آل دیوبند کے اصولوں کی روشنی میں
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وانصتوا لعلكم ترحمون﴾ اور جب قرآن پڑھا جائے تو اُس کی طرف کان لگائے رہو، اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم ہو۔
(سورۃ الاعراف: 204 ترجمه محمود حسن دیوبندی مع تفسیر عثمانی ص 243)
اس آیت مبارکہ سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ یہ آیت مقتدی کو سورہ فاتحہ کی قراءت سے منع کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے لیکن اگر اس کے ترجمہ پر غور کریں تو اس میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس کا مطلب یہ ہو کہ مقتدی سورۃ فاتحہ نہ پڑھے۔ اس آیت مبارکہ میں دو حکم ہیں :
◈ سنو
◈ چپ رہو
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا سننے سے مراد نہ پڑھنا ہی ہوتا ہے یا سننے والا پڑھ بھی سکتا ہے۔ اس کے لئے ہم دومثالیں بیان کرتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حالت بیماری میں نماز پڑھائی لیکن بیماری اور ضعف کی وجہ سے زیادہ بلند آواز سے تکبیر نہیں کہہ سکتے تھے لہذا ’’ابو بکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیر سناتے تھے‘‘
(دیکھئے تفہیم البخاری جلد 1ص 365 مع حواشی امین اوکاڑوی)
اب اگر سننے کا مطلب صرف یہ لیا جائے کہ سننے والا اپنی زبان کو حرکت ہی نہیں دے سکتا تو یہ بات درست نہیں کیونکہ صحابہ کرام، سیدنا ابوبکر رضی الله عنه کی تکبیر سنتے بھی تھے اور خود بھی تکبیر کہتے تھے جیسا کہ سب مسلمانوں کا اب بھی اسی طرح عمل ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جب امام تکبیر کہے تم بھی تکبیر کہو‘‘ الحدیث (صحیح مسلم جلد 1ص 174)
لہذا ثابت ہوا کہ سننے کے حکم سے ہمیشہ نہ پڑھنا ہی مراد لینا درست نہیں۔
اگر سننے کا مطلب نہ پڑھنا ہی ہوتا تو اذان کا جواب دینے کی بھی اجازت نہ ہوتی۔
سرفراز صفدر نے لکھا ہے : ’’آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت یہ تھی کہ جب بسلسلہ جہاد کسی قصبہ یا شہر پر حملہ کرنا چاہتے تھے تو وكان يستمع الاذان فان سمع اذانا امسك والا اغار پہلے توجہ کرتے ۔ اگر اذان کی آواز سن لیتے تو حملہ سے باز رہتے۔ ورنہ ہلہ بول دیتے تھے۔ مسلم ص 166، ابوعوانہ جلد 1ص 335 دارمی ص 323 ، طیالسی ص 21‘‘
(احسن الکلام جلد اص 155، دوسرا نسخه ص 195)
اور یہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن‘‘ جب اذان سنو تو موذن کی طرح تم بھی ساتھ ساتھ کہتے جاؤ۔
(صحیح بخاری جلد 1ص 86، خیر الکلام ص 268 طبع جدید واللفظ لہ، دیکھئے نماز مسنون ص 259)
ویسے بھی اذان کا جواب وہی دے گا جو اذان سنے گا۔ لہذا ثابت ہوا کہ سننے سے نہ پڑھنا ہی مراد لینا درست نہیں۔ اس آیت مبارکہ میں دوسرا حکم چپ رہنے کا ہے، اس کے لئے بھی ہم دو مثالیں بیان کرتے ہیں:
سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه نے حدیث بیان کی ، فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ اور قراءت الله کے درمیان تھوڑی دیر چپ رہتے تھے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ آپ اس تکبیر اور قراءت کے درمیان کی خاموشی کے دوران کیا پڑھتے ہیں؟
آپ نے فرمایا میں پڑھتا ہوں: اللهم باعد بيني و بين خطاياي… الحديث (صحیح بخاری جلد 1ص 103)
اس حدیث سے بالکل واضح ہے کہ آہستہ پڑھنا اور چپ رہنا دونوں جمع ہو سکتے ہیں۔
حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: دل میں خفیہ آواز سے (سراً) پڑھنا فانصتوا (انصات/ خاموشی) کے خلاف نہیں کیوں کہ حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((من اغتسل يوم الجمعة ومس من طيب إن كان عنده، ولبس من أحسن ثيابه، ثم خرج حتى يأتي المسجد فيركع إن بداله، ولم يؤذ أحدًا ثم أنصت إذا خرج إمامه حتى يصلي ، كانت كفارة لما بينها و بين الجمعة الأخرىٰ))
جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے، اور اگر اس کے پاس خوشبو ہو تو اسے لگائے اور اپنا اچھا لباس پہنے پھر مسجد کی طرف جائے پھر جو میسر ہو نماز پڑھے اور کسی کو تکلیف نہ دے پھر جب اس کا امام آجائے تو انصات کرے ( خاموش ہو جائے ) حتی کہ نماز پڑھ لے، یہ اس کے اور اگلے جمعے کے درمیان کا کفارہ بن جائے گا۔
(مسند احمد 420٫5 ح 23571 وسنده حسن، الطبرانی فی الکبیر 1614 ح 4007، آثار السنن : 913 و قال : ” اسناده صحیح)
ایک روایت میں آیا ہے:
((وينصت حتى يقضي صلاته إلا كان كفارة لما قبله من الجمعة))
اور پھر وہ خاموش رہے حتیٰ کہ وہ اپنی نماز مکمل کر لے تو اس کے سابقہ جمعہ تک کا کفارہ ہو جائے گا۔
(سنن النسائی 104/3 ح 1404)
اس روایت کی سند میں ابرہیم نخعی مدلس ہیں لیکن یہی روایت دوسری سند کے ساتھ صحیح بخاری (910) میں ((ثم إذا خرج الإمام أنصت)) الخ کے الفاظ سے ہے جو نسائی والی روایت کی تائید کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ نسائی والی روایت بھی ان شواہد کے ساتھ حسن یا صحیح ہے۔
(الاعتصام شماره 48 جلد 60 ص 27، 28)
تنبیہ:
آل دیوبند کے نزدیک یہ تمام احادیث صحیح ہیں۔ پہلی حدیث کا صحیح ہونا آل دیوبند کے محدث اور فقیہ نیوی سے نقل کیا جا چکا ہے اور نسائی والی حدیث میں ابرہیم نخعی مدلس ہیں لیکن آل دیوبند کے نزدیک خیر القرون کی تدلیس مصر نہیں ہے۔
(دیکھئے تجلیات صفدر ج 7 ص 298، ج 4 ص 230)
قارئین محترم! جب آپ نے جان لیا کہ سننا اور چپ رہنا آہستہ پڑھنے کے مخالف نہیں تو ثابت ہوا کہ آیت مبارکہ ’’و إذا قرئ القرآن‘‘ سے فاتحہ خلف الامام کی ممانعت مراد لینا درست نہیں۔ اب ہم آل دیوبند کے دیگر تسلیم شدہ دلائل سے اپنے معنی یعنی سننے اور چُپ رہنے سے مراد نہ پڑھنا ہی نہیں ہوتا ، کی تائید پیش کرتے ہیں:
آل دیوبند کے مناظر ماسٹر امین اوکاڑوی نے سیدنا امام بخاری رحمہ اللہ پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’تیسری حدیث ابو ہریرہ رضی الله عنه سے نقل فرمائی ہے، اگر اس کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ کا یہ فرمان که آیت واذا قرئ القرآن فاستمعوا له نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے (ابن ابی شیبہ ج 2 ص 478) اور حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے مروی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم واذا قرأ فانصتوا ۔ جو امام بخاری کے دو استادوں نے ابن ابی شیبہ ج 1 / ص 377 اور مسند احمد ج 2 ص 376، 420 پر نقل فرمائی ہے، تو مسئلہ کتنا صاف ہو جاتا‘‘
(جزء القرآۃ بتحریفات اوکاڑوی ص 120،119)
نیز ماسٹر امین اوکاڑوی نے لکھا ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه فرماتے ہیں نزلت فی الصلاة.
(فتوحات صفدر ج 3 ص 233)
سرفراز صفدر نے لکھا ہے: ’’حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت عبداللہ بن مغفل وغیرہ سے بھی مروی ہے کہ اس آیت کا حکم امام کے پیچھے اقتداء کرنے والوںکو ہے‘‘
(احسن الکلام جلد 1ص102، دوسر انسخه ص 133)
دیو بندیوں کی مشہور کتاب ادلہ کاملہ ص62 پر لکھا ہوا ہے: ’’جب امام جہر اقراءت کرے تو مقتدی سُنیں اور جب امام سرا قراءت کرے تو مقتدی خاموش رہیں، دلیل حضرت ابو ہریرہ کا ارشاد ہے کہ ہم امام کے پیچھے قراءت کیا کرتے تھے، پس آیت کریمہ نازل ہوئی کہ جب قرآن کریم پڑھا جائے تو اس کو سنو، اور خاموش رہو۔‘‘
فقیر اللہ دیوبندی نے لکھا ہے: ’’علامہ قرطبی اور حافظ ابن کثیر رحمھما اللہ کے کلام سے معلوم ہوا کہ حضرت ابن مسعود ، حضرت ابو ہریرة ، حضرت ابن عباس ، حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنھم اور جمہور ائمہ تابعین کے نزدیک یہ آیت نماز کے بارہ میں نازل ہوئی ہے‘‘
(خاتمۃ الکلام ص 114)
آل دیوبند کے شیخ الحدیث فیض احمد ملتانی نے لکھا ہے : ’’درج ذیل صحابہ وتابعین سے مروی ہے کہ یہ آیت نماز کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ (تفسیر ابن جریر ص 103 جلد 9) حضرت ابو ہریرۃ (دار قطنی)‘‘
(نماز مدلل ص 109)
ان مذکورہ حوالوں سے معلوم ہوا کہ آل دیوبند کے نزدیک آیتِ مبارکہ (وإذا قرى القرآن) کی تفسیر اور حدیث و إذا قرأ فانصتوا ۔ کے راوی سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه بھی ہیں اور یہ آیت اور حدیث سری نمازوں کے متعلق بھی ہے۔ چنانچہ آل دیو بند کے امام سرفراز صفدر نے لکھا ہے: ’’باقی سری نمازوں کے لئے قرآن کریم کی آیت ۔ حضرت ابو موسیٰ الاشعری ، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت انس بن مالک کی حدیث و اذا قرأ فانصتوا پہلے بیان ہو چکی ہے‘‘
(احسن الکلام جلد اص232، دوسرا نسخه ص 288)
اب دیکھنا یہ ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه نے اس آیت کا کیا مطلب سمجھا ہے ؟ دیوبندیوں کے امام سرفراز صفدر کے بقول آیت اور حدیث سری نمازوں کے متعلق بھی ہے اور سرفراز صفدر نے ہی اپنی کتاب احسن الکلام میں سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه کے دو آثار نقل کئے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه امام کے پیچھے سری نمازوں میں قرآت کے قائل و فاعل تھے اور حکم دیتے تھے۔ چنانچہ سرفراز صاحب نے ایک اثر کے متعلق لکھا ہے : ’’اصول حدیث اور محدثین کی تصریح کے مطابق یہ حدیث حسن، جید قومی اور صحیح ہے‘‘
(احسن الکلام جلد 1ص314 حاشیه، دوسرا نسخه ص 388)
انھوں نے سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه کے متعلق مزید لکھا ہے کہ ’’صرف ظہر و عصر کی سری نمازوں میں وہ امام کے پیچھے قرآۃ کے قائل اور اس پر عامل تھے۔ اور وہ دونوں پہلی رکعتوں میں سُورۃ فاتحہ کے علاوہ وشئ من القرآن کی قرآت کے بھی قائل تھے‘‘
(احسن الکلام ص 315 ، دوسر نسخه ص 388)
آل دیوبند کے اصولوں کے مطابق سیدنا ابو ہریرہ ولی اللی و جہری نمازوں میں بھی فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے بلکہ حکم دیتے تھے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه نے فرمایا: ’’جب امام سورۃ فاتحہ پڑھے تو تُو اسے پڑھ اور امام سے پہلے ختم کرلے، پس بے شک وہ جب ولا الضالین کہتا ہے فرشتے آمین کہتے ہیں جس کی آمین اس سے مل گئی تو وہ اس کے زیادہ مستحق ہے کہ اس کی دعا قبول کر لی جائے‘‘
یہ اثر جہری نمازوں کے متعلق ہے کیونکہ سری نمازوں میں دیو بندی آمین نہیں کہتے ۔
آل دیوبند کے محدث محمد بن علی نیموی نے اس اثر کے متعلق کہا: ’’و إسناده حسن‘‘
(آثار السنن ص 89 ح 358)
سرفراز صفدر دیوبندی نے لکھا: ’’محقق نیموی کا نام ظہیر احسن ابوالخیر کنیت اور شوق تخلص تھا۔ آپ مولانا علامہ محمد عبدالحی لکھنوی (المتوفی ۱۳۰۴ھ ) کے شاگرد رشید تھے ، بڑے پایہ کے محدث اور فقیہ تھے، فن اسماء الرجال پر گہری نظر رکھتے تھے، اور خداداد ذہانت اور فطانت میں قاضی شوکانی ” سے بھی ان کا پایہ بہت بلند تھا۔ مگر افسوس کہ نا پائیدار زندگی نے ساتھ نہ دیا اور ان کی قابلیت کے پورے جو ہرا بھی اچھی طرح اجاگر نہ ہوئے تھے کہ ۱۷/ رمضان ۱۳۲۲ھ میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے ، آپ کی مشہور کتاب آثار السنن ( مع حاشیه تعلیق الحسن ) کو علماء بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اور فریق ثانی کی نگاہوں میں وہ کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے‘‘
(احسن الکلام جلد 1ص 325 حاشیہ، دوسر نسخہ ص 401)
جب آپ نے جان لیا کہ آل دیوبند کی معتبر کتابوں کے مطابق سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه سری و جہری نمازوں میں فاتحہ خلف الامام کے قائل و فاعل تھے بلکہ حکم دیتے تھے۔ لہذا ثابت ہوا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه کے نزدیک آیت مبارکہ (وإذا قرئ القرآن) کی اور حدیث (وإذا قرأ فانصتوا) میں فاتحہ خلف الامام کی ممانعت نہیں ، اب دیکھنا یہ ہے کہ آل دیوبند کے اصولوں کے مطابق کونسا فہم معتبر ہے آل دیوبند کا فہم یا سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه کا فہم ؟! چنانچہ محمد یوسف لدھیانوی دیوبندی نے لکھا: ’’میں اس تصورکو ساری گمراہیوں کی جڑ سمجھتا ہوں کہ صحابہ کرام، تابعین عظام ، آئمہ ہدی اور اکابر امت نے فلاں مسئلہ صحیح نہیں سمجھا۔ اور آج کے کچھ زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کی رائے ان اکابر کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہے۔‘‘
(اختلاف امت اور صراط مستقیم ص 37، دوسرا نسخه ص 25)
اگر آل دیو بند نے سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه کے فہم کو معتبر نہ سمجھا تو اپنے ہی اصول کے مطابق گمراہی کی جڑ ثابت ہو جائیں گے اور ساتھ ہی آل دیو بند کے اصولوں کے مطابق سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه کی عدالت بھی ساقط ہو جائے گی کیونکہ آل دیو بند کے مشہور مناظر ماسٹرامین اوکاڑوی نے اپنی تائید میں طحاوی حنفی سے نقل کیا ہے کہ ’’سات دفعہ دھونے والی حدیث منسوخ ہے کیونکہ ہم حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے حسن ظن رکھتے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ اور سنیں اور پھر فتوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دیں، اس سے تو آپ کی عدالت ہی ساقط ہو جائے گی اور صحابہ رضی الله عنه یہ سب کے سب عادل ہیں۔ (طحاوی ج 1ص 23)‘‘
(تجلیات صفدر جلد 5 ص 52)
سید نا ابو ہریرہ رضی الله عنه کے متعلق دیوبندیوں کے امام سرفراز صفدر نے لکھا: ‘‘اگر ان کے پاس سات مرتبہ کی شیخ یا عدم وجوب کا علم نہ ہوتا تو اپنی روایت کے خلاف کرنا ان کی عدالت اور عدالت پر اثر انداز ہوتا ہے اور …‘‘
(خزائن السنن 191/1، 192)
سید نا ابو ہریرہ رضی الله عنه سے فاتحہ خلف الامام کے متعلق مزید دلائل آل دیو بند کے اصولوں کے مطابق درج ذیل ہیں:
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : ((كل صلاة لايقرأ فيها بفاتحة الكتاب فهى خداج غير تمام )) قال قلت كنت خلف الإمام؟ قال: فأخذ بيدي وقال: اقرأ في نفسك يا فارسي!
سيدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے پوری نہیں ہے، میں نے کہا: اگر میں امام کے پیچھے ہوں ، تو آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: اے فارسی ! آہستہ بغیر آواز بلند کیے پڑھا کرو۔
(صحیح ابی عوانہ 127/2 ح 1327)
آل دیوبند کے شہید اور مفتی محمد یوسف لدھیانوی نے لکھا ہے : ’’صحیح ابوعوانہ کی احادیث کا صحیح ہونا سب کو مسلم ہے‘‘
(اختلاف امت اور صراط مستقیم طبع جدید حصہ دوم ص 121)
سرفراز صفدر نے اپنی تائید میں آلِ دیوبند کے مشہور مصنف ظفر احمد دیوبندی سے نقل کیا ہے: ’’مولانا ظفر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ سہل بن بحر رحمہ اللہ کا ترجمہ مجھے نہیں مل سکا۔ لیکن کنز العمال جلد 1ص 3 میں لکھا ہے کہ صحیح ابوعوانہ کی تمام حدیثیں صحیح ہیں۔ (اعلاء السنن جلد 4 ص 49)‘‘
(احسن الکلام جلد 1ص191 حاشیه، دوسرا نسخه ص 238)
ایک روایت میں ہے کہ شاگرد نے ابو ہریرہ رضی الله عنه سے کہا کہ میں امام کی قراءت سن رہا ہوتا ہوں؟ تو انھوں نے فرمایا: اپنے نفس میں (آہستہ) پڑھو۔
(صحیح ابی عوانہ 128/2، واسنادہ صحیح)
تنبیہ:
ابوعوانہ کی اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه مقتدی کو جہری نمازوں میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔
آل دیو بند کے امام ملاعلی قاری حنفی نے لکھا: ’’(في نفسك): سرًا غير جهرٍ‘‘
یعنی آہستہ پڑھ بلند آواز سے نہ پڑھ۔
(مرقاة جلد 2 ص 283، دوسرا نسخه ص 549)
مرقاۃ (کتاب) کے متعلق ماسٹر امین اوکاڑوی نے کہا: ’’ہماری مشکوۃ کی شرح لکھی گئی ہے مکہ میں بیٹھ کر ملا علی قاری نے لکھی جس کا نام ہے مرقاۃ شرح مشکوۃ ۔‘‘
(فتوحات صفدرج 1ص 105، دوسرا نسخه ص 86)
آل دیوبند کے محدث خلیل احمد سہارنپوری نے لکھا ہے: ’’(اقرأ بها) أي بأم القرآن (يا فارسي في نفسك) سرًا غير جهر .“
یعنی آہستہ پڑھ بلند آواز سے نہ پڑھ ۔
(بذل المجہمو د ج 5 ص 39 ح 821)
آل دیو بند کے مسلّم بزرگ شاہ ولی اللہ دہلوی نے ’’اقرأ بها في نفسك‘‘ كے ترجمہ و تشریح میں لکھا ہے : ’’بخواں آنرا در نفس خود اے فارسی یعنی آہستہ بخوان تا غیر تو آنرا نشنود‘‘ اے فارسی ! اپنے نفس میں پڑھ یعنی آہستہ پڑھ تا کہ دوسروں کو تو نہ سنائے۔
(مصفی شرح موطاً ج 1ص 106)
شاہ ولی اللہ کے بارے میں سرفراز خان صفدر نے ایک بریلوی مفتی کو مخاطب کر کے لکھا ہے: ’’مفتی صاحب کیا آپ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کو مسلمان اور عالم دین اور اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ کو حضرت شاہ صاحب کی بات تسلیم کرنا پڑے گی ..‘‘
(باب جنت بجواب راه جنت ص 49)
سرفراز خان نے مزید لکھا: ’’بڑے شوق سے مشکل وقت میں آپ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کا دامن چھوڑ دیں مگر ہم ان کا دامن چھوڑنے کیلیے ہرگز تیار نہیں ہیں‘‘
(باب جنت ص50)
آل دیوبند کے دوسرے مسلّم بزرگ عبدالحق دہلوی نے کہا: ”بخوان فاتحه را پس امام نیز اما آہستہ چنانچہ بشنوانی خودرا‘‘ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھ آہستہ چنا نچہ اپنے آپ کو سنا۔
(اشعۃ اللمعات ج 1ص 399)
عبد الحق دہلوی نے مزید کہا: ’’أي سرا تسمع نفسك‘‘ یعنی سراً اپنے آپ کو سناتے ہوئے پڑھ ۔
(الملمعات ص 128 ، ج 3 بحوالہ توضیح الکلام ج 1ص 189 مطبع جدیدص 185)
مزید تفصیل کے لئے تو ضیح الکلام وغیرہ دیکھیں۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب القراءت میں فرمایا: ’’والمراد بقوله اقرأ بها في نفسك أن يتلفظ بها سرًا دون الجهر ولا يجوز حمله على ذكرها بقلبه دون التلفظ بها لإجماع أهل اللسان على أن ذلك لا يسمى قراءة، ولإجماع أهل العلم على أن ذكرها بقلبه دون التلفظ بها ليس بشرط ولا مسنون فلا يجوز حمل الخبر على ما لا يقول به أحد ولا يساعده لسان العرب وبالله التوفيق.‘‘
لعين اقرأ فى نفسك کا یہ مطلب ہے کہ آہستہ اس کو لفظا پڑھا جائے بلند آواز سے نہ پڑھا جائے، اور اسے دل میں غور و تدبر کے معنی میں حمل کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ اہل عرب کا اتفاق ہے کہ اسے قراءت نہیں کہتے اور اہل علم کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ دل میں غور کرنا اور لفظ ادا نہ کرنانہ شرط ہے اور نہ مسنون ہے لہذا جس بات کا کوئی قائل نہیں اور نہ ہی اس معنی کی تائید لغت عرب سے ہوتی ہے اس پر حدیث کو محمول کرنا جائز نہیں۔
(کتاب القراۃ ص ۱۷، توضیح الکلام جلد اص۱۹۰ طبع جدید ص ۱۸۶)
ماسٹر امین اوکاڑوی نے لکھا: ’’اجماع امت کا مخالف بنص کتاب وسنت دوزخی ہے۔‘‘
(تجلیات صفدر جلد 1ص 287)
ماسٹر امین نے مزید لکھا ہے : ’’آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے اجماعی فیصلوں سے انحراف کرنے والے کو شیطان اور دوزخی قرار دیا ہے (مشکوۃ)‘‘
(تجلیات صفدرج 6 ص ۱۸۹)
دل میں پڑھنے کا مطلب سرفراز کی عبارت سے درج ذیل ہے:
سرفراز صفدر نے لکھا ہے: ’’شروع شروع میں جس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم لاتے۔ ان کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی دل میں پڑھتے جاتے تھے۔ تاکہ جلد اسے یاد کر لیں اور سیکھ لیں۔ مبادا حضرت جبرائیل چلے جائیں اور وحی پوری طرح محفوظ نہ ہو سکے۔ ظاہر بات ہے کہ اس صورت میں پوری طرح سننے اور سمجھنے میں دقت ہوتی تھی۔ ارشاد ہوا کہ آپ ہمہ تن متوجہ ہو کر سنیں۔ جس وقت حضرت جبرائیل پڑھیں۔ آپ اس وقت خاموش ہو کر توجہ کریں اور سنیں اور زبان مبارک کو حرکت نہ دیں ۔‘‘
(احسن الکلام جلد 1ص 84، دوسرا نسخہ ص 111)
دل میں پڑھنے کا مطلب زبان ہلائے بغیر غور و تدبر کرنا نہیں ہے ۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دل میں پڑھ رہے تھے اور آپ کو حکم دیا گیا کہ اپنی زبان مبارک کو حرکت نہ دیں۔ اگر زبان مبارک کو ہلائے بغیر صرف غور فکر کر رہے تھے تو روکا کس بات سے تھا؟
ماسٹر امین اوکاڑوی نے لکھا: ’’نماز جنازہ آہستہ پڑھنی چاہیے‘‘
(تجلیات صفدر جلد 2 ص 593)
ماسٹر نے اپنے اس دعوی پر ایک دلیل یوں نقل کی: ’’حضرت ابو امامہ رضی الله عنه فرماتے ہیں کہ جنازہ پڑھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ سرا فی نفسہ دل ہی دل میں پڑھا جائے‘‘
(تجلیات صفدر جلد 2 ص 593)
یہ بات تو ہر دیو بندی جانتا ہے کہ جب وہ جنازہ دل میں پڑھتا ہے تو اپنی زبان کو ہلا کر پڑھتا ہے۔ فیض احمد ملتانی دیوبندی نے اپنی تائید میں امام ترمذی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے :
’’نمازی بسم اللہ الرحمن الرحیم دل میں کہے، یعنی آہستہ کہے ۔‘‘
(نماز مدلل ص 106)
یہ بات بھی ہر دیو بندی جانتا ہے کہ جب وہ نماز میں بسم اللہ اپنے دل میں پڑھتا ہے تو اس کی زبان ہلتی ہے۔
ماسٹرامین اوکاڑوی نے کہا: ’’فرمایا حضور ے کے پیچھے ایک شخص نے قرآن پڑھا۔ قراً في نفسه اپنے دل میں آہستہ آہستہ پڑھا۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا سنو اذا قرأ فانصتوا اے میرے مقتد یو خاموش رہو ۔‘‘
(فتوحات صفدرج 1ص 298، دوسرا نسخح ص 263)
ہمارے نزدیک تو یہ روایت موضوع یعنی من گھڑت ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے الحدیث (39 ص 31، 32) لیکن چونکہ اوکاڑوی کے نزدیک یہ روایت معتبر ہے اور ہمارا استدلال بھی صرف دیو بندی ترجمے سے ہے لہذا ایسے دیو بندی جو اقرأ بها في نفسك كا معنى دل میں پڑھنے کے بجائے دل میں تدبر کرنے کا کرتے ہیں، وہی از راہ انصاف بتائیں کہ جب اس شخص نے پڑھا ہی نہیں تھا تو اسے کس بات سے روکا گیا تھا؟
اقرأ بها في نفسك کا مطلب آہستہ پڑھنا ہی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه سری و جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے جیسا کہ آلِ دیو بند کی کتابوں سے نقل کیا جا چکا ہے اور یہ بھی نقل جا چکا ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه اپنی حدیث کے خلاف عمل نہیں کر سکتے ورنہ آل دیو بند کے اصولوں کے مطابق ان کی عدالت ساقط ہو جائے گی۔!
سید نا ابو ہریرہ رضی الله عنه سے فاتحہ خلف الامام کے متعلق دوسری حدیث:
سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے ناقص ہے ہرگز پوری نہیں۔ ابو سائب نے کہا: اے ابو ہریرہ رضی الله عنه کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں؟ تو دبایا سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه نے میرا بازو اور کہا: ’’اقرأ بها في نفسك يا فارسی!‘‘ یعنی اے فارسی ! اسے آہستہ پڑھا كرو_فإني سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يقول : (( قال الله تبارك و تعالى : قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين، فنصفها لي ونصفها لعبدي ولعبدي ما سال، قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : ((اقرأ وا ))…. الحدیث
کیونکہ میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تقسیم کی گئی نماز میرے اور بندے کے در میان آدھوں آدھ، آدھی میری اور آدھی اس کی اور میرے بندے نے جو مانگا اسے دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اقرأ وا‘‘ پڑھا کرو… الحدیث (موطا امام مالک ح 39)
آل دیوبند کے امام سرفراز صفدر نے لکھا: ’’وہ اقوال صحابہ کرام جو موطاً اور جامع عبدالرزاق رضی الله عنه میں ہوں وہ مستند اور قابل اعتبار ہیں ۔‘‘
(احسن الکلام جلد 1ص318، دوسر نسخه ص 392)
محمد تقی عثمانی نے کہا: ’’جہاں تک صحیحین اور موطا کا تعلق ہے اُن کے بارے میں اتفاق ہے کہ انکی تمام احادیث نفس الامر میں بھی صحیح ہیں ؟‘‘
(درس ترمذی جلد 1ص 63)
اب دیکھئے ! اس حدیث میں سائل نے امام کے پیچھے پڑھنے کے متعلق پوچھا تو سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه نے سائل سے فرمایا: ’’اقرأ بها في نفسك‘‘ پھر نماز کی تقسیم کا ذکر کیا، پھر فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اقرأوا‘‘ یعنی پڑھا کرو۔
جب آپ نے جان لیا کہ آیت (وإذا قرئ القران) اور حديث (وإذا قرأ فانصتوا) سے سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه نے فاتحہ خلف الامام کی ممانعت مراد نہیں لی ، تو اب مزید سنئے : (آیت وإذا قرئ القرآن) مکی ہے چنانچہ آل دیو بند کے امام سرفراز صفدر نے (وإذا قرئ القرآن) کے متعلق لکھا: ’’یہ آیت کی ہے۔‘‘
(احسن الکلام جلد 1ص 140، دوسر انسخه ص 176)
تقی عثمانی نے بھی کہا ہے: ’’یہ آیت مکی ہے‘‘ (درس ترمذی جلد 2 ص 87)
ظفر احمد عثمانی دیوبندی نے آیت وإذا قرئ القرآن کے بارے میں لکھا: ’’یہ بالا تفاق کی ہے‘‘
(فاران، دسمبر ۱۹۶۰، ص ۳۵، بحوالہ توضیح الکلام جلد ۲ ص ۱۱۵، فاتحہ الکلام، تصنیف ظفر احمد عثمانی ص ۲۲ واللفظ له )
رشید احمد گنگوہی دیوبندی نے لکھا ہے : ’’کیونکہ اعراف با تفاق محدثین و مفسرین کے مکی ہے اور یہ آیت بھی مکیہ ہے کسی نے اس کو مکیہ ہونے سے استثناء نہیں کیا نہ کسی نے اس کو مدنیہ لکھا‘‘
(سبیل الرشاد ص 12، تالیفات رشید یه ص 510 واللفظ له )
جب یہ معلوم ہو گیا کہ آیت و إذا قرئ القرآن کی ہے۔ تو عرض ہے کہ اس آیت مبارکہ کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے کھڑے باتیں کرلیا کرتے تھے ، یہاں تک کہ آیت (و قوموا الله قانتین) نازل ہوئی۔
چنانچہ آل دیوبند کے امام سرفراز صفدر نے لکھا: ’’امام صاحب کی دلیل نمبر 1بخاری جلد1 ص 160 اور ترمذی جلد 1ص 54 میں ہے : عن زید بن ارقم قال كنا نتكلم خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلوة يتكلم الرجل من صاحبه الى جنبه حتى نزلت وقوموا لله قانتين فامرنا بالسكوت ونهينا عن الكلام۔‘‘
(خزائن السنن جلد 2 ص 144)
آل دیوبند کے شیخ الاسلام تقی عثمانی نے لکھا: ’’اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ آیت قرآنی ’’وقوموا لله قانتين‘‘ مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی‘‘
(درس ترمذی جلد 2 ص 152)
جب یہ بات آل دیو بند کے اصولوں کے مطابق ثابت ہوگئی کہ آیت واذا قری القرآن نے مقتدیوں کو نماز میں باتوں سے بھی منع نہیں کیا تو ثابت ہوا کہ آیت (وإذا قرئ القرآن) میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے کہ مقتدی زبان ہلا کر کچھ نہیں پڑھ سکتا۔
نماز میں کلام کی ممانعت کے بعد ایک صحابی سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی الله عنه نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے لاعلمی کی وجہ سے باتیں کر لیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس صحابی سے فرمایا: ’’یہ نماز ایسی ہے جس میں لوگوں کی بات چیت کی بالکل گنجائش نہیں ہے اس میں تو تسبیح تکبیر اور قراءت ہوتی ہے‘‘
(مسلم ج 1 ص 203 ، حدیث اور اہل حدیث ص 536 واللفظ له،نمازمسنون ص480)
اب دیکھئے ! پہلے آیت مبارکہ (واذا قری القرآن) کو نازل ہوئی جس نے مقتدیوں کو باتوں سے بھی منع نہ کیا اس کے بعد آیت مبارکہ (وقوموا لله قانتین) کے نازل ہوئی جس نے مقتدیوں کو باتوں سے منع کیا لیکن ان دونوں آیات مبارکہ کے نازل ہونے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی الله عنه ، جنھوں نے بطور مقتدی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تھی ، اور نماز میں انھوں نے باتیں کی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو باتوں سے منع کیا اور قراءت کا حکم دیا جس سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ آیت (وإذا قرئ القرآن) میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہو کہ مقتدی قراءت نہ کرے۔
اس بات پر تمام آل دیوبند کا اتفاق ہے کہ اگر جماعت ہورہی ہو تو بعد میں آنے والا شخص تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز میں داخل ہوگا لہذا اگر ﴿وإذا قرئ القرآن﴾ کا مطلب یہ ہوتا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو کوئی شخص زبان کو حرکت نہیں دے سکتا تو بعد میں آنے والا شخص تکبیر تحریمہ کیسے کہے گا؟ اگر آل دیوبند یہ عذر پیش کریں کہ ہم آیت (وإذا قرى القرآن) کا شان نزول نماز تسلیم کرتے ہیں اور ہمارے نزدیک تکبیر تحریمہ نماز میں شامل نہیں لہذا تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد مقتدی زبان کو حرکت نہیں دے سکتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قول آل دیوبند کے تسلیم شدہ اصولوں کے خلاف ہے چنانچہ آل دیوبند کے وکیل ماسٹر امین اوکاڑوی کی کتاب تجلیات صفدر میں لکھا ہوا ہے کہ ’’اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کے کسی حکم اور آیت کو اس کے شان نزول اور خاص سبب پر منحصر کر دینا غلط اور باطل ہے۔ اس کو صرف سبب نزول میں محصور و مسدود سمجھنا ایک ایسی علمی غلطی ہے جس کا ارتکاب کوئی ادنی طالب علم بھی نہیں کر سکتا۔‘‘
(تجلیات صفدر جلد 3 ص 68، بشیراحمد قادری دیوبندی کی تحریر)
سرفراز صفدر دیوبندی نے لکھا: ’’نصوص میں عموم الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے۔ نہ کہ خصوص اسباب کا۔ اور یہ کہ کوئی آیت شان نزول پر مقید نہیں ہوتی۔‘‘
(احسن الکلام جلد اص 102، دوسر انسخه ص 133)
دیو بندیوں کے محدث سعید احمد پالنپوری نے لکھا: ’’ئص کے الفاظ کی عمومیت کا اعتبار ہے شان نزول اور سیاق کی خصوصیت کا اعتبار نہیں ہے۔‘‘
(ادلہ کاملہ میں 81)
محمد یوسف لدھیانوی دیوبندی نے لکھا: ’’خاص واقعہ کا اعتبار نہیں ہوتا، بلکہ الفاظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے۔‘‘
(اختلاف امت اور صراط مستقیم ج 2 ص 128)
آل دیوبند کے مفتی جمیل نے لکھا ہے : ’’مسلمان تو اس حکم کے سب سے زیادہ اور سب سے پہلے مخاطب ہیں کہ جب قرآن پڑھا جا رہا ہو خواہ نماز میں یا نماز کے باہر ، تو خاموش رہیں اور غور سے سنیں ۔‘‘
(رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز 1370)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر بعد میں آنے والا مقتدی قرآن سننے اور چپ رہنے کے باوجود تکبیر تحریمہ کہ سکتا ہے تو فاتحہ بھی پڑھ سکتا ہے۔ مفتی جمیل کی تفسیر کے بعد ایک اور لطیفہ بھی سنئے۔ مفتی محمد ابراہیم دیوبندی نے لکھا ہے: ’’آج کل اہل بدعت کے عقائد حد شرک تک پہنچے ہوئے ہیں اس لئے ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ (کذافی احسن الفتاوی ص290 ج 3) چونکہ اس مسئلہ میں ابتلاء عام ہے اس لئے اس کا آسان حل لکھا جاتا ہے وہ یہ کہ جہاں اس قسم کے امام سے واسطہ پڑے اور الگ ہو کر انفرادی نماز پڑھنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو وہاں صورة بدعتی امام کی اقتداء اختیار کر لی جائے اور دل میں اپنی انفرادی نماز کی نیت کی جائے۔ ثناء کے بعد تعو ذتسمیہ پھر قراءت کی جائے ۔ غرض ظاھر کی حد تک رکوع سجدہ میں امام کے پیچھے پیچھے رہے مگر نماز اپنی ہی پڑھتا رہے۔‘‘
(چارسو اہم مسائل ص34)
ان دونوں مفتیوں کے فتووں سے معلوم ہوا کہ جب قرآن پڑھا جارہا ہو تو ایسی صورت میں بھی سورہ فاتحہ پڑھی جاسکتی ہے۔ قاری سعید الرحمن دیوبندی نے اپنے والد عبد الرحمن کا ملوری سے، اس نے اپنے پیرا شرف علی تھانوی سے اس شخص کے بارے میں نقل کیا جو وہاں جمعہ پڑھتا ہے جہاں حنفیہ کی اکثر شرائط مفقود ہوتی ہیں تو : ’’حضرت تھانوی نے اس کے جواب میں فرمایا ایسے موقعہ پر فاتحہ خلف الامام پڑھ لینا چاہئیے تا کہ امام شافعی کے مذہب کے بناء پر نماز ہو جائے ۔‘‘
(تجلیات رحمانی ص 233 طبع اول 1969ء)
اس فتوے کے بعد دوباتوں میں سے ایک تو بالکل ظاہر ہے: یا تو تقلیدی چکر میں پھنس کر قرآن و حدیث کی مخالفت کا حکم دیا جارہا ہے یا پھر قرآن وحدیث میں فاتحہ خلف الامام کی ممانعت یا ترک فاتحہ کی دلیل بالکل نہیں ہے۔
آل دیو بند کے ان اصولوں کی روشنی میں آل دیو بند کی تفسیر صحیح نہیں یا پھر آل دیو بند کے اصول غلط ہیں۔ نیز آل دیوبند کے اصولوں کے مطابق نماز عیدین میں ، بعد میں آنے والا مقتدی تکبیر تحریمہ کے علاوہ زائد تین تکبیرات ایسے وقت بھی کہے گا جب امام قراءت شروع کر چکا ہوگا۔ چنانچہ آل دیوبند کے شہید اور مفتی یوسف لدھیانوی نے لکھا ہے: ’’اگر امام تکبیرات سے فارغ ہو چکا ہو، خواہ قرات شروع کی ہو یا نہ کی ہو، بعد میں آنے والا مقتدی تکبیر تحریمہ کے بعد زائد تکبیریں بھی کہہ لئے‘‘
(آپ کے مسائل اور ان کا حل ج 2 ص 416)
آل دیوبند کے ’’فقیہ العصر اور مفتی‘‘ رشید احمد لدھیانوی نے لکھا ہے: ’’تکبیر تحریمہ کے بعد اور تکبیرات زوائد کہہ لے، اگر چه امام قرآت شروع کر چکا ہو‘‘
(احسن الفتاوی ج 3 ص 153)
اب ہم ایک ایسی حدیث جو آل دیوبند کے نزدیک بالکل صحیح ہے، سے ثابت کر دیتے ہیں کہ جب امام قراءت کر رہا ہو تو مقتدی زبان ہلا کر کوئی کلمہ کہہ سکتے ہیں۔
چنانچہ انوار خورشید دیوبندی نے لکھا: ’’حضرت ابو بکر تشریف لائے اور لوگوں کو نماز پڑھانے لگے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکلیف میں کچھ تخفیف محسوس کی تو آپ دو آدمیوں کے سہارے مسجد میں اس حال میں تشریف لائے کہ آپ کے پاؤں سے زمین میں لکیریں پڑ رہی تھیں، جب لوگوں نے آپ کو دیکھا تو (حضرت ابوبکر رضی الله عنه کو متنبہ کرنے کے لیے) سبحان اللہ کہا، حضرت ابوبکر رضی الله عنه پیچھے ہٹنے لگے تو حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے انہیں اشارہ کیا کہ اپنی جگہ ہی ٹھہرو، حضور علیہ الصلاۃ والسلام حضرت ابو بکڑ کے پاس پہنچے اور آپ کے دائیں جانب بیٹھ گئے۔ حضرت ابو بکر کھڑے ہو کر نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی اقتداء کرنے لگے اور لوگ حضرت ابو بکر کی اقتداء کرنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنه فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءۃ اسی جگہ سے شروع فرمائی جس جگہ حضرت ابو بکر پہنچے تھے۔‘‘
(حدیث اور اہل حدیث ص 324،323)
آل دیو بند کے امام سر فراز صفدر نے مذکورہ حدیث کے متعلق لکھا:
’’یہ روایت سند کے لحاظ سے بالکل صحیح ہے۔‘‘
(احسن الکلام جلد اص 245، دوسرانسخ ص 304)
اس حدیث کے متعلق انوار خورشید دیوبندی نے لکھا:
’’یہ آپ کا آخری فعل جس کا کوئی ناسخ بھی نہیں‘‘
(حدیث اور اہل حدیث ص 345)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخر تک صحابہ کرام نے (و إذا قرى القرآن) کا یہ مطلب نہیں لیا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو مقتدی زبان کو حرکت ہی نہیں تو دے سکتا اور اگر صحابہ کرام کے نزدیک ﴿وإذا قرئ القرآن﴾ کا مطلب ایسا ہی ہوتا جیسا کہ آل دیو بند نے سمجھا ہے تو وہ کبھی سبحان اللہ نہ کہتے۔
یہ جواب آل دیوبند کے اصولوں کی روسی میں ہے۔ ہمارے نزدیک یہ روایت ضعیف ہونے کے علاوہ صحیح حدیث کے مخالف بھی ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الجہریہ (ص 125) اور توضیح الکلام (ج 2 ص 453)
اگر کوئی دیو بندی کہے کہ میں آل دیوبند کے اصولوں کا پابند ہوں اور اس حدیث سے میرا مسئلہ تو حل ہو گیا کہ مقتدی پر سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے دیو بندی کا مسئلہ حل نہیں ہوا کیونکہ اس روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی نہیں بلکہ امام بنے تھے ۔ چنانچہ آلِ دیوبند کے شیخ الحدیث فیض احمد ملتانی نے اسی روایت کے متعلق لکھا ہے: ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث کا خلاصہ یہ ہے ۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرض وفات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے۔ نماز کے درمیان آپ دو آدمیوں کے سہارے مسجد میں تشریف لائے اور امام بنے، حضرت ابوبکر رضی الله عنه مکبر بنے ۔‘‘
(نماز مدلل ص 115)
اگر کوئی شخص کہے کہ اس روایت کے مطابق امام پر بھی سورہ فاتحہ ضروری نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ آل دیوبند کے نزدیک امام پر سورہ فاتحہ واجب ہے۔ سرفراز خان صفدر نے کہا: ’’فاتحہ صرف امام پر لازم ہے‘‘
(احسن الکلام ج 2 ص 342، دوسرا نسخه ص 422)
اگر کوئی دیوبندی کہے کہ اس روایت کا تحقیقی جواب آل دیوبند کے اصولوں کے مطابق کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ طحاوی حنفی نے آل دیو بند کے امام محمد بن حسن شیبانی سے اس روایت کے متعلق لکھا ہے: ’’اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کے دنوں میں جو بیٹھ کر نماز پڑھائی اور صحابہ کرام پیچھے کھڑے ہو کر اقتدا کر رہے ہیں تو یہ آپ کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ اس میں آپ نے ایسے کام کیے ہیں جو آپ کے بعد کسی کے لیے جائز نہیں ایک تو یہ کہ آپ نے قرآت وہاں سے شروع کی جہاں سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ختم کی تھی ۔ دوسرا یہ کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ایک ہی نماز میں پہلے امام بنے پھر مقتدی اور یہ بھی بالاتفاق کسی کے لئے جائز نہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں کچھ ایسے امور ہیں جو آپ کے بعد کسی کے لیے جائز نہیں۔‘‘
(شرح معانی الآثارص 237 ج1، توضیح الکلام ج 2 ص 477)
جب یہ معلوم ہو گیا کہ آل دیوبند کے اصولوں کے مطابق سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کے قائل و فاعل تھے بلکہ اس کا حکم دیتے تھے۔ اور سید نا ابو ہریرہ رضی الله عنه کے متعلق سرفراز صفدر نے لکھا: ’’حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه متاخرالاسلام ہیں۔ اور 57 کو مسلمان ہوئے ہیں۔
(احسن الکلام جلد اص150، دوسر انسخه ص 189)
مد تقی عثمانی دیوبندی نے کہا: ’’اس کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه ہیں، جو 57 چھ میں اسلام لائے‘‘
(درس ترمذی جلد اص291)
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه وہ صحابی ہیں جنہوں نے آخر تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں تم سب سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے مشابہ ہوں۔ وصال تک آپ کی نماز اسی طرح تھی
(تفہیم البخاری علی صحیح بخاری جلد 1ص 400، ترجمه ظهورالباری دیو بندی)
جب یہ معلوم ہو گیا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آخر تک نماز پڑھی ہے ۔ اور سیدنا ابو ہریر ولی اللہ امام کے پیچھے سری و جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل وفاعل تھے بلکہ حکم دیتے تھے اور اگر ان سے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا مسئلہ پوچھا جاتا تو سائل سے یہ بھی فرماتے تھے: قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم : ((اقرأوا)) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑھو
اگر کوئی دیوبندی کہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنه کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہ تھا تو عرض ہے کہ یہ بات آلِ دیو بند کے اپنے ہی اصول کے خلاف ہے کیونکہ آل دیوبند کا عقیدہ ہے کہ اگر کوئی صحابی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آہستہ قراءت بھی کرتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہو جاتا تھا۔ چنانچہ آل دیو بند کے امام سرفراز صفدر نے لکھا: رہا یہ سوال صلی اللہ علیہ وسلم کہ اگر پڑھنے والے نے آہستہ قرآت کی تھی ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے علم ہوا ؟ تو یہ بڑی سطحی قسم کی بات ہے احادیث میں آتا ہے ۔ کہ آپ کو نماز کی حالت میں ایک مخصوص کیفیت حاصل تھی۔ جس سے آپ مقتدیوں کے رکوع وسجود اور خشوع کو ملاحظہ کر لیتے تھے (مشکوۃ جلد 1ص 77)
مزید لکھا ہے: ’’مقتدی کی آہستہ قرآت سے متاثر ہونا بعید نہ تھا۔ اس لئے نماز کی حالت میں آپ کی طبیعت لطیف تر اور شفاف تر ہو جاتی تھی‘‘
(احسن الکلام جلد اص230، دوسراست ص 286)
فقیر اللہ دیوبندی نے سرفراز صفدر کے اسی استدلال کے متعلق لکھا: ’’مجھے حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کی نسبت مؤلف احسن الکلام محدث العصر علامہ محمد سرفراز صفدر مدظلہ العالی کا لطیف استدلال جو انہوں نے اپنے حسن ذوق کی بنا پر کیا ہے زیادہ پسند ہے کہ نماز کی حالت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی لطافت طبع مزید لطیف ہو جاتی تھی اور آپ امور حسیہ سے بڑھ کر امور معنویہ تک کو محسوس کرنے لگتے تھے‘‘
(خاتمہ الکلام ص 302)
جب یہ معلوم ہو گیا کہ آلِ دیو بند کے اصولوں کے مطابق سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قراءت کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا تو اب یہ بھی جان لیں کہ آل دیو بند کے امام سرفراز صفدر نے پانچ صحابہ کرام کا قراءت خلف الامام پر عامل ہونا تسلیم کر لیا ہے:
سیدنا ابو ہريره رضی الله عنه (احسن الکلام جلد اص314، دوسرا نسخه ص 387، 388)
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی الله عنه (احسن الکلام جلد 1ص 314 ، دوسرا نسخه ص 387، 388)
ہشام بن عامر رضی الله عنه (احسن الکلام جلد 2 ص 46 حاشیه، دوسر انسخه ص 51)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی الله عنه (احسن الکلام جلد 2 ص 131، دوسر نسخه ص 143)
سید نا عبادہ بن صامت رضی الله عنه (احسن الکلام جلد 2 ص 142، دوسرا نسخه ص 156)
البته سر فراز خان نے سیدنا عمر رضی الله عنه کا اثر اس طرح نقل کیا ہے : حضرت عمرؓ کا اثر :-
یزید شریک فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن الخطاب سے سوال کیا: اقرأ خلف الامام قال نعم قال وان قرأت یا امیرالمومنین قال وان قرات (جزا القراة ص 3 الطحاوی جلد اص 129 کتاب القرآة ص40) کیا میں امام کے پیچھے قرآت کر سکتا ہوں؟ فرمایا ہاں سائل نے پوچھا اگر چہ آپ پڑھ رہے ہوں اے امیر المومنین؟ فرمایا ہاں اگرچہ میں پڑھتا رہوں اور مستدرک حاکم جلد 1ص 239 دار قطنی جلد 1ص120 اور سنن الکبری جلد 2 ص 67 اوغیرہ میں یہ بھی مذکور ہے تم سورہ فاتحہ پڑھ لیا کر وسائل نے دریافت کیا اگر چہ آپ جہر سے قرآت کر رہے ہوں؟ فرمایا ہاں اگر چہ میں جہر سے قرات کیا کروں۔
(احسن الکلام جلد 2 ص 120،119، دوسر انسخه ص 132،131)
سرفراز صفدر نے اس اثر کی سند کے کسی راوی پر کوئی کلام نہیں کیا البتہ مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے لکھا ہے: ’’مولف احسن الکلام نے طبع اول میں اس پر اعتراض کیا تھا جس کا جواب خیر الکلام (ص289) میں دیا گیا ہے۔اس کے بعد مؤلف موصوف کی اس پر خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ سند کے اعتبار سے اس اثر کا بے غبار ہونا انہیں بھی مسلم ہے۔‘‘
(توضیح الکلام جلد 1ص 465، طبع جدید ص 424)
سیدناعمر رضی الله عنه کا ہی اثر الیاس گھمن کے چہیتے ابوالحسن دیوبندی نے قافلہ حق میں نقل کر کے کوئی جرح نہیں کی بلکہ لکھا ہے: ’’قرات خلف الامام کے باب امام شافعی و امام احمد کا قول یہ ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی چاہیے۔ امام ترمذی نے امام کے پیچھے قرات کو جائز بتانے والوں کے بارے میں فرمایا وھو قول مالک ابن انس و ابن المبارک والشافعی واحمد واسحاق گرون القراۃ خلف الامام ۔ که امام مالک بن انس، ابن مبارک ، امام شافعی ، امام احمد اور اسحاق امام کے پیچھے قرات کو جائز بتاتے ہیں۔ (ترمذی 178/1)‘‘
(قافله حق جلد 3 شماره 1ص 20،19)
اس سے معلوم ہوا کہ بعض لوگوں کا یہ دعوی : ’’امام احمد رحمہ اللہ نے واذا قری القرآن کے بارے میں اجماع نقل کیا ہے کہ یہ نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے‘‘ کی حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ آیت مبارکہ (وإذا قرئ القرآن) الخ میں مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے کی ممانعت نہیں ہے کیونکہ اجتماع امام احمد بن حنبل کی طرف منسوب ہے اور وہی فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی چاہئے۔
سیدنا ابوسعید الخدری رضی الله عنه ابو نضرہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے ابوسعید خدری رضی الله عنه سے امام کے پیچھے قراءت کا پوچھا تو انہوں نے فرمایا: سورۃ فاتحہ۔
آل دیوبند کے مشہور ’’محدث اور فقیہ‘‘ محمد بن علی نیموی نے اس اثر کے بارے میں کہا: ’’إسناده حسن“ اس کی سند حسن ہے۔
(آثار اسن ص 28 تحت ح 358 ، دوسرا نسخه ص 90)
آل دیوبند کے اصولوں کے مطابق ان صحابہ کرام رضی الله عنه کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم بھی تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ کرام کو منع نہیں کیا لہذا معلوم ہوا کہ آیت (وإذا قرئ القرآن) میں ایسا کوئی حکم نہیں کہ مقتدی سورۃ فاتحہ نہ پڑھے۔
مزید یہ کہ دیوبندی عموماً تشہد میں درود کے بعد امام و مقتدی دونوں ’’رب اجعلنی مقیم الصلاة‘‘ پڑھتے ہیں جو کہ قرآن مجید کی آیت ہے۔ اگر کوئی دیوبندی کہے کہ ’’رب اجعلنی مقيم الصلاة‘‘ تو ہم بطور دعا پڑھتے ہیں تو جواب اس کا یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ بھی دعا ہے چنانچہ آل دیو بند کے امام سرفراز صفدر نے لکھا: ’’فاتحہ دعا ہے لیکن مقتدی حکماً دعا خواں ہے اور آمین سے اسکی تصدیق کرتا ہے۔‘‘
(احسن الکلام جلد 1ص 1342، دوسرا نسخه س 422)
اگر آمین سے تصدیق ہوتی ہے تو دیو بندی مقتدی سری نمازوں میں اس تصدیق سے بھی محروم رہتا ہے کیونکہ ہر دیو بندی جانتا ہے کہ وہ سری نمازوں میں آمین کہتا ہی نہیں۔
اس تفصیل کے بعد آل دیوبند کے انتہائی معتبر علماء سے آیت (واذا قری القرآن) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں، چنانچہ آل دیوبند کے ’’حکیم الامت‘‘ اشر فعلی تھانوی نے لکھا: ’’میرے نزدیک اذا قرئ القرآن فاستمعوا جب قرآن مجید پڑھا جائے تو کان لگا کر سنو۔ تبلیغ پر محمول ہے اس جگہ قراءت فی الصلوۃ مراد نہیں۔ سیاق سے یہی معلوم ہوتا ہے تو اب ایک مجمع میں بہت آدمی مل کر قرآن پڑھیں تو کوئی حرج نہیں۔‘‘
(الکلام الحسن جلد 2 ص 212، ملفوظات حکیم الامت، ج26 ص 335)
اور اشرف علی تھانوی کے خلیفہ عبدالماجد دریا آبادی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’حکم کے مخاطب ظاہر ہے کفار و منکرین ہیں، اور مقصود اصلی یہ ہے کہ جب قرآن به غرض تبلیغ پڑھ کر تم کو سنایا جائے تو اُسے توجہ و خاموشی کے ساتھ سُنا کرو، تاکہ اس کا معجز ہونا اور اس کی تعلیمات کی خوبیاں تمہاری سمجھ میں آجائیں اور تم ایمان لا کر مستحق رحمت ہو جاؤ‘‘
(تفسیر ماجدی ص 373، دوسر انسخه ج 2 ص 263 واللفظ له)
خلاصہ کلام آل دیو بند کے اصولوں کے مطابق سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه ، آیت (و إذا قرى القرآن) کے شان نزول کی روایت کے راوی ہیں اور حدیث و إذا قـــرأ فانصتوا کے بھی راوی ہیں اور سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه آیت کے نازل ہونے کے بعد اور آیت حديث وإذا قرأ فانصتوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کے بعد بھی امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے لہذا آلِ دیو بند نے آیت اور حدیث کا مطلب غلط سمجھا ہے کیونکہ آلِ دیو بند کے عالم فقیر اللہ نے لکھا: ’’احناف کے ہاں اصول یہ ہے کہ صحابی کا فتویٰ اپنی مرفوع روایت کے خلاف اس کے منسوخ ہونے کی دلیل ہے کیونکہ صحابہ کے ساتھ حسن ظن کا تقاضا یہ ہے کہ مرفوع حدیث کے خلاف ان کے عمل اور فتویٰ کو بے عملی اور لا پرواہی کا نتیجہ قرار دینے کی بجائے یہ خیال کر لیا جائے کہ صحابی کو اپنی مرفوع روایت کے منسوخ ہونے کا علم ہو گیا تھا اس لئے اس کے خلاف عمل اور فتوی دینا شروع کر دیا‘‘
(خاتمہ الکلام ص 299)
آل دیو بند کی طرف سے ترک قرات خلف الامام کے بنیادی دلائل کی حقیقت واضح ہو جانے کے بعد اب مسئلہ فاتحہ خلف الامام کی مزید وضاحت بھی آل دیوبند کے اصولوں کی روشنی میں واضح کی جاتی ہے۔ ان شاء اللہ
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((لا صلوة لمن يقرأ بفاتحة الكتاب)) اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے۔
(صحیح بخاری جلد 1ص 104 ح 756 صحیح مسلم ج 1ص 169 ح 394)
آل دیو بند کے امام سرفراز صفدر نے لکھا: ’’اور امت کا اس پر اجماع و اتفاق ہے کہ بخاری ومسلم دونوں کی تمام روائتیں صحیح ہیں‘‘
(احسن الکلام جلد اص 187 حاشیه، دوسرا نسخه ص 334)
مذکورہ حدیث کے متعلق سرفراز صفدر نے لکھا: ’’بلاشبہ سند کے لحاظ سے یہ روایت صحیح ہے‘‘
(احسن الکلام جلد 2 ص 18)
آل دیوبند کے مفتی محمد یوسف لدھیانوی نے مذکورہ حدیث کے متعلق لکھا:
’’یہ حدیث بلاشبہ صحیح ہے اور متفق علیہ ہے، آئمہ ستہ نے اس کی تخریج کی ہے‘‘
(اختلاف امت اور صراط مستقیم حصہ دوم ص 77)
آل دیو بند کے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اس حدیث کے متعلق لکھا: ’’بالاتفاق صحیح ہے‘‘
(درس ترمذی جلد 2 ص 75)
آل دیوبند کے امام سرفراز نے محمد عمر اچھروی بریلوی پر رد کرتے ہوئے لکھا: ’’مگر مولوی محمد عمر کو بگوش ہوش سننا چاہئے اور اچھی طرح یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بخاری شریف کی روایت کو ضعیف کہہ دینا خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔‘‘
(ازالتہ الریب ص 411)
اس حدیث کے راوی سیدنا عبادہ بن صامت رضی الله عنه کا اثر
سید نا محمود بن ربیع رضی الله عنه نے فرمایا: میں نے (امام کے پیچھے) ایک نماز پڑھی اور میرے ساتھ (سیدنا) عبادہ بن صامت رضی الله عنه تھے انھوں نے سورۃ فاتحہ پڑھی۔ میں نے ان سے کہا:
اے ابو الولید! کیا میں نے آپ کو سورۃ فاتحہ پڑھتے نہیں سنا ؟ تو انھوں نے فرمایا: جی ہاں ! ور اس کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔
(مصنف ابن ابی شیبه ج 1ص 375 ، وسندہ صحیح)
مصنف ابن ابی شیبہ کے متعلق امین اوکاڑوی نے لکھا ہے کہ اس کتاب کے تمام راوی خیر القرون کے راوی ہیں
(تجلیات صفدر جلد 4 ص 61)
آل دیو بند کے امام سرفراز خان صفدر نے لکھا ہے: ’’بہر حال یہ بالکل صحیح بات ہے کہ حضرت عبادہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے اور ان کی یہی تحقیق اور یہی مسلک و مذہب تھا .‘‘
(احسن الکلام ج 2 ص 142، دوسرا نسخه ج 2 ص 156)
محمد تقی عثمانی نے مذکورہ اثر کے متعلق فرمایا: ’’صحیح ہے‘‘
(درس ترمذی ج 2 ص 76)
فقیر اللہ دیوبندی نے سیدنا عبادہ بن صامت رضی الله عنه کے متعلق نے لکھا: ’’جب بھی ان سے امام کے پیچھے قرآت کرنے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے خلف الامام کی زیادت کے بغیر لاصلوة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب کے ساتھ استدلال کیا‘‘
(خاتمہ الکلام ص 439)
تقی عثمانی صاحب نے لکھا: ’’حضرت عبادہ رضی الله عنه کا اپنا اجتہاد ہے، یعنی انہوں نے لا صلوة لمن لم يقرأ والی حدیث کو امام اور مقتدی دونوں کے لئے عام سمجھا اور اس سے یہ حکم مستنبط کیا کہ مقتدی پر بھی قراءت فاتحہ واجب ہے‘‘
(درس ترمذی جلد 2 ص 75)
آل دیوبند کی مذکورہ عبارات سے معلوم ہوا کہ سید نا عبادہ بن الصامت رضی الله عنه امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے اور اس کو واجب سمجھتے تھے اور انھوں نے جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنی فاتحہ پڑھنی شروع کر دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کا علم تھا کیونکہ سرفراز صفدر اور فقیر اللہ دیو بندی کے بقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت نماز میں لطیف سے لطیف تر ہو جاتی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظلم کو آہستہ آواز سے قراءت کرنے والے کا بھی علم ہو جاتا تھا۔
(دیکھئے احسن الکلام جلد 1ص230، دوسرا نسخہ ص 286، اور خاتمہ الکلام ص 302[ اصل عبارتیں گزر چکی ہیں])
دیو بندیوں کے محدث سعید احمد پالنپوری نے سید نا عبادہ بن صامت رضی الله عنه کی اسی حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھا: ’’ظاہر ہے قول صحابی کے سامنے کسی اور کی بات ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ کلام نبوت کو اوروں کی بہ نسبت صحابہ کرام زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔“
(تسہیل ادلہ کاملہ ص 66، 67)
سرفراز صفدر نے لکھا: ’’اور یہ بات با قرار مبارکپوری صاحب اپنے مقام پر آئیگی کہ راوی حدیث (خصوصاً جب کہ صحابی ہو) اپنی مروی حدیث کی مراد کو دوسروں سے زیادہ بہتر جانتا ہے‘‘
(احسن الکلام جلد اص268، دوسرا نسخہ ص 331)
مکرر عرض ہے کہ آلِ دیوبند کے مفتی محمد یوسف لدھیانوی نے لکھا: ’’میں اس تصور کو ساری گمراہیوں کی جڑ سمجھتا ہوں کہ صحابہ کرام رضی الله عنه تابعین عظام ، آئمہ ہدی اور اکابر امت نے فلاں مسئلہ صحیح نہیں سمجھا۔ اور آج کے کچھ زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کی رائے ان اکابر کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہے۔ نعوذ باللہ‘‘
(اختلاف امت صراط مستقیم حصہ اول ص 25، دوسرانسخ ص 37)
تنبیه:
فصاعداً ، فما زاد اور وما تیسر کی زیادت والے اعتراض کے جواب کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث نمبر 57 ص32۔ 33