نماز کی اہمیت:
قرآن مجید میں فلاح یاب ہونے والوں کی ایک صفت یہ بیان ہوئی ہے:
وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ
(23-المؤمنون:9)
”اور جو اپنی نمازوں پر محافظت کرتے ہیں۔“
دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا
(20-طه:132)
”اپنے اہل و عیال کو نماز قائم کرنے کا حکم دیجیے اور خود بھی نماز کی پابندی کیجیے۔“
نماز اسلام کا بنیادی رکن ہے، جس کے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ ارشاد نبوی ہے:
بني الإسلام علىٰ خمس: شهادة أن لا إلٰه إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة والحج وصوم رمضان
”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بلا شبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔“
(بخاري، كتاب الإيمان، باب دعاؤكم إيمانكم الخ : 8)
❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رأس الأمر الإسلام وعموده الصلاة
”تمام معاملات کی اصل اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے۔“
(ترمذی، کتاب الإيمان، باب ما جاء في حرمة الصلاة : 2616۔ صحیح۔ مسند أحمد : 231/5)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أول ما يحاسب به العبد يوم القيامة صلاته فإن صلحت فقد أفلح وأنجح، وإن فسدت فقد خاب وخسر
”بلاشبہ قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے اس کی نماز کا حساب ہوگا، جس کی نماز صحیح اور مکمل ہوئی تو وہ کامیاب ہو گیا اور نجات پا گیا اور جس کی نماز خراب ہوئی وہ ناکام اور تباہ ہو گیا۔“
(نسائی، کتاب الصلاة، باب المحاسبة على الصلاة : 466۔ صحیح)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خمس صلوات افترضهن الله عز وجل، من أحسن وضوءهن وصلاهن لوقتهن وأتم ركوعهن وخشوعهن، كان له على الله عهد أن يغفر له، ومن لم يفعل فليس له على الله عهد، إن شاء غفر له، وإن شاء عذبه
”اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں جس نے ان کے لیے اچھی طرح وضو کیا اور انھیں بروقت ادا کرتا رہا مکمل رکوع اور پورے خشوع سے نماز ادا کی، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا عہد ہے کہ وہ اسے ضرور بخشے گا اور جس نے یہ کام نہ کیا اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا کوئی عہد نہیں ہے، چاہے معاف کر دے اور چاہے اسے عذاب دے۔“
(أبوداود، کتاب الصلاة، باب المحافظة على الصلوات : 425۔ صحیح)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وقت میں امت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
الصلاة، الصلاة، واتقوا الله فيما ملكت أيمانكم
”لوگو! نماز کا خیال رکھنا، لوگو! نماز کا خیال رکھنا اور اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔“
(أبوداود، کتاب الأدب، باب في حق المملوك : 5156۔ صحیح)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب کوئی شخص مسلمان ہوتا تو سب سے پہلے اسے نماز سکھائی جاتی۔
(السلسلة الصحيحة : 66/1/7، ح : 3030۔ صحیح)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کی طرف خط لکھا: ”میرے نزدیک تمھارا اہم ترین فریضہ اقامت صلوۃ ہے، کیونکہ جس نے نماز کی حفاظت کی اور اس پر ہمیشگی کی اس نے اپنے دین کی حفاظت کی اور جس نے نماز ضائع کر دی تو وہ دین کے دیگر امور کو زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔“
(الموطأ، کتاب وقوت الصلاة، باب وقوت الصلاة : 6)
نماز کی فضیلت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الصلوات الخمس كفارات لما بينهن
”پانچوں نمازوں کی پابندی آدمی کے تمام صغیرہ گناہ مٹا دیتی ہے۔“
(السلسلة الصحيحة : 553/4، ح : 1920)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے پوچھا:
أرأيتم لو أن نهرا بباب أحدكم يغتسل فيه كل يوم خمسا ما تقول ذلك يبقي من درنه؟ قالوا لا يبقي من درنه شيئا، قال فذلك مثل الصلوات الخمس يمحو الله به الخطايا
تم میں سے جس کے دروازے پر نہر ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ نہائے، تو کیا اس کے جسم پر کوئی میل رہ سکتی ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: ”ذرا بھی میل نہیں رہ سکتی۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے ہی پانچ نمازیں ہیں، ان کے ذریعے اللہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔“
(بخاری، کتاب مواقيت الصلاة، باب الصلوات الخمس كفارة : 528۔ مسلم : 1522)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن لله ملكا ينادي عند كل صلاة يا بني آدم! قوموا إلىٰ نيرانكم التى أوقدتموها علىٰ أنفسكم فاطفئوها بالصلاة
”بے شک ہر نماز کے وقت اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ صدا لگاتا ہے: اے لوگو! اس آگ کو بجھانے کے لیے اٹھو جسے تم نے اپنے گناہوں کی بدولت اپنے لیے جلا رکھا ہے، اسے نماز کے ذریعے بجھا دو۔“
(طبراني أوسط : 11509۔ طبرانی صغیر : 1131۔ صحیح الترغيب والترهيب : 86/1، ح : 358، 359۔ حسن)
اور بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أراد الله رحمة من أراد من أهل النار أمر الله الملائكة أن يخرجوا من كان يعبد الله، فيخرجونهم ويعرفونهم بآثار السجود، وحرم الله على النار أن تأكل أثر السجود
”جب اللہ تعالیٰ جہنمی لوگوں پر رحمت کرنے کا ارادہ کرے گا تو فرشتوں کو حکم دے گا کہ جس نے بھی خالص اللہ کی عبادت کی ہے اسے جہنم سے باہر نکال لو، تو فرشتے انھیں پیشانیوں پر سجدوں کے نشان سے پہچان کر باہر نکالیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آگ پر سجدے کے نشان کو جلانا حرام قرار دیا ہے۔“
(بخاری، کتاب الأذان، باب فضل السجود : 806)
اور ایک دوسری جگہ فرمایا:
جعلت قرة عيني فى الصلاة
”میری آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث نماز ہے۔“
(نسائی، کتاب عشرة النساء، باب النساء : 3391۔ صحیح)
بے نماز کا حکم:
❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ
(4-النساء:142)
”بلاشبہ منافقین اللہ سے دھوکا بازی کر رہے ہیں، حالانکہ اللہ انھیں دھوکا دینے والا ہے، ان کی نشانی یہ ہے کہ جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو نہایت سستی سے کھڑے ہوتے ہیں۔“
سورۃ توبہ میں ہے:
فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ
(9-التوبة:5)
”مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انھیں پکڑو اور انھیں گھیرو اور ان کے لیے ہر گھات کی جگہ بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کر کے نماز ادا کرنے اور زکوۃ دینے لگیں تب انھیں چھوڑ دو۔“
دوسري جگه فرمايا:
فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ
(9-التوبة:11)
”اگر یہ مشرک لوگ توبہ کر لیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوۃ دینے لگیں تو تمھارے دینی بھائی ہیں وگرنہ نہیں۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن بين الرجل وبين الشرك والكفر ترك الصلاة
”بلاشبہ آدمی اور شرک و کفر کے درمیان فرق نماز کا چھوڑنا ہے۔“
(مسلم، کتاب الإيمان، باب بيان إطلاق اسم الكفر على من ترك الصلاة : 82)
اور ایک دوسرے موقع پر فرمایا:
العهد الذى بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها فقد كفر
”ہمارے اور ان کافروں کے درمیان نماز قائم رکھنے کا عہد ہے، جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا۔“
(ترمذی، کتاب الإيمان، باب ما جاء في ترك الصلاة : 2621۔ نسائی : 464۔ ابن ماجه : 1069۔ صحیح)
❀ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”جس نے نماز ترک کر دی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔“
(مصنف ابن أبي شيبة : 218/7۔ السنن الكبرى للبيهقي : 257/1، ح : 1673)
❀ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”جو نماز چھوڑ دے اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔“
(مصنف ابن أبي شيبة : 16/6، ح : 30388)
❀ عبد اللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ترک نماز کے علاوہ کسی گناہ کو کفر نہیں سمجھتے تھے۔“
(ترمذی، کتاب الإيمان، باب ما جاء في ترك الصلاة : 2622۔ صحیح)
بے نماز کا انجام :
❀ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ﴿٥٩﴾
(19-مريم:59)
”پھر ان نبیوں کے بعد نالائق لوگ ان کے جانشین بنے، جنھوں نے نماز ضائع کی اور خواہشات کے پیچھے لگ گئے، وہ عنقریب اس گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں گے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
من حافظ عليها كانت له نورا وبرهانا ونجاة يوم القيامة، ومن لم يحافظ عليها لم يكن له نور ولا برهان ولا نجاة وكان يوم القيامة مع قارون وفرعون وهامان وأبي بن خلف
”جس نے نمازوں کی حفاظت کی، قیامت کے دن یہ نماز اس کے لیے نور، دلیل اور نجات کا سبب ہوگی اور جس نے اس کی حفاظت نہ کی اس کے لیے قیامت کے دن کوئی نور، دلیل اور نجات نہیں ہوگی اور وہ شخص قارون، فرعون، ہامان اور أبی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔“
(مسند أحمد : 169/2، ح : 6576۔ صحیح ابن حبان : 1467۔ شعیب الأرؤوط نے اسے صحیح کہا ہے)
جنتی لوگ جہنم میں جانے والے اپنے دوستوں سے جہنم میں جانے کا سبب پوچھیں گے تو وہ جواباً کہیں گے:
قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ
(74-المدثر:43)
”جہنمی کہیں گے کہ ہم نماز نہیں ادا کرتے تھے۔“