نماز میں پاؤں کو کشادہ رکھنے کا مسئلہ
یہ تحریرمولانا ابو صحیب داؤد ارشد حفظہ اللہ کی کتاب تحفہ حنفیہ سے ماخوذ ہے۔ یہ کتاب دیوبندی عالم دین ابو بلال جھنگوی کیجانب سے لکھی گئی کتاب تحفہ اہلحدیث کا مدلل جواب ہے۔

پاؤں کو کشادہ رکھنے کا مسئلہ

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
((عن النبيﷺ ما قال اقيموا صفوفكم فانى اراكم من وراء ظهري و كان احدنا يلزق منكبه يمنكب صاحبه وقد مه بقدمه))
يعنی نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ صفیں برابر کر لو میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں اور ہم میں سے ہر شخص یہ کرتا کہ ( صف ) میں اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا قدم اس کے قدم سے ملاد یتا تھا۔
( بخاری کتاب الصلوة با الذاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم))

اس حدیث میں دو باتوں کا ذکر ہے:

اول: ارشاد نبی کی تعمیل میں صحابہ کا کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملانا۔
ثانیا: آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا صحابہ کرام کے عمل کو دیکھنا۔
پہلی بات سے معلوم ہوا کہ اقامت صفوف کا معنی کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملانا ہے۔ دوسری بات سے ثابت ہوا کہ یہی معنی درست ہے کیونکہ اس معنی کی تصدیق آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے اپنی دید سے کی ہے جب کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملایا جائے تو قد موں کا درمیانی فاصلہ نکل آتا ہے کیونکہ اگر نمازی اپنے قدموں کو کشادہ کر کے نہ رکھے تو پاؤں مل ہی نہیں سکتے۔ پاؤں تب ہی مل سکتے ہیں جب نمازی کندھوں جتنا فاصلہ قدموں میں بھی رکھے یہ سیدھی سی بات ہمارے معاصر کے الٹے دماغ میں نہیں آتی۔ جس کی وجہ سے لکھتا ہے کہ:

اگر آپ صحیح حدیث شریف میں دکھلا دیں جس کا ترجمہ یہ ہو کہ پاؤس کو اتنے چوڑے رکھو کہ اپنے کندھوں کے برابر ہو جائیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 21)

راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ کیا آپ کے نزدیک کسی حدیث کا مفہوم قابل حجت نہیں اور کیا فقہ حنفی کے اصول میں اشارة العص کو مستقل دلیل کے طور پر قبول نہیں کیا گیا ؟ اگر کیا گیا ہے یقینا کیا گیا ہے تو پھر آپ اس حدیث پر عمل کر کے دکھا ئیں کہ کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم تو مل جائے مگر کندھوں کے برابر پاؤں چوڑے نہ ہوں۔
یقین جانئے کہ پوری دنیا کے منکرین سنت کو شش کے باوجود ایسا کر کے دکھا نہیں سکتے‘ معلوم ہوا کہ جھنگوی صاحب نے مذکورہ بات سنت خیر الانام ﷺ کے بغض میں اور اہلحدیث سے تعصب کی وجہ سے لکھ دی ہے ورنہ اس پر حدیث موجود ہے۔ پھر بخاری شریف کے مذکورہ باب میں تعلیقاً امام بخاری حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کا اثر لائے ہیں کہ :
(( رایت الرجل منا يلزق كعبه بكعب صاحبه))
یعنی میں نے دیکھا کہ ایک شخص ہم (صحابہ کرام) میں سے دوسرے کے کندھے سے کندھا ملاتا تھا۔

حنفی : پیارے! اس روایت کی سند نہیں ہے۔ ( تحفہ اہل حدیث ص 23)

محمدی:

گویا آپ بغیر سند کے کوئی بات قبول نہیں کرتے اس بات پر قائم رہنا تو تب بات ہے کیونکہ فقہ حنفی میں مروی اکثر اقوال بلا سند ہیں تو پھر آپ اس کو ترک کیوں نہیں کر دیتے۔
آپ پر واضح ہو کہ اس کی سند بھی موجود ہے ۔ چنانچہ یہ حدیث
(مسند احمد ص 76 2 3 4و ابو داود ص 197 ودار قطنی ص 283 – 282 ج 1 و تعقی س 100-101 ج 3 اور صحیح ابن حبان رقم الحدیث 2173) میں باسند موجود ہے۔

حنفی: مگر اس کی سند میں ذکریا بن ابی زائدہ ر اوی مدلس ہے اور عن سے روایت کرتا ہے۔ ( تحفہ اہل حدیث ص 30)

محمدی:

پہلے تو آپ نے اس کی سند کے وجود سے انکار کیا جب دکھائی گئی تو پہلی بات سے مکر گئے اور سند پر اعتراض کر دیا۔ میرے عزیز بھائی! اسنن دار قطنی میں تحدیث کی صراحت ہے جس کی وجہ سے تدلیس کا اعتراض کرناہی فضول ہے حافظ ابن حجر نے بخاری کی شرح میں لکھا ہے کہ اس حدیث کو ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔ (فتح الباری ص 167 ج 2)
اور خود حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ واسنادہ حسن، تغلیق التعلیق ص 303 ج 2 یعنی اس کی سند حسن درجہ کی ہے۔

حنفی: حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ المراد بذلك المبالغة في تعديل الصف و سد خللہ یعنی اس حکم سے مقصود صفوں کی درستگی اور درمیانی جگہ کو پر کرنے میں مبالغہ کرنا ہے۔

محمدی:

بالآخر آپ نے حقیقت کو قبول ہی کر لیا بھائی ! مبالغہ کا یہ مفہوم تو ہو نہیں سکتا کہ پاؤں کے درمیان میں بالشت بھر جگہ کو چھوڑ چھوڑ کر نمازی کھڑے ہوں کیونکہ کسی چیز میں تکلف کو مبالغہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ چنانچہ علامہ فتنی حنفی مبالغہ کا معنی کرتے ہیں ’’ اذا اجتهد في الامر‘‘ یعنی جب کسی کام میں کوشش کی جائے تو اسے مبالغہ کہتے ہیں۔ ( مجمع بحار الانوار ص 219 ج 1)
یہی معنی علامہ ابن منظور افریقی نے (لسان العرب ص 420 ج 8) میں اور علامہ محمد مرتضی زبیدی حنفی نے (تاج العروس ص 5 ج 6) میں کیے ہیں۔ آپ کی مسلمہ شرح کی رو سے حدیث کا معنی یہ ہوا کہ کندھے اور ٹخنوں کو خوب ملایا جائے ۔ مگر افسوس آپ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے کلام کو غلط معنی دے کر اہل حدیث کو للکار رہے ہیں پھر اس غلط بیانی پرآپ کو شرم ہے نہ حیا۔

حنفی : چلو ان پر عمل کر کے دیکھ لیتے ہیں کہ یہ چاروں چیزیں آدمی ملا بھی سکتا ہے یا نہیں۔ گردن سے گردن کندھے سے کندھا‘ گھٹنے سے گھٹنا‘ ٹخنے سے ٹخنہ‘ یہ چاروں تو مل نہیں سکتیں۔

محمدی:

یہ بات مقلداعمی نے ابو داؤد کی حدیث نعمان رضی اللہ عنہ کے جواب میں تحریر کی ہے حالانکہ حدیث نعمان بن بشیر میں گردن ملانے کا قطعاً ذکر نہیں۔
ہم قارئین کرام کی تسلی کے لئے اصل متن حدیث نقل کرتے ہیں۔
((اقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على الناس بوجهه فقال اقيموا صفوفكم ثلاثا والله لتقيمن سفوفكم اوليحا لفن الله بين قلوبكم قال فرايت الرجل يلزق منكبه بمنكب صاحبه وركبته بركبته صاحبه و کعبه بكعبه ))
(سنن ابی داؤد ص 97 ج 1 باب تسویۃ الصفوف)
اس کا معنی مولوی انوار خورشید حنفی دیوبندی سے نقل کیا جاتا ہے ( رسول اللہ ﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور تین بار فرمایا کہ اپنی صفوں کو سیدھا کرو۔ اللہ کی قسم تم لوگ ضرور اپنی صفوں کو سیدھا کر لو ورنہ اللہ تعالی تمہارے دلوں میں پھوٹ ڈال دیں گے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (اس کے بعد ) میں نے دیکھا کہ ایک شخص دوسرے شخص کے کندھے سے کندھا‘ گھٹنے سے گھٹنہ اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہو تا تھا۔)
(حدیث اور اہل حدیث ص 511)
اب دیکھیے جناب ابو بلال جھنگوی صاحب نے متن حدیث کو بگاڑتے ہوئے اپنی طرف سے گردن ملانے کا اضافہ ولا حقہ بھی کر دیا ہے۔ پھر اس بددیانتی کو جان بوجھ کر کیا گیا ہے‘ مزید قابل افسوس بات یہ ہے کہ اس عیاری ومکاری اور بے ایمانی کو بنیاد بنا کر سنت کا مذاق اڑایا گیا ہے کہ آپ حضرات گردن نہیں ملاتے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 25)

حنفی : ابو داؤد کا ص 97 ج 1 ہے اس میں پورا باب ہے اس میں ایک حدیث تو ابن عمر سے مروی ہے کہ شیطان کے لئے درمیان میں فاصلہ نہ چھوڑو۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ نبی علیہ السلام ہماری صفوں میں آکر صفیں درست فرماتے‘ ہمارے کندھوں اور سینوں کو ہاتھ لگا کر برابر کرتے ۔ تیسری حدیث میں آیا ہے (قاربوا بينهما وحاذوا بالاعناق ) قريب قریب ہو جاؤ اور گردنوں کو برابر رکھو۔ چوتھی روایت میں (حاذوا بين المناكب) کندھوں کو برابر کرو ہے۔ ان روایات میں اعناق اور مناکب کے ساتھ لفظ حاذوا آیا ہے جس کا معنی ہے برابر رکھو محاذات کا معنی چمٹاؤ کوئی بھی نہیں کرتا اگر حاذوا بين المناكب کا ترجمہ کندھے سے کندھا ملانا کرو گے تو پھر یقیناً یہ روایت نمبر 3 میں حاذوا بین الاعناق میں بھی یہی ترجمہ کرنا پڑے گا۔ کہ گرد نیں ملاؤ پھر اس پر عمل غیر مقلدین بھی نہیں کرتے جہاں کندھے ملاتے ہیں گرد نیں بھی ملا ئیں ذرا میرے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور گردن کے ساتھ گردن ملا کہ دکھائیں۔
( تحفہ اہلحدیث ص 24)

محمدی:

اولاً:- بات کو سمجھنے کے لئے بہتر یہ ہے کہ پہلے ابو داؤد کی احادیث کو ہم نقل کریں پھر آپ کی فضولیات پر تبصرہ کریں۔
(1) ((عن ابن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال اقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب و سدوا الخلل ولينوا بايدى اخوانكم ولا تذروا فرحات للشيطان ومن وصل صفا وصله الله ومن قطع صفا قطعه الله ))
یعنی حضرت عبید اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا صفوں کو قائم کرو کندھوں کو برابر کر و خالی جگہوں کو بند کرو اور اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جاؤ۔ شیطان کے لیے صف میں خالی جگہ نہ چھوڑو جس نے صف کو ملایا اللہ اسے ملا ئیں گے اور جس نے صف کو کاٹا اللہ اسے کاٹ دیں گے۔
(ترجمہ از حدیث اور اہل حدیث 508)
(۲) ((عن البراء بن عازب قال كان رسول الله بل يتخلل الصف من ناحية إلى ناحية يسمح صدورنا و مناكيانا ويقول لا تختلفوا فتختلف قلوبكم وكان يقول ان الله عزو جل وملائكته يصلون على الصفوف الاول )) ( سنن ابي داود 97 )
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صف کے اندر آتے تھے‘ ادھر ادھر سے اور ہمارے سینوں اور کندھوں کو برابر کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ آگے پیچھے مت ہو ورنہ تمہارے دل مختلف ہو جائیں گے اور فرماتے تھے اللہ جل جلالہ اپنی رحمت بھیجتے ہیں اور فرشتے دعا رحمت کرتے ہیں پہلی صف والوں کے لئے۔
(ترجمہ از حدیث اور اہل حدیث جن 509)
(۳) ((عن انس بن مالك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال رصوا صفوفكم وقاربوا بينها وحاذوا بالاعناق فوالذي نفسي بيده انى لارى الشيطان يدخل ، خلل الصف كانها الحذف )) (سنن ابی داود ص 97 ج 1)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضور علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اپنی صفوں کو ملاؤ اور انہیں نزدیک رکھو اور گردنوں کو برابر رکھو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں شیطان کو دیکھتا ہوں کہ وہ صف کی خالی جگہوں سے گھس آتا ہے گویا کہ وہ بھیٹر کا چھوٹا سا بچہ ہے۔
(ترجمه از حدیث اور اہل حدیث ص 510)
قارئین کرام! اباقی باتیں تو بعد میں ہو نگی پہلے ہم یہ عرض کر دینا مناسب خیال کرتے ہیں کہ مؤلف حدیث اور اہل حدیث نے آخری حدیث میں لفظ ” بیدہ " کا معنی‘ جس کے قبضہ قدرت میں کیا ہے‘ اور یہ الفاظ نبوی میں تحریف ہے کیونکہ ید کا معنی ہاتھ ہوتا ہے کسی لغت کی کتاب میں ید کا یہ معنی نہیں لکھا جو اس حنفی نے حنفیت کی وکالت میں کیا ہے۔
دوسری بات یہ کہ مؤلف تخفہ اہل حدیث نے جو نمبر 1 اور نمبر 3 میں علیحدہ علیحدہ حدیث بیان کی ہے وہ دراصل ایک ہی حدیث ہے جس کو ہم نے اول نمبر پر درج کیا ہے لہذا جھنگوی صاحب کا اسے دو احادیث جدا جدا باور کرنا جہالت اور تقلید ی ہاتھ کی صفائی ہی کہہ سکتے ہیں۔
ثانیاً: اب ترتیب وار ان کا جواب سنئے کہ پہلی حدیث میں حاذوا بين المناكب ( جسے مؤلف تحفہ اہل حدیث نے چوتھے نمبر پر ذکر کیا ہے) سے مراد یہ ہے کہ صف بناتے وقت آگے پیچھے کھڑے نہ ہوں بلکہ صف کو تیر کی طرح سیدھا رکھا جائے چنانچہ علامہ محمد طاہر النقني حنفى المتوفی 986ھ‘ حذو‘ کا معنی کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ
((ای بجنبه سواء اى مسا ويا لا يتقدم ولا يتاخر))
یعنی ایک طرف برابر کھڑا ہونا یعنی مساوی ہونا نہ آگے ہونا اور نہ ہی پیچھے ۔
( مجمع بحارالا نوار ص 465 ج 1 )
عرب لوگ بولتے ہیں (و داری حذوة دارك) یعنی میرا گھر تیرے گھر کے برابر واقع ہے۔
(لسان العرب ص 171 ج 14)
الغرض اس حدیث کا مفہوم تو یہ ہے کہ مقتدی آگے پیچھے کھڑے نہ ہوں بلکہ بر ابر صف بنائیں۔
یہ حکم وار شاد ایک الگ اور جد امسئلہ ہے اور پاؤں سے پاؤں کا ملانا اور کندھے سے کندھے کو ملانے کا الگ مسئلہ ہے اور آپ کی پیش کردہ تیسری حدیث جسے ہم نے نمبر 3 میں پورا نقل کیا ہے‘ میں الفاظ‘ حاذوا بالاعناق‘ سے بھی آپ کو غلطی لگی ہے۔ یا پھر مغالطہ دیا ہے۔ کیونکہ آپ جو بات سمجھا رہے ہیں وہ غلط ہے آپ کی ساری تحریر کا ما حاصل یہ ہے جس طرح دو نمازیوں کی گرد نیں ملنانا ممکن ہے اسی طرح حاذوا بالمناكب میں بھی فاصلہ ہونا چاہئے ۔ حالانکہ نہ وہاں ملانے کے متعلق ہے اور نہ ہی یہاں ملانے کا بیان۔ وہاں بھی بمعنی برابر اور یہاں بھی بمعنی برابر مستعمل ہے‘ البتہ ان میں ایک جوہری فرق ہے جسے آپ علم حدیث میں نالائق ہونے کی وجہ سے سمجھ نہیں پائے وہ یہ کہ پہلی حدیث میں لمبائی اور اس میں اونچائی مراد ہے۔
ملا علی قاری الحضی الموتوفی 1014ھ اس حدیث کی شرح میں تحریر کرتے ہیں کہ ((بان لا يترفع بعضكم على بعض بأن يقف فى مكان ارفع من مكان الآخر )) (مرقاة ص 71 ج 3)
یعنی اس حدیث میں حاذو بالاعناق کا معنی ہے کہ یعنی بعض تمہارے بعض سے بلند جگہ پر کھڑے نہ ہوں۔
الغرض ان الفاظ میں جس چیز کی تلقین کی گئی ہے وہ ہموار جگہ پر کھڑے ہونے کی ہے یعنی اس طرح صف میں قیام نہ ہو کہ زید کی دائیں طرف بکر ایک فٹ اونچا ہو اور بائیں طرف قاسم ایک فٹ نیچے کھڑا ہو اور یہ چیز محل نزاع سے خارج ہے۔
پھر اسی حدیث میں قار بوا بینھا کے مفہوم کو بھی آپ نے تحریف کی حد تک بگاڑ دیا ہے کہ قریب قریب ہونا مراد ہے نہ کہ مل کر کھڑے ہونے کا ذکر ہے۔ حالانکہ ان الفاظ میں دو نمازیوں کو قریب کرنا مقصود نہیں بلکہ دو صفوں کو قریب قریب کرنا مراد ہے۔
ملا علی القاری اس حدیث کی شرح میں ان الفاظ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں که:
((ای بین الصفوف بحيث لا يسع بين صفیں صف آخر فيصير تقارب اشباحكم سببا لتعاضد اروا حكم ولا يقدر الشيطان ان يمر بين أيديكم))
یعنی دو صفوں کے درمیان زیادہ کشادگی نہ ہو بلکہ ایک صف دوسری سے قریب تر ہو جس سے تمہارے قرب میں اختلاط ہو جائے یہ اس وجہ سے ہے کہ تمہاری ارواح کی آپس میں معاونت ہو اور شیطان تمہارے آگے سے گزر نہ سکے۔
(مرقاۃ ص 71 ج 3)
یہی معنی شیخ عبد الحق محدث دھلوی حنفی نے ( شرح مشکوۃ اشعۃ اللمعات ص 506 ج 1 ) میں اور محدث مبارکپوری نے (مرعاۃ ص 14 ج 4) میں علامہ سندھی نے (حاشیہ سنن نسائی) میں کیے ہیں۔
بحوالہ التعلیقات السلفیہ 93 ج 1)
اور اس معنی کا قرینہ بینھا کا لفظ ہے جسے آپ نے مؤلف حدیث اور اہل حدیث (ص 509) کی اندھی تقلید میں بینھما بنا دیا ہے حالانکہ یہ روایت ابو داؤد کے علاوہ ( سنن نسائی ص 93 ج ١‘ بیھقی ص 100 ج 13 ابن خزیمہ رقم الحدیث 1545) میں آتی ہے ان سب میں بینھا کا لفظ ہے مگر آپ نے شرم و حیا کو خیر باد کہتے ہوئے کمال عیاری ومکاری سے بینھما بنا دیا ہے۔ اس پر ہم اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں اللہ آپ کو راہ راست پر لائے اور ان عیاریوں سے توبہ کی توفیق عطا کرے۔ ویسے ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ تو بہ کر لیں کیونکہ اگر قیامت کے روز ان چیزوں کے بارے میں آپ سے سوال ہوا تو آپ سے کچھ جواب نہیں بن پڑے گا۔ آخر حسرت و مایوسی سے ’’یلیتنی کنت ترابا‘‘ کہو گے۔
ثالثاً:- آپ کی نقل کردہ احادیث میں پہلی حدیث ابن عمر میں الفاظ و سدوا الخلل (خالی جگہوں کو بند کرو) اور‘ ولا تزروا فرحان ( صف میں خالی جگہ نہ چھوڑو) کا تعلق زیر بحث مسئلہ سے تھا جن کی طرف آپ نے خیرت شار ، تک نہیں کیا اسے بے ایمانی کہیں یا آپ کے روائتی طریقہ واردات سے تعبیر کریں۔ پھر آخری حدیث انس میں (رصوا صفو حکم) کا بھی قدرے زیر بحث مسئلہ سے واسطہ تھا اسے بھی آپ نے ترک کر دیا۔
ملا علی القاری ان الفاظ کا معنی کرتے ہیں کہ
((سووها وضموا بعضكم إلى بعض حتى لا يكون بينكم فرجة))
یعنی ایسے برابر ہو جاؤ کہ تم ایک دوسرے میں ضم ہو جاؤ یہاں تک تمہارے درمیان کوئی خالی جگہ نہ رہے۔
(مرقاۃ ص 71 ج 3)
علامہ فتنی حنفی‘ رصوا‘ کا معنی کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ((ای تلا صفوا حتى لا يكون بينكم فرج)) (مجمع بحار الانوار ص 334 ج 2)
یعنی ایسے مل کر کھڑے ہو کہ تمہارے درمیان کوئی خالی جگہ نہ رہے۔
اب ایمان سے کہنا ( اگر ایمان باقی ہے) کیا ان احادیث میں آپ کے ہاں عمل ہوتا ہے۔ نہیں یقیناً نہیں کیونکہ آپ کی مساجد میں نمازی درمیان میں تقریباً بالشت بھر جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوتے ہیں۔

حنفیہ کا موقف

آل دیوبند کے سرخیل مولانا رشید احمد گنگوھی فرماتے ہیں کہ : در میان دونوں قدموں مصلی ( نمازی) کے فاصلہ بقدر چہار انگشت چاہیے۔
(فتاوی رشیدیہ 291)
اس صورت میں دو نمازیوں کے درمیان ایک خاصہ فرجہ رہ جاتا ہے۔ حالانکہ فرجہ ملانے کی آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے تلقین فرمائی ہے پھر اپنے قدموں کے درمیان میں چار انگلیوں کی مقدار کے برابر فاصلہ رکھنے پر کوئی دلیل قرآن وسنت سے موجود نہیں ورنہ مولانا گنگوھی اسے نقل کرتے اور ہمارے معاصر جناب ابو بلال صاحب اس پر نمک مرچ لگا کر خوب اس کی تشھیر کرتے۔ مگر ان دونوں میں سے کسی نے بھی اپنے موقف پر کوئی دلیل قائم نہیں کی اور ہمارا پوری دنیا کے منکرین سنت کو چیلنج ہے کہ وہ اپنے لاؤ لشکر سمیت مل کر سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود اس پر کوئی دلیل نہیں دے سکتے۔

حنفیہ کی تاویل یا تحریف

دیو بندیوں کے ایک سرگرم رکن مولانا انوار خورشید فرماتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو یہ مذکور ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنا قدم اپنے ساتھی کے قدم سے ملا دیتا تھا اس سے آپ کا مقصد صف بندی اور درمیان سے خلاء کو پر کرنے میں انتہائی اہتمام بتلانا ہے نہ کہ حقیقتا قدم سے قدم ملانا۔
(حدیث اور اہل حدیث ص 514)
اولاً :- راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ مؤلف کا یہاں الذاق کو مجازی معنی پر محمول کرنا قرینہ قویہ کا محتاج ہے اور اس تفسیر پر کوئی معتبر دلیل ہونی چاہئے جو خیر سے ان کے پاس نہ عقلی اور نہ ہی نقلی دلیل موجود ہے اور نہ یہاں قدم سے قدم ملانے کو مجاز پر محمول کرنے پر کوئی ضعیف قرینہ ہے اس مقلد نے اپنی اختراع سے اس سنت کو بدعت میں بدل دیا ہے کیونکہ خالی جگہ رکھنا قدم سے قدم نہ ملانا بدعت ہے۔
ثانیا: ہمارے پاس صرف لفظ الزاق ( قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملانے کا ) ہی نہیں بلکہ سد الخلل، تراصوا اور ولا تذروا فرجات، کے الفاظ بھی ہیں جو الزاق کے معنی حقیقی پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ تر اصوا پر عمل ممکن ہی نہیں جتنی دیر تک کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم نہ ملایا جائے۔

علمائے اہل حدیث کا فتویٰ

حدیث صحیح صریح کی موجودگی میں ہمیں کسی عالم کا فتویٰ پیش کرنے کی ضرورت تو نہیں لیکن ہمارے بھائی نے جس طرح اقوال رسول صلى الله عليه وسلم کا حلیہ بگاڑا ہے اسی طرح علمائے اہل حدیث کے فتاویٰ نقل کرنے میں بھی تقلیدی ہاتھ کی صفائی دکھائی ہے ، جس کی وجہ سے ہم ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ شارح سنن ابی داود حضرت مولانا محمد شمس الحق محدث عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
((فهذه الاحاديث فيها دلالة واضحة إلى اهتمام تسوية الصفوف وانها من اتمام الصلاة وعلى أنه لا يتاخر بعض على بعض ولا يتقدم بعض على بعض وعلى انه يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه وركبته بركبته لكن اليوم تركت هذه السنة ولو فعلت نيوم لنفر الناس كالحمر الوحشية فانا لله وإنا اليه راجعون))
يعنى ان احادیث میں صفوں کو برابر کرنے کا واضح بیان ہے اور یہ اتمام نماز سے ہے اور اس کی کیفیت یہ ہے کہ ایک دوسرے سے آگے یا پیچھے نمازی کھڑا نہ ہو اور کندھے سے کندھا‘ قدم سے قدم اور گھٹنے سے گھٹنا ملایا جائے۔ لیکن آج اس سنت کو ترک کر دیا گیا ہے اگر کوئی آج اس پر عمل کرے تو لوگ اس سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے جنگلی گدھا بھاگتا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
(التعلیق المغنی ص 284 ج 1 و عون المعبود ص 250 ج 1)
شارح سنن ترمذی حضرت مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
(( فظهر ان الزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم في الصوف سنة قد عمل بها الصحابة رضى الله عنهم خلف النبي وهو المراد باقامة الصف وتسويته على ما قال الحافظ لكن قال معمر احد رواة حديث أنس في روايته لو فعلت ذلك باحدهم اليوم لنفر كانه بغل شموس قلت هكذ احال أكثر الناس في هذا الزمان فانه لو فعل بهم ذلك لنفروا كانهم حمر وحش وصارت هذه السنة عندهم كانها بدعة عيان الله فهداهم الله تعالى واذاقهم حلاوة السنة ))
یعنی ان احادیث سے ظاہر ہوا کہ صفوں میں کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملانا سنت ہے اور اسی پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے نبی ﷺ کی اقتدا (نماز میں ) عمل کیا ہے اور صفوں کو درست اور برابر کرنے سے یہی مراد ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کہا ہے لیکن حدیث کے راویوں میں سے امام معمر کہتے ہیں کہ اگر میں آج کسی کے ساتھ اس طرح کروں تو وہ اس سے بھاگتا ہے جیسے وحشی گھوڑا ہوتا ہے۔ (محدث مبارکپوری فرماتے ہیں ) کہ میں کہتا ہوں کہ اس زمانے میں بھی اکثر لوگوں کا حال اسی طرح ہے کہ اگر ان کے ساتھ آج بھی اسی طرح صف میں کیا جائے تو وہ اس سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے جنگلی گدھا بھاگتا ہے اور ان کے نزدیک یہ سنت ایسے ہو گئی ہے جیسے بدعت ہوتی ہے اللہ محفوظ رکھے اور ان لوگوں کو ھدایت دے اور سنت سے محبت کا ذائقہ انہیں چکھائے۔
(ابکار المنن فی تنقید آثار السنن ص 245)
اکا بر علماء اہلحدیث کی تحریرات کا استعیاب مقصود نہیں ورنہ ہم اس پر مقد مین اور متاخرین کی بیسیوں عبارات پیش کر سکتے ہیں ان دو بزرگ عالموں کا انتخاب ہم نے اس وجہ سے کیا ہے کہ بر صغیر میں ان کا شمار اہلحدیث کے اکابر علماء میں سے ہو تا ہے اور ان سے اختلاف کے باوجود فریق ثانی بھی ان کے علم و فضل کا لوہا مانتا ہے اور حضرات متقدمین سے عدم نقل کی وجہ یہ ہے کہ فریق ثانی ہمیشہ کی طرح یہاں بھی کہہ دیتا کہ یہ شافعی ہیں یا حنبلی۔

کیا اہل حدیث کی مساجد میں اس پر عمل نہیں ہوتا ہے؟

ہمارے معاصر نے تحفہ اہل حدیث کے صفحہ ۲۵ پر یہ مغالطہ دیا ہے کہ اہل حدیث کی مساجد میں بھی اس پر عمل نہیں ہوتا۔
بھائی اگر اس پر عمل ہی متروک ہو گیا ہے تو پھر آپ کو اس کے رد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ آپ کے رد کرنے سے ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ بفضلہ تعالیٰ اس سنت پر اہل حدیث کی مساجد میں عمل ہوتا ہے۔
ویسے ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ کذب و افترا سے لبریز تصنیف کی بجائے پہلی فرصت میں کسی اہل حدیث معسکر میں طریقہ نماز کی تعلیم ضرور حاصل کریں اگر آپ سنت سے محبت کے جذبہ میں تیار ہوں تو اخراجات را قم بر داشت کرے گا۔ انشاء اللہ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: