اقامتِ صفوف کا معیار – شرعی نقطہ نظر
سوال:
نماز میں صفیں درست کرنے کا معیار کیا ہے؟ کیا شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ نمازی اپنے ساتھی کے ساتھ کھڑے ہو کر اس کے ٹخنے سے اپنا ٹخنہ مِلائے؟ براہ کرم فتویٰ عطا فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو اجر و ثواب عطا فرمائے۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
✅ صفوں کی برابری کا درست معیار:
◈ صف کی درستی اور برابری کے لیے ٹخنوں کا برابر ہونا معیار ہے، نہ کہ پاؤں کی انگلیوں کے کنارے۔
◈ اس کی وجہ یہ ہے کہ بدن کی ترکیب ٹخنے سے ہوتی ہے، جب کہ پاؤں کی ساخت مختلف لوگوں میں مختلف ہوتی ہے؛ کسی کے پاؤں لمبے ہوتے ہیں، کسی کے چھوٹے۔
◈ اس بنا پر صفوں کی درستگی ٹخنوں کی برابری سے ممکن ہے، نہ کہ صرف پاؤں کی نوک سے۔
🔄 صحابۂ کرام کا عمل:
◈ ٹخنے آپس میں ملانے کا عمل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے۔
◈ وہ صف بناتے وقت اپنے ٹخنے، ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ ملا کر کھڑے ہوتے تھے تاکہ صفیں سیدھی رہیں۔
📚 جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
"ہم میں سے ایک اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے اور اپنے پاؤں کو اس کے پاؤں کے ساتھ ملا لیا کرتا تھا۔”
(صحیح البخاري، الأذان، باب إلزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم في الصف، حدیث: 725)
⚠️ غلط فہمی کا ازالہ:
◈ ٹخنوں کا آپس میں مِلانا مقصد بذاتِ خود نہیں، بلکہ یہ ایک وسیلہ ہے صفوں کو سیدھا رکھنے کا۔
◈ جب صف مکمل ہو جائے اور نمازی کھڑے ہو جائیں تو ہر شخص کو اپنے ٹخنے کو ساتھ والے کے ٹخنے کے ساتھ لگانا چاہیے تاکہ صف سیدھی رہے۔
◈ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ پوری نماز میں ٹخنے جُڑے رہیں۔
🚫 غلو سے اجتناب:
◈ بعض لوگ اس معاملے میں افراط سے کام لیتے ہیں اور صرف ٹخنے مِلانے کے لیے اپنے پاؤں کو بہت زیادہ پھیلا لیتے ہیں۔
◈ اس عمل سے ان کے اور ساتھیوں کے کندھوں میں فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے، جو سنت کے خلاف ہے۔
◈ اصل مقصود یہ ہے کہ کندھے اور ٹخنے دونوں برابر ہوں، تاکہ صف مکمل سیدھی ہو۔
وباللہ التوفیق
📚 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب