بے نماز اہل خانہ کے ساتھ رہائش اختیار کرنے کا حکم
سوال:
اگر کوئی شخص اپنے اہل خانہ کو نماز کی تاکید کرتا ہے، لیکن وہ اس کی بات نہیں مانتے تو کیا وہ ان کے ساتھ رہنا جاری رکھے یا پھر اس گھر کو چھوڑ دے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر اہلِ خانہ نماز بالکل ادا نہیں کرتے، تو وہ اسلام سے خارج، مرتد اور کافر سمجھے جائیں گے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ رہنا جائز نہیں۔ البتہ ضروری ہے کہ انہیں بار بار، تاکید کے ساتھ نماز کی دعوت دیتا رہے، شاید اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے دے۔ کیونکہ نماز چھوڑنے والا قرآن، سنت، صحابہ کرامؓ کے اقوال اور عقل کی روشنی میں کافر شمار ہوتا ہے۔ *والعیاذ باللہ*
بے نمازی کو کافر نہ ماننے والوں کے دلائل کا جائزہ
جو لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ بے نمازی کافر نہیں ہوتا، ان کے دلائل درج ذیل چار اقسام سے خالی نہیں ہوتے:
✿ دلائل کی مکمل عدم موجودگی۔
✿ دلائل ایسے اوصاف کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں، جن میں ترکِ نماز ممنوع ہو۔
✿ یا پھر یہ دلائل ایسی حالت کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں، جن میں ترکِ نماز معذور شخص کے لیے جائز ہو۔
✿ یا یہ دلائل عمومی نوعیت کے ہوتے ہیں، جبکہ نماز نہ پڑھنے والے کے کفر سے متعلق احادیث مخصوص نوعیت کی ہیں۔
نماز چھوڑنے والے کے کفر پر شرعی اثرات
چونکہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ نماز نہ پڑھنے والا کافر اور مرتد ہے، اس لیے اس پر وہی احکام لاگو ہوں گے جو دیگر مرتدین پر ہوتے ہیں:
1. نکاح کا عدم جواز
✿ ایسے شخص کے ساتھ نکاح جائز نہیں۔
✿ اگر نکاح ہو چکا ہو اور وہ نماز نہیں پڑھتا تو نکاح باطل ہوگا۔
✿ اس کی بیوی اس کے لیے حلال نہیں ہوگی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَإِن عَلِمتُموهُنَّ مُؤمِنـتٍ فَلا تَرجِعوهُنَّ إِلَى الكُفّارِ لا هُنَّ حِلٌّ لَهُم وَلا هُم يَحِلّونَ لَهُنَّ﴾ … سورة الممتحنة: 10
’’سو اگر تم کو معلوم ہو کہ وہ مومن ہیں تو ان کو کفار کے پاس واپس نہ بھیجو کیونکہ نہ یہ ان کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ ان کے لئے جائز ہیں۔‘‘
2. نکاح کے بعد ترکِ نماز
✿ اگر کسی نے نکاح کے بعد نماز چھوڑ دی تو نکاح فسخ ہو جائے گا۔
✿ بیوی اس کے لیے حلال نہیں رہے گی۔
✿ اہلِ علم کے ہاں دخول سے پہلے اور بعد کی تفصیل معروف ہے۔
3. ذبیحہ کا حکم
✿ اگر بے نمازی کسی جانور کو ذبح کرے تو اس کا گوشت حرام ہے۔
✿ اس کے برعکس، یہودی یا عیسائی کا ذبح کردہ جانور کھایا جا سکتا ہے۔
✿ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بے نمازی کا ذبیحہ یہود و نصاریٰ کے ذبیحہ سے زیادہ خبیث ہے۔
4. مسجدِ حرام میں داخلہ ممنوع
✿ بے نمازی کے لیے مکہ مکرمہ یا حدودِ حرم میں داخل ہونا جائز نہیں کیونکہ:
﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا المُشرِكونَ نَجَسٌ فَلا يَقرَبُوا المَسجِدَ الحَرامَ بَعدَ عامِهِم هـذا﴾ … سورة التوبة: 28
’’اے مومنو! مشرک تو پلید ہیں، لہٰذا اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں۔‘‘
5. وراثت سے محرومی
✿ اگر کوئی مسلمان فوت ہو اور اس کا بیٹا نماز نہ پڑھتا ہو تو وہ وراثت کا حق دار نہیں۔
✿ حتیٰ کہ اگر چچا کا بیٹا (جو قرابت میں دور ہے) مسلمان ہو تو وہ وارث بنے گا، جبکہ بے نمازی بیٹا وارث نہیں ہوگا۔
«لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ وَلَا الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ»
’’مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا۔‘‘
(صحيح البخاري، الفرائض باب لا يرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم، ح: ۶۷۶۴)
(صحيح مسلم، الفرائض، باب لا يرث المسلم الکافر ولا يرث الکافر المسلم، ح:۱۶۱۴)
«أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِیَ فَلِأَوْلَی رَجُلٍ ذَکَرٍ»
’’میراث کے حصے ان کے حق داروں کو دے دو اور جو باقی بچ جائے وہ قریب ترین مرد کے لیے ہے۔‘‘
(صحيح البخاري، الفرائض، باب ميراث الولد من ابيه وامه، ح: ۶۷۳۲)
(صحيح مسلم، الفرائض، الحقوا الفرائض باهلها، ح: ۱۶۱۵)
6. تدفین کے احکام
✿ بے نمازی کے انتقال پر:
➤ نہ غسل دیا جائے گا
➤ نہ کفن دیا جائے گا
➤ نہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی
➤ نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا
اسے صحرا میں ایک گڑھا کھود کر، کپڑوں سمیت دفن کیا جائے گا، کیونکہ اس کی کوئی شرعی حرمت نہیں۔
لہٰذا اگر کسی کے پاس ایسا شخص فوت ہو جس کے بارے میں یہ یقین ہو کہ وہ نماز نہیں پڑھتا تھا، تو اسے مسلمانوں کے سامنے لا کر جنازہ پڑھوانا جائز نہیں۔
7. قیامت کے دن انجام
✿ قیامت کے دن بے نمازی کو فرعون، ہامان، قارون اور ابی بن خلف کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ *والعیاذ باللہ*
✿ جنت میں داخل نہیں ہوگا
✿ اس کے اہلِ خانہ کے لیے جائز نہیں کہ اس کے لیے دعائے رحمت یا مغفرت کریں کیونکہ:
﴿ما كانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذينَ ءامَنوا أَن يَستَغفِروا لِلمُشرِكينَ وَلَو كانوا أُولى قُربى مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُم أَنَّهُم أَصحـبُ الجَحيمِ﴾ … سورة التوبة: 113
’’پیغمبر اور مسلمانوں کو شایان نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل دوزخ ہیں تو ان کے لیے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قرابت دار ہی ہوں۔‘‘
علما کا دوسرا موقف
یہ مسئلہ بہت اہم ہے، لیکن افسوس کہ کچھ لوگ اس معاملے میں غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے گھروں میں ایسے افراد کو برداشت کرتے ہیں جو نماز نہیں پڑھتے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا فتویٰ واضح کرتا ہے کہ تارکِ نماز اسلام سے خارج ہے۔
تاہم بعض علما کا موقف یہ بھی ہے کہ:
✿ "فَقَدْ کَفَرَ” جیسی حدیث میں کفر عملی مراد ہے، نہ کہ کفر اعتقادی۔
✿ ایسا شخص ملتِ اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتا۔
✿ بعض اعمال پر بھی "کفر” کا لفظ آیا ہے، جیسے:
"سباب المسلم فسوق وقتالہ كفر”
اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے سورہ حجرات میں لڑنے والے گروہوں کو "مومن” ہی کہا ہے۔
لہٰذا جب تک کفر اعتقادی یا کفر حجت کا ارتکاب نہ ہو، محض کفر عملی یا کسی کبیرہ گناہ کی بنیاد پر کسی مسلمان کو مرتد قرار دینا جائز نہیں، نہ ہی اس پر مرتدین کے احکام لاگو کیے جا سکتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب