سوال
ایک آدمی رفع الیدین، آمین بالجہر اور سورۂ فاتحہ خلف الامام کا قائل نہیں، اگر وہ نماز پڑھائے تو کیا اس کے پیچھے نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ جبکہ پیچھے کھڑے ہوئے لوگ ان امور کے قائل ہوں اور وہ بھی نماز پڑھانے کی اہلیت رکھتے ہوں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
✿ سورہ فاتحہ نماز کا رکن ہے اور اس کا پڑھنا واجب ہے۔
✿ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی الجامع الصحیح کے بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا، فِي الحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَمَا يُجْهَرُ فِيهَا وَمَا يُخَافَتُ سے یہ امر واضح فرمایا ہے۔
✿ عن عبادۃ بن الصامت: أن رسول اللہ ﷺ قال: لا صلوۃ إلا بفاتحة الکتاب
یہ وجوب کی قطعی دلیل اور روشن برہان ہے۔
اسی طرح:
✿ رفع الیدین عند الرکوع والرفع عنہ متواتر اور متوارث سنت ہے۔
✿ آمین بالجہر بھی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔
لہٰذا ان تینوں امور کے تارک امام کی اقتدا میں نماز پڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔ اس وجہ سے ایسے امام کی اقتدا سے بچنا ہی زیادہ عافیت اور سلامتی کا باعث ہے، ورنہ نماز کے ناقص ہونے کا اندیشہ خارج از امکان نہیں۔
البتہ اگر اتفاقاً ایسے امام کی اقتدا میں نماز ادا کر لی جائے تو نماز ہو جائے گی۔
اقوال علماء
شیخ الکل فی الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی فرماتے ہیں:
✿ مخالف مذہب امام کی اقتدا جائز ہے کیونکہ جماعت قائم رہنا رحمت ہے۔
✿ تفرقہ بازی اللہ کی طرف سے سزا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا…١٠٣﴾ …آل عمران
یعنی: اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ نہ بنو۔
✿ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور دیگر مجتہدین کے زمانے میں یہی دستور رہا ہے کہ کسی ایک امام سے بھی مخالف مذہب کی اقتدا کے خلاف کوئی بات ثابت نہیں۔
✿ وہ ہر مسلمان کے پیچھے اقتدا کو جائز سمجھتے تھے کیونکہ وہ دین کے اصولوں میں متحد تھے، اگرچہ فروعی مسائل میں اجتہاد کرتے تھے۔
✿ ہر مجتہد کوشش کرتا تھا کہ بہتر سے بہتر بات سامنے لائے۔ اس کے باوجود وہ ظنی دلائل میں اپنے آپ کو یقینی طور پر حق پر اور مخالف کو یقینی طور پر غلطی پر نہیں سمجھتے تھے۔
✿ وہ ہر ایک کو اجتہاد کا حق دیتے تھے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: العلماء ورثة الأنبياء (علماء نبیوں کے وارث ہیں)۔
ملا علی قاری نے رسالہ الاقتداء بالمخالف میں بھی یہی بات لکھی ہے۔
فتاویٰ نذیریہ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ شرک اور بدعت کے معاملے میں کوئی امتیاز قائم نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب