیں ایسی ہیں جنہیں جلدی پڑھنا سنت ہے، جبکہ بعض نمازوں کو تاخیر سے پڑھنا سنت ہے۔
مختلف نمازوں کے لیے افضل وقت کی وضاحت
1. نمازِ عشاء: تاخیر افضل ہے
اگر کوئی خاتون خانہ یہ پوچھے کہ عشاء کی نماز اذان کے فوراً بعد پڑھے یا رات کے تہائی حصے تک مؤخر کرے، تو افضل یہی ہے کہ وہ اسے تاخیر سے پڑھے۔ اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے کہ آپؐ نے ایک رات نماز اتنی دیر سے ادا کی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:
❀ ’’یا رسول اللہ! عورتیں اور بچے سو گئے ہیں۔‘‘
تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نماز پڑھائی اور فرمایا:
((اِن ھذاُ لَوَقْتُہَا لَوْ لَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰی اُمَّتِیْ))
(صحیح مسلم، المساجد، باب وقت العشاء وتاخیرہا، ح: ۶۳۸ (۲۱۹))
یعنی: ’’اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو یہی (تاخیر سے پڑھنا) نماز عشاء کا وقت ہوتا۔‘‘
پس عورت کے لیے، اگر وہ گھر میں نماز ادا کر رہی ہو، افضل یہ ہے کہ عشاء کی نماز کو رات کے تہائی حصے تک مؤخر کرے۔
2. سفر میں نماز: تاخیر افضل ہے
اگر کچھ لوگ سفر میں ہوں اور پوچھیں کہ نماز جلدی پڑھنی چاہیے یا تاخیر سے؟ تو ان کے لیے بھی افضل یہی ہے کہ تاخیر سے نماز ادا کریں۔
3. سیر و تفریح کے دوران نماز: تاخیر افضل ہے
اگر کچھ افراد سیر و تفریح میں ہوں اور عشاء کا وقت ہو جائے، تو ان کے لیے بھی افضل یہ ہے کہ اگر کوئی مشقت نہ ہو تو نماز عشاء کو تاخیر سے پڑھیں۔
دیگر نمازوں کی ادائیگی
❀ فجر، ظہر، عصر اور مغرب کی نمازوں کو جلدی ادا کرنا افضل ہے، الا یہ کہ کسی وجہ سے تاخیر کرنا ضروری ہو۔
گرمی کی شدت میں ظہر کی نماز کی تاخیر
شدید گرمی میں ظہر کی نماز کو تاخیر سے پڑھنا افضل ہے، یعنی عصر کے قریب کے وقت تک مؤخر کرنا جائز ہے، کیونکہ اس وقت موسم نسبتاً ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَاَبْرِدُوا بِالصَّلَاۃِ فَاِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّ مِنْ فَیْحِ جَہَنَّمَ))
(صحیح البخاري، المواقیت، باب الابراد بالظہر فی شدۃ الحر، ح: ۵۳۳، صحیح مسلم، باب استحباب الابراد بالظہر… ح: ۶۱۵)
یعنی: ’’جب گرمی شدید ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی گرمی کا حصہ ہے۔‘‘
اسی طرح ایک بار سفر کے دوران، حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ابْرِدْ) یعنی ’’ٹھنڈا کرو۔‘‘
پھر جب وہ دوبارہ اذان کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أَبْرِدْ)
تیسری بار آپؐ نے انہیں اذان دینے کی اجازت دی۔
(صحیح البخاری، مواقیت الصلاۃ، باب الابراد بالظہر فی السفر، حدیث: ۵۳۹، صحیح مسلم، المساجد، باب استحباب الابراد بالظہر… حدیث: ۶۱۶)
باجماعت نماز کے لیے تاخیر
اگر کوئی شخص جنگل یا ایسی جگہ ہو جہاں جماعت میسر نہ ہو، لیکن اسے معلوم ہو کہ شہر پہنچ کر آخری وقت میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے، تو اس کے لیے افضل بلکہ واجب ہے کہ نماز کو مؤخر کرے تاکہ جماعت کے ساتھ ادا کر سکے۔
وضاحت: تاخیر کی حد
نوٹ:
فاضل مفتی رحمہ اللہ کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ ظہر کو اتنا مؤخر کیا جائے کہ عصر کے بالکل قریب ہو جائے۔ ابراد (ٹھنڈا کرنے) کا مطلب یہ نہیں کہ ظہر کا پورا وقت نکال دیا جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ معمول کے وقت سے کچھ تاخیر کی جائے، لیکن یہ تاخیر عصر کے قریب نہ پہنچے۔
(فتح الباری، مواقیت الصلاۃ، باب الابراد بالظہر فی السفر، حدیث: ۵۳۹)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب