نماز پنجگانہ کی مؤکدہ دس یا بارہ سنتوں کے علاوہ بعض نمازوں کے ساتھ کچھ غیر مؤکدہ سنتوں کا ثبوت بھی احادیث سے ملتا ہے، جن کا حکم ان کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ وہ غیر راتبہ یا غیر مؤکدہ ہیں۔ کوئی پڑھ لے تو ثواب ہے، نہ پڑھے تو گناہ نہیں ہوتا۔ ایسی سنتوں میں سے نماز فجر اور ظہر کے ساتھ تو کوئی نہیں، اس طرح نماز فجر کی کل چار ہی رکعتیں ثابت ہیں، جن میں سے دو سنتیں مؤکدہ اور دو فرض ہیں، اور نماز ظہر کی اگر فرضوں سے پہلے دو مؤکدہ سنتوں والی حدیث پر عمل کیا جائے تو آٹھ رکعتیں ہوئیں: دو مؤکدہ سنتیں پہلے، پھر چار فرض اور بعد میں پھر دو مؤکدہ سنتیں۔ اور اگر فرضوں سے پہلے چار مؤکدہ سنتوں والی حدیث پر عمل کیا جائے تو کل دس رکعتیں ہو گئیں۔ یہاں ایک بات یہ بھی پیش نظر رہے کہ سنن اربعہ، مسند احمد، مستدرک حاکم اور شرح السنہ بغوی میں ایک حدیث ہے جس میں ظہر کے فرضوں کے بعد بھی چار ہی سنتوں کا ذکر ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے:
من حافظ على أربع ركعات قبل الظهر وأربع بعدها حرمه الله على النار
ابوداؤد مع العون 13/7/2، جامع الاصول 18/7، نیل الاوطار 16/3/2، مشکاة 328/1 و صححه الالبانی، شرح السنہ 464/3 و صححه محققوه بمجموع طرقه
جو شخص نماز ظہر کے فرضوں سے پہلے چار اور فرضوں کے بعد بھی چار رکعتیں پابندی کے ساتھ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ پر حرام کر دیتا ہے
اس طرح ظہر کی کل رکعتیں بارہ ہو گئیں: چار سنتیں پہلے، پھر چار فرض اور چار ہی بعد میں۔ اس حدیث میں جو حیثیت پہلی چار سنتوں کی ہے وہی بعد والی چاروں کی ہے۔ لہذا بعد والی چار رکعتوں میں جو دو سنتیں اور دو نفل کا فرق کیا جاتا ہے وہ تو ثابت نہیں۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ چاہے تو چار سنتیں پڑھ لے یا دو پر ہی اکتفا کر لے، جیسا کہ فرضوں سے پہلے کی سنتوں میں اختیار اور وسعت ہے، البتہ اکثر اوقات اور بعض اوقات کی جو تفصیل گزری ہے وہ سامنے رکھنا زیادہ مناسب ہے۔
نماز عصر کے ساتھ مؤکدہ سنتیں تو کوئی نہیں، البتہ غیر مؤکدہ سنتوں کا پتا چلتا ہے۔ اس سلسلہ میں بھی دو طرح کی احادیث ہیں۔ بعض میں چار سنتوں کا ذکر ہے اور بعض میں صرف دو رکعتیں ہی مذکور ہیں، چنانچہ ابوداؤد، ترمذی، مسند احمد اور شرح السنہ بغوی میں ارشاد نبوی ہے:
رحم الله امرأ صلى قبل العصر أربعا
شرح السنہ 470/3 و صححه محققوه وصححه ابن خزیمہ، جامع الاصول 19/7، مشکاة 367/1 و حسنه الالبانی
اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو نماز عصر کے فرضوں سے پہلے چار رکعتیں پڑھتا ہے
اسی طرح ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قبل العصر أربع ركعات يفصل بينهن بالتسليم
صحیح ابن خزیمہ 218/2 و حسنه الالبانی، شرح السنہ 467/3 و حسنه و حسنه الترمذی، مشکاة مع المرعاة 149/4، حدیث 598,599، صحیح الترمذی 135/1 و الالبانی المشکاة 368/1، جامع الاصول 19/7، مسند احمد 143-146/5 و صححه احمد شاکر المصری 494/1، سنن ابن ماجہ 367/1، حدیث 1161
نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور ان کے مابین (دو رکعتوں کے بعد) سلام پھیر کر فصل کیا کرتے تھے
یعنی اکٹھی چار ایک سلام سے نہیں، بلکہ درمیان میں بھی سلام پھیرتے تھے۔ لیکن جائز دونوں طرح ہی ہے، جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔
دیکھیے عنوان نماز ظہر کی سنن راتبہ
ابوداؤد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے:
وكان النبى صلى الله عليه وسلم يصلي قبل العصر ركعتين
ابوداؤد مع العون 50/4 و حسنه الالبانی فی المشکاة 368/1 والارواء فی تحقیق زاد المعاد 311/1
نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے
لہذا دونوں طرح ہی جائز ہے، چاہے تو چار سنتیں پڑھ لے یا دو، اور یہ سب ہیں بھی غیر مؤکدہ۔ عصر سے پہلے چار سنتوں کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ متن میں ان کے پڑھنے والے کے لیے دعائے نبوی رحم الله کا گزری ہے۔ طبرانی کبیر واوسط میں ہے:
لم تمسه النار
اسے آگ نہیں چھوئے گی
ابونعیم میں ہے:
غفر الله له
اللہ اسے بخشے
ابویعلی میں ہے:
بنى الله له بيتا فى الجنة
اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنادیتا ہے
طبرانی کبیر میں ہے:
وحرم الله بدنه على النار
انظر التفصیل عون المعبود 139/3
اللہ اس کا جسم آگ پر حرام کر دیتا ہے
فليتنا من المتسابقين والله الموفق