سوال
نماز میں قرآن کی کچھ مخصوص آیات کے جواب میں ذکر یا دعا کرنا، جیسا کہ بعض روایتوں میں مذکور ہے، کیا یہ درست عمل ہے؟ اگر درست ہے تو کیا یہ جواب دینا صرف امام کے لیے جائز ہے یا تمام مقتدی بھی دے سکتے ہیں؟ نیز، اگر مقتدی جواب دے تو کیا وہ بلند آواز میں دے یا دل ہی دل میں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی کریم ﷺ کا عمل
صحیح مسلم میں روایت موجود ہے:
"نبی کریم ﷺ جب رات کی نماز میں ایسی آیات کی تلاوت فرماتے جن میں تسبیح ہو، تو آپ ﷺ تسبیح کرتے۔ جب دعا والی آیت پڑھتے تو دعا کرتے، اور جب تعوذ یعنی پناہ مانگنے والی آیت پڑھتے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے۔”
(صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب استحباب تطویل القراءة في صلاة الليل، حدیث 772)
صحابۂ کرام کا عمل
امام ابوبکر بن ابی شیبہ نے ایک روایت کو صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے:
"سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی نماز پڑھائی۔ جب آپ نے
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى
کی تلاوت کی تو کہا:
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى”
(المصنف، جلد 2، صفحہ 508، حدیث 8640، وسندہ صحیح)
اسی طرح کا عمل دیگر صحابہ سے بھی منقول ہے:
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ
سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ
(المصنف، جلد 2، صفحہ 509، حدیث 8643، حدیث 8647، دونوں کی اسناد صحیح ہیں)
حکم و ہدایت
امام کے لیے جائز ہے کہ وہ جمعہ یا دیگر جہری نمازوں میں جب کسی مخصوص آیت کی تلاوت کرے تو کبھی کبھار عربی زبان میں اس کا جواب بھی بلند آواز یا آہستہ آواز میں دے۔
مقتدیوں کے متعلق کوئی واضح دلیل موجود نہیں کہ وہ بھی آیات کا جواب دیں۔ لہٰذا نمازی مقتدیوں کو چاہیے کہ وہ صرف سورۃ الفاتحہ پڑھیں، خاص طور پر جہری نماز میں امام کے پیچھے۔
واللہ اعلم (شہادت: فروری 2000)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب