نماز دینِ اسلام کا سب سے عظیم فریضہ اور ایمان کا مظہر ہے۔ یہ وہ عبادت ہے جو براہِ راست بندے کو اس کے رب سے جوڑتی ہے۔ اسی لیے دیگر عبادات کی فرضیت زمین پر نازل ہوئی، لیکن نماز کی فرضیت آسمانوں پر معراج کی رات براہِ راست اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد ﷺ کو عطا فرمائی۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے بندے کی نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست ہوئی تو باقی اعمال بھی درست قرار پائیں گے، اور اگر نماز میں خرابی ہوئی تو دوسرے اعمال بھی مردود ہوں گے۔ (الترمذی: ۴۱۳، الطبرانی فی الاوسط، الصحیحۃ: ۱۳۵۸)
یہی وجہ ہے کہ مومن کو اپنی نماز کی فکر سب سے زیادہ کرنی چاہیے کہ آیا وہ رسول اکرم ﷺ کے طریقے پر ہے یا محض رسم بن چکی ہے۔ کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"صلوا كما رأيتموني أصلي”
"تم نماز اسی طرح پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔” (البخاری: ۶۳۱)
قرآن کریم نے بھی نبی کریم ﷺ کی اتباع کو نجات کا ذریعہ قرار دیا ہے:
﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴾ (الاحزاب: ۲۱)
"تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ میں بہترین نمونہ موجود ہے۔”
لہٰذا اس مضمون میں ہم ان عام غلطیوں کا ذکر کریں گے جو آج بہت سے نمازیوں کی نمازوں میں پائی جاتی ہیں، تاکہ امت اپنی نمازوں کو سنتِ نبوی کے مطابق درست کرسکے۔
❀ نمازیوں کے لباس میں عام غلطیاں ❀
① تنگ لباس میں نماز پڑھنا
بعض لوگ تنگ پینٹ یا لباس میں نماز ادا کرتے ہیں جس سے سجدہ مشکل ہوجاتا ہے اور بدن کے کچھ حصے نمایاں ہو جاتے ہیں۔ یہ عمل دو خرابیوں پر مشتمل ہے:
کفار کے ساتھ مشابہت، کیونکہ مسلمانوں میں اس طرز کا لباس رائج نہ تھا۔
ستر کے نمایاں ہونے کی خرابی، حالانکہ اسلام میں ستر کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔
اگر پینٹ کھلی ہو اور اوپر لمبی قمیص یا شرٹ ہو جو ناف سے گھٹنے تک کا حصہ ڈھانپے رکھے تو نماز درست ہے، بصورتِ دیگر نماز باطل ہو جاتی ہے۔
② باریک یا شفاف کپڑوں میں نماز پڑھنا
گرمیوں میں بعض لوگ اتنے باریک کپڑے پہنتے ہیں کہ جسم کا رنگ یا اعضا ظاہر ہوتے ہیں۔
فقہاء فرماتے ہیں:
(يُشْتَرَطُ فِي السَّاتِرِ أَنْ يَكُونَ كَثِيفًا…)
"ستر کے لیے شرط ہے کہ کپڑا موٹا ہو، باریک کپڑا جس سے جلد دکھائی دے، کافی نہیں۔”
(الدین الخالص ۲/۱۰۱، المجموع ۳/۱۷۰)
عورتوں کے لیے تو عام حالات میں بھی باریک لباس منع ہے، چہ جائیکہ نماز کی حالت میں۔
③ گندے یا نیند کے لباس میں نماز پڑھنا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ ﴾ (الاعراف: ۳۱)
"اے آدم کی اولاد! ہر نماز کے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔”
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"اللّٰہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کے سامنے خوبصورتی اختیار کی جائے۔”
(شرح معانی الآثار ۱/۳۷۷)
پس میلے کچیلے یا سوتے وقت کے کپڑوں میں نماز پڑھنا بے ادبی ہے۔
④ ننگے کندھوں کے ساتھ نماز پڑھنا
نبی ﷺ نے فرمایا:
"لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ لَيْسَ عَلَى عَاتِقَيْهِ مِنْهُ شَيْءٌ”
"تم میں سے کوئی شخص ایک ہی کپڑے میں نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھوں پر کچھ نہ ہو۔”
(بخاری: ۳۵۹، مسلم: ۵۱۶)
فقہاء کے نزدیک کندھوں کو ڈھانپنا واجب ہے۔
⑤ کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا
نبی ﷺ نے فرمایا:
"لَا يَنْظُرُ اللّٰهُ إِلَى صَلَاةِ رَجُلٍ يَجُرُّ إِزَارَهُ بَطَرًا”
"اللہ اس کی نماز کی طرف نہیں دیکھتا جو تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹتا ہے۔”
(صحیح ابن خزیمہ ۱/۳۸۲)
نیز فرمایا:
"اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جو تہبند لٹکائے ہوئے ہو۔”
(ابوداؤد: ۶۳۸)
لہٰذا ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا کبیرہ گناہ ہے، خواہ نماز میں ہو یا عام حالات میں۔
⑥ خواتین کا نماز کے وقت سر یا بال کھول دینا
نبی ﷺ نے فرمایا:
"لَا يَقْبَلُ اللّٰهُ صَلَاةَ حَائِضٍ إِلَّا بِخِمَارٍ”
"اللہ تعالیٰ بالغ عورت کی نماز اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ سر ڈھانپ نہ لے۔”
(ابوداؤد)
اس لیے عورت اگر دوپٹہ یا اوڑھنی کے بغیر نماز پڑھے تو نماز قبول نہیں۔
جائے نماز سے متعلق غلطیاں
❀ نمازیوں کی جائے نماز میں اخطاء ❀
① ایسی جگہ نماز پڑھنا جہاں تصاویر ہوں
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے رنگین پردے کے بارے میں فرمایا:
(أَمِیْطِی عَنِّی ، فَإِنَّہُ لَا یَزَالُ تَصَاوِیْرُہُ تُعْرَضُ لِی فِی صَلَاتِی) [البخاری: ۳۷۴، ۵۹۵۹]
ترجمہ: “اسے مجھ سے ہٹا دو، اس کی تصاویر میری نماز میں سامنے آتی رہتی ہیں۔”
اسی بنا پر ایسی جگہ نماز سے بچنا چاہیے جہاں تصاویر توجہ بٹائیں۔ مزید یہ کہ:
(لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَۃُ بَیْتًا فِیْہِ صُورَۃٌ) [مسلم: ۲۱۰۶]
ترجمہ: “جس گھر میں تصویر ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔”
② قبر پر یا قبر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا
جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے وفات سے پانچ دن قبل فرمایا:
(أَلَا وَإِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوا یَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَّسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، فَإِنِّی أَنْہَاکُمْ عَنْ ذَلِکَ) [مسلم: ۵۳۲]
ترجمہ: “خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے تھے، خبردار! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔”
ایک اور فرمان:
(وَلَا تَجْلِسُوا عَلَی الْقُبُورِ، وَلَا تُصَلُّوْا إِلَیْہَا) [مسلم: ۹۷۲]
ترجمہ: “قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ان کی طرف رخ کرکے نماز پڑھو۔”
③ مسجد میں اپنے لیے مخصوص جگہ بنا لینا
بعض لوگ ہمیشہ مسجد میں ایک ہی جگہ اختیار کرتے ہیں۔ نبی ﷺ نے اس سے منع فرمایا:
(نَہَی رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ عَن نَّقْرَۃِ الْغُرَابِ، وَافْتِرَاشِ السَّبُعِ، وَأَن یُّوَطِّنَ الرَّجُلُ الْمَکَانَ فِی الْمَسْجِدِ کَمَا یُوَطِّنُ الْبَعِیْرُ) [ابوداؤد: ۸۶۲، ابن ماجہ: ۱۴۲۹]
ترجمہ: “رسول اللہ ﷺ نے کوّے کی طرح چونچ مارنے (جلدی سجدہ)، درندے کی طرح کہنیاں بچھانے اور مسجد میں اونٹ کی طرح جگہ پکی کر لینے سے منع فرمایا۔”
④ بغیر سترہ کے نماز پڑھنا
مسجد میں دیوار، ستون، رحل یا کرسی کو سامنے رکھنا سنت ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
(لَا تُصَلِّ إِلَّا إِلٰی سُتْرَۃٍ، وَلَا تَدَعْ أَحَدًا یَّمُرُّ بَیْنَ یَدَیْکَ، فَإِنْ أَبٰی فَلْتُقَاتِلْہُ فَإِنَّ مَعَہُ الْقَرِیْنَ) [مسلم: ۲۶۰]
ترجمہ: “سترہ کی طرف ہی نماز پڑھو، اور کسی کو اپنے آگے سے گزرنے نہ دو، اگر نہ رکے تو اسے روک لو کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔”
ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت:
(إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ فَلْیُصَلِّ إِلٰی سُتْرَۃٍ وَلْیَدْنُ مِنْہَا …) [ابوداؤد: ۶۹۷، ابن ماجہ: ۹۵۴]
ترجمہ: “جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو سترہ کی طرف پڑھے اور اس کے قریب ہو…”
کچھ اہم مسائلِ سترہ:
کم از کم اونچائی:
(إِذَا وَضَعَ أَحَدُکُمْ بَیْنَ یَدَیْہِ مِثْلَ مُؤَخِّرَۃِ الرَّحْلِ فَلْیُصَلِّ …) [مسلم: ۴۹۹]
ترجمہ: “اگر کوئی پالان کے پچھلے حصے (تقریباً ایک بالشت/ہاتھ) کے برابر چیز رکھ لے تو نماز پڑھ لے۔”
امام کا سترہ مقتدیوں کا سترہ ہے؛ اس لیے جماعت کی صفوں کے آگے سے گزرنا (صفوں کے درمیان) جائز ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت: انہوں نے منیٰ میں نبی ﷺ کی نماز کے وقت صف کے آگے سے گزر کر شرکت کی، کسی نے منع نہ کیا۔ [البخاری: ۷۶، مسلم: ۴۰۵]
صحابہ کا اہتمام: قرۃ بن ایاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھتے دیکھا تو گدی سے پکڑ کر سترہ کے قریب کھڑا کر دیا اور فرمایا: (صَلِّ إِلَیْہَا) — “اس کی طرف نماز پڑھو۔” (تعلیق بخاری: باب الصلاۃ إلی الأسطوانۃ)
❀ نماز کی کیفیت میں نمازیوں کی عام غلطیاں ❀
① نیت زبان سے کرنا
بعض لوگ نماز سے قبل زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرتے ہیں جیسے:
“میں نیت کرتا ہوں دو رکعت نماز فرض اللہ کے لیے، منہ طرف قبلہ…”
حالانکہ شریعت میں ایسی کوئی تعلیم نہیں۔ نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبان سے ادا کرنا بدعت ہے۔
ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ نیت دل میں ہوتی ہے، زبان پر نہیں۔
امام ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"لَمْ یَقُلْ أَحَدٌ مِّنَ الْأَئِمَّۃِ الْأَرْبَعَۃِ… بِاشْتِرَاطِ التَّلَفُّظِ بِالنِّیَّۃِ، وَإِنَّمَا النِّیَّۃُ مَحَلُّہَا الْقَلْبُ بِاتِّفَاقِہِمْ”
(الاتباع: ص ۶۲)
نبی ﷺ کی نماز کا آغاز ہمیشہ تکبیر سے ہوتا تھا، آپ ﷺ نے کبھی زبان سے نیت نہیں کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ یَسْتَفْتِحُ الصَّلَاۃَ بِالتَّکْبِیْرِ” [مسلم: ۴۹۸]
اور جب ایک صحابی نے نماز غلط طریقے سے پڑھی تو آپ ﷺ نے اسے دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:
(إِذَا قُمْتَ إِلَی الصَّلَاۃِ فَأَسْبِغِ الْوُضُوْئَ ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ فَکَبِّرْ…) [بخاری: ۷۵۷]
اس حدیث میں نیت کے الفاظ نہیں سکھائے گئے، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نیت زبان سے نہیں، دل سے ہوتی ہے۔
② ہاتھوں کو سینے پر نہ باندھنا
کچھ لوگ ہاتھ ناف کے نیچے یا پیٹ پر باندھتے ہیں، جبکہ نبی ﷺ کا عمل سینے پر ہاتھ باندھنے کا تھا۔
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(فَوَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرٰی عَلٰی صَدْرِہِ) [صحیح ابن خزیمہ ۱/۲۴۴]
ترجمہ: “نبی ﷺ نے دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا اور دونوں کو سینے پر باندھا۔”
طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ یَضَعُ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرَی ثُمَّ یَشُدُّ بَیْنَہُمَا عَلٰی صَدْرِہِ) [ابوداؤد: ۷۵۹]
یہی نبی ﷺ کی سنت ہے۔
③ نماز میں آسمان کی طرف نظر اٹھانا
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَا بَالُ أَقْوَامٍ یَرْفَعُونَ أَبْصَارَہُمْ إِلَی السَّمَاءِ فِی صَلَاتِہِمْ؟ لَیَنْتَہُنَّ عَنْ ذَلِکَ أَوْ لَتُخْطَفَنَّ أَبْصَارُہُمْ) [بخاری: ۷۵۰]
ترجمہ: “لوگ اپنی نمازوں میں آسمان کی طرف نظریں کیوں اٹھاتے ہیں؟ باز آ جائیں ورنہ ان کی بینائی چھین لی جائے گی!”
لہٰذا نماز میں نگاہ سجدہ کی جگہ پر رکھنا ہی سنت ہے۔
④ غیر ضروری حرکتیں
بعض لوگ نماز میں بار بار خارش، داڑھی سہلانا، کپڑے درست کرنا، انگلیاں چٹخانا یا گھڑی دیکھنا جیسے اعمال کرتے ہیں۔
ایسے لوگوں میں خشوع نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ ہُمْ فِی صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ ﴾ [المؤمنون: ۱-۲]
“کامیاب وہ مومن ہیں جو اپنی نمازوں میں خشوع رکھتے ہیں۔”
نبی ﷺ نے فرمایا:
(أُسْکُنُوا فِی الصَّلَاۃِ) [مسلم: ۴۳۰]
“نماز میں سکون اختیار کرو۔”
⑤ امام کے پیچھے تکبیراتِ انتقال نہ کہنا
بعض مقتدی امام کے پیچھے خاموش رہتے ہیں حالانکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہِ، فَإِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوْا…) [بخاری: ۳۷۸]
“امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی کہو۔”
لہٰذا ہر حرکت کے ساتھ مقتدی کو بھی امام کی تکبیر کے ساتھ تکبیر کہنا چاہیے۔
⑥ ارکانِ نماز میں عدمِ اعتدال و جلدبازی
یہ سب سے عام اور خطرناک غلطی ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
(لَا تُجْزِیُٔ صَلَاۃُ الرَّجُلِ حَتّٰی یُقِیْمَ ظَہْرَہُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ) [ابوداؤد: ۸۵۵]
“نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک آدمی رکوع و سجدہ میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ کرے۔”
وہ صحابی جنہیں نبی ﷺ نے فرمایا: “ارجع فصل فإنک لم تصلّ” – “لوٹ جا، تم نے نماز نہیں پڑھی” – یہی جلدبازی کا شکار تھے۔ (بخاری ۷۵۷)
نبی ﷺ نے رکوع میں اعتدال، سجدے میں اطمینان اور ارکان میں سکون کی تعلیم دی۔ جو ایسا نہ کرے، اس کی نماز ناقص ہے۔
⑦ سات اعضاء پر مکمل سجدہ نہ کرنا
نبی ﷺ نے فرمایا:
(أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلٰی سَبْعَۃِ أَعْظُمٍ…) [بخاری: ۸۱۲، مسلم: ۴۹۰]
یعنی: “پیشانی (اور ناک)، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے، اور دونوں پاؤں کی انگلیاں۔”
بعض لوگ صرف پیشانی رکھتے ہیں، ناک زمین پر نہیں لگاتے، یا پاؤں کی انگلیاں اوپر رکھ دیتے ہیں — یہ سب غلط ہے، سجدہ ناقص رہتا ہے۔
⑧ سجدے میں بازو زمین پر بچھا دینا
نبی ﷺ نے فرمایا:
(اعْتَدِلُوا فِی السُّجُودِ وَلَا یَبْسُطْ أَحَدُکُمْ ذِرَاعَیْہِ انْبِسَاطَ الْکَلْبِ) [بخاری: ۸۲۲]
“سجدے میں اعتدال کرو اور اپنے بازو زمین پر نہ پھیلاؤ جیسے کتا پھیلائے۔”
⑨ تشہد میں انگلی کا صرف ایک بار اشارہ کرنا
نبی ﷺ پورے تشہد میں انگلی کو حرکت دیتے اور دعا کرتے تھے۔
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(ثُمَّ رَفَعَ إِصْبَعَہُ وَرَأَیْتُہُ یُحَرِّکُہَا یَدْعُوْ بِہَا) [نسائی: ۱۲۶۸]
لہٰذا صرف ایک لمحے کے لیے انگلی اٹھا کر چھوڑ دینا سنت کے خلاف ہے۔
❀ باجماعت نماز میں نمازیوں کی عام غلطیاں ❀
① جماعت کے ساتھ ملنے کے لیے دوڑ کر آنا
کئی لوگ اقامت سن کر جلدی میں دوڑتے ہوئے مسجد میں داخل ہوتے ہیں تاکہ رکوع یا تکبیرِ اولیٰ پا لیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
(إِذَا سَمِعْتُمُ الْإِقَامَۃَ فَامْشُوا إِلَی الصَّلَاۃِ، وَعَلَیْکُم بِالسَّکِیْنَۃِ وَالْوَقَارِ، وَلَا تُسْرِعُوا، فَمَا أَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوا، وَمَا فَاتَکُمْ فَأَتِمُّوا) [بخاری: ۶۳۶]
ترجمہ: “جب تم اقامت سنو تو نماز کی طرف سکون اور وقار کے ساتھ چلو، جلدی نہ کرو۔ جو نماز (امام کے ساتھ) پا لو وہ پڑھ لو، اور جو رہ جائے وہ مکمل کر لو۔”
لہٰذا نماز کے لیے دوڑنا منع ہے، کیونکہ یہ وقار اور خشوع کے خلاف ہے۔
② اقامت ہونے کے بعد سنتیں شروع کر دینا
کچھ لوگ اقامت شروع ہونے کے بعد سنتیں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں یا جاری رکھتے ہیں، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِذَا أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ فَلَا صَلَاۃَ إِلَّا الْمَکْتُوبَۃَ) [مسلم: ۷۱۰]
“جب فرض نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو فرض کے سوا کوئی نماز نہیں۔”
ہاں، اگر فجر کی سنتیں رہ جائیں تو فرض کے بعد پڑھی جا سکتی ہیں، جیسا کہ نبی ﷺ نے قیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
(فَلَا إِذًا) یعنی “کوئی حرج نہیں۔” [ترمذی: ۴۲۲]
③ صفوں کو سیدھا نہ کرنا یا خالی جگہ چھوڑ دینا
یہ بھی عام غلطی ہے کہ نمازی صفوں کو برابر نہیں کرتے یا کندھوں اور قدموں میں خلا چھوڑ دیتے ہیں۔
نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے:
(سَوُّوا صُفُوفَکُمْ فَإِنَّ تَسْوِیَۃَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ) [بخاری: ۷۲۳]
“صفیں سیدھی کرو، کیونکہ صفوں کو برابر کرنا نماز کے قیام کا حصہ ہے۔”
اور فرمایا:
(اسْتَوُوْا وَلَا تَخْتَلِفُوْا فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُکُمْ) [مسلم: ۴۳۲]
“برابر ہو جاؤ، آگے پیچھے نہ ہو، ورنہ تمھارے دلوں میں اختلاف پیدا ہو گا۔”
صحابہ کرام صف میں کندھے سے کندھا، گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنہ ملاتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(کَانَ أَحَدُنَا یُلْزِقُ مَنْکِبَہُ بِمَنْکِبِ صَاحِبِہِ وَقَدَمَہُ بِقَدَمِہِ) [بخاری: ۷۲۵]
اور فرمایا ﷺ:
(مَنْ سَدَّ فُرْجَۃً رَفَعَہُ اللّٰہُ بِہَا دَرَجَۃً وَبَنَی لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ) [الطبرانی، صحیح الترغیب: ۵۰۵]
“جو صف میں خلا پُر کرے، اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کرے گا اور جنت میں اس کے لیے گھر بنائے گا۔”
④ امام سے سبقت لے جانا
کچھ لوگ رکوع، سجدہ یا سلام میں امام سے پہلے حرکت کر لیتے ہیں، حالانکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
(إِنِّی إِمَامُکُمْ، فَلَا تَسْبِقُونِی بِالرُّکُوعِ، وَلَا بِالسُّجُودِ، وَلَا بِالْقِیَامِ، وَلَا بِالْإِنْصِرَافِ) [مسلم: ۴۲۶]
“میں تمھارا امام ہوں، اس لیے رکوع، سجدے، قیام یا سلام میں مجھ سے سبقت نہ لو۔”
مزید فرمایا:
(أَمَا یَخْشَی الَّذِی یَرْفَعُ رَأْسَہُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَنْ یُحَوِّلَ اللّٰہُ رَأْسَہُ رَأْسَ حِمَارٍ) [بخاری: ۶۹۱، مسلم: ۴۲۷]
“جو امام سے پہلے سر اٹھاتا ہے، کیا وہ اس سے نہیں ڈرتا کہ اللہ اس کا سر گدھے کے سر میں بدل دے؟”
نبی ﷺ کے زمانے میں صحابہ رکوع کے بعد تک سر نہ اٹھاتے تھے جب تک نبی ﷺ سجدے میں نہ چلے جاتے۔ [بخاری: ۶۹۰]
⑤ پیاز، لہسن یا بدبو دار چیزیں کھا کر مسجد آنا
نبی ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ أَکَلَ ثَوْمًا أَوْ بَصَلًا فَلْیَعْتَزِلْنَا، أَوْ لِیَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا، وَلْیَقْعُدْ فِی بَیْتِہِ) [بخاری: ۸۵۵، مسلم: ۵۶۴]
“جو شخص لہسن یا پیاز کھائے وہ ہماری مسجد سے دور رہے اور اپنے گھر میں بیٹھے رہے۔”
مزید فرمایا:
(فَإِنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَتَأَذَّی مِمَّا یَتَأَذَّی مِنْہُ بَنُو آدَمَ) [مسلم: ۵۶۴]
“فرشتے بھی انہی چیزوں سے اذیت پاتے ہیں جن سے انسان اذیت پاتا ہے۔”
لہٰذا منہ یا کپڑوں کی بدبو کے ساتھ مسجد میں داخل ہونا سخت منع ہے۔
❀ نماز کے بعد کی عام غلطیاں ❀
① بلند آواز میں دعا و ذکر کرنا
بعض نمازی سلام کے بعد اتنی اونچی آواز سے اذکار یا دعائیں پڑھتے ہیں کہ دوسروں کی نماز یا ذکر میں خلل ہوتا ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
(أَلَا إِنَّ کُلَّکُمْ مُنَاجٍ رَبَّہُ، فَلَا یُؤْذِیَنَّ بَعْضُکُمْ بَعْضًا، وَلَا یَرْفَعَنَّ بَعْضُکُمْ عَلَی بَعْضٍ بِالْقِرَاءَ ۃِ) [ابوداؤد: ۱۳۳۴]
“تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے، لہٰذا ایک دوسرے کو تکلیف نہ دو اور کوئی اپنی قراءت میں دوسروں سے بلند آواز نہ کرے۔”
② موبائل فون کھلا چھوڑ دینا
نماز کے دوران فون بجنے سے مسجد کا سکون ختم ہوتا ہے، بعض اوقات موسیقی یا گانے کی آواز آ جاتی ہے۔
نماز سے پہلے فون بند یا سائلنٹ کر لینا ضروری ہے، اور اگر دورانِ نماز بج جائے تو اسے بند کرنا بہتر ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
"إنَّ المسجدَ لِذِكرِ اللهِ، ولقراءةِ القرآنِ” — مسجد ذکر و قرآن کے لیے ہے، شور و غفلت کے لیے نہیں۔
③ سلام کے فوراً بعد اٹھ جانا
نماز ختم ہوتے ہی فوراً اٹھ کر جانا یا جگہ بدل لینا باعثِ نقصان ہے، کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
(وَالْمَلَائِکَۃُ یُصَلُّونَ عَلَی أَحَدِکُمْ مَا دَامَ فِی مَجْلِسِہِ الَّذِی صَلَّی فِیہِ، یَقُولُونَ: اللّٰہُمَّ ارْحَمْہُ، اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لَہُ، اللّٰہُمَّ تُبْ عَلَیْہِ، مَا لَمْ یُؤْذِ فِیہِ، مَا لَمْ یُحْدِثْ فِیہِ) [بخاری: ۲۱۱۹، مسلم: ۶۴۹]
“جب تک نمازی اپنی جگہ پر بیٹھا رہتا ہے، فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں: اے اللہ! اس پر رحم کر، مغفرت فرما، اور توبہ قبول فرما۔ جب تک وہ کسی کو ایذا نہ دے یا وضو نہ ٹوٹے۔”
🌿 حاصلِ کلام
نماز دینِ اسلام کا ستون اور ایمان کا مظہر ہے۔ اس کی حفاظت صرف وقت پر ادا کرنے سے نہیں بلکہ سنتِ رسول ﷺ کے مطابق پڑھنے سے ہوتی ہے۔ نمازی کو اپنے لباس، مقامِ نماز، حرکات و سکنات، صف بندی اور امام کی اقتداء کے تمام آداب کا لحاظ رکھنا چاہیے۔
🌿 نتیجہ
نماز وہ عبادت ہے جو قبول ہو تو باقی اعمال بھی قبول ہوں گے۔
نبی ﷺ کی سنت کے مطابق نماز ادا کرنا فرض ہے۔
نماز میں خشوع، اطمینان اور وقار لازم ہیں۔
ہر ایسی حرکت یا عادت جو سنت کے خلاف ہو، نماز کو نقصان پہنچاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نمازوں کی اصلاح کرنے، خشوع و خضوع کے ساتھ ان کو ادا کرنے اور نبی کریم ﷺ کے طریقے پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔