نماز کی شرائط کی خاطر مؤخر کرنا جائز ہے یا نہیں؟
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

کیا نماز کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے نماز کو مؤخر کرنا جائز ہے؟ مثلاً، اگر کوئی شخص پانی حاصل کرنے میں مشغول ہو تو کیا وہ نماز مؤخر کر سکتا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بات یہ ہے کہ نماز کو اس کے مقررہ وقت سے مؤخر کرنا کسی صورت جائز نہیں، خاص طور پر جب وقت ختم ہونے کا اندیشہ ہو۔ ایسی حالت میں انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے موجودہ حالات کے مطابق نماز ادا کرے، چاہے شرط (مثلاً پانی) کا حاصل ہونا قریب ہی کیوں نہ ہو۔

قرآنِ مجید کی واضح ہدایت:

﴿إِنَّ الصَّلوةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـبًا مَوقوتًا﴾
… سورة النساء: 103
"بے شک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ) میں ادا کرنا فرض ہے۔”

یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ نماز کا مقررہ وقت میں ادا کرنا واجب ہے۔

نبی کریم ﷺ کی تعلیم:

رسول اللہ ﷺ نے نماز کے اوقات کو واضح طور پر متعین فرما دیا ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر مسلمان نماز کو اس کے وقت میں ہی ادا کرے۔

تیمم کی مشروعیت سے استدلال:

اگر نماز کی شرائط (جیسے پانی) کے حصول کے لیے انتظار کرنا جائز ہوتا، تو تیمم کو شریعت میں مشروع قرار دینا درست نہ ہوتا، کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ نماز کا وقت گزرنے کے بعد پانی دستیاب ہو جائے۔ لہٰذا جب پانی میسر نہ ہو تو تیمم کیا جاتا ہے تاکہ نماز اپنے وقت میں ادا ہو جائے۔

وقت قلیل ہو یا طویل، مؤخر کرنا درست نہیں:

نماز کو چاہے تھوڑی دیر کے لیے مؤخر کیا جائے یا زیادہ دیر کے لیے، دونوں صورتوں میں نماز اپنے وقت سے نکل جاتی ہے۔ اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اور مؤخر کرنا درست نہیں رہتا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مؤقف:

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے کہ نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرنا جائز نہیں ہے، چاہے نماز کی شرط پوری کرنا باقی ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1