نماز میں صفیں درست کرنا فرض ہے

یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب نماز مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

● نماز میں صف بندی کی فضیلت واہمیت

ایک ہی صف میں ہوئے صف بستہ شاہ و گدا

کیا عجب منظر الفت دکھاتی ہے نماز

◈ صفیں درست کرنا فرض ہے:

سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

﴿سووا صفوفكم ، فإن تسوية الصفوف من إقامة الصلاة﴾
صحيح بخاري، كتاب الأذان، باب اقامة الصف من تمام الصلاة، رقم: ۷۲۳۔ صحیح مسلم، كتاب الصلاة، باب تسوية الصفوف و اقامتها ……. رقم : ٩٧٥۔

’’تم اپنی صفوں کو برابر کرو۔ پس تحقیق صفوں کا برابر کرنا نماز کے پورا کرنے میں سے ہے۔‘‘

مذکورہ بالا حدیث میں (إقامة الصلوة) کے الفاظ صحیح بخاری کے ہیں، اور صحیح مسلم وغیرہ میں (من تمام الصلوٰة) ’’نماز کے مکمل ہونے میں سے‘‘ کے الفاظ ہیں۔ ان ہر دو الفاظ سے معلوم ہوا کہ صفوں کا ٹیڑھا ہونا، ان کے درمیان خلال ہونا ، نقصان کا موجب ہے۔ سید نا نعمان بن بشیرؓ فرماتے ہیں :

’’رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں کو اس طرح سیدھا کراتے ، گویا اس کے ساتھ تیر کو سیدھا کیا جائے گا، یہاں تک کہ آپ کو اطمینان ہو گیا کہ ہم نے اس مسئلہ کو آپ سے خوب سمجھ لیا ہے۔ ایک دن آپ مصلے پر تشریف لائے ، اور ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کا سینہ باہر نکلا ہوا ہے۔ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا:

’’اللہ کے بندو! اپنی صفوں کو برابر کر لو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اختلاف ڈال دے گا۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم: ٩٧٩۔

مذکورہ بالا حدیث پاک کی رو سے صفوں کا سیدھا کرنا نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے۔

◈ صفیں درست نہ کرنے کی سزا:

سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

خبر دار با صفیں کج اور ٹیڑھی نہ ہوں کہ صفوں کا ٹیڑھا پن باہمی پھوٹ ، اختلاف قلوب اور باطنی کدورت کا موجب ہے۔ سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

﴿رضوا صفوقكم، وقاربوا بينها، وحاذوا بالأعناق، فوالذي نفسي بيده، إني لأرى الشيطان يدخل من خلل الصف كأنها الحذف .﴾
سنن ابو داؤد ، کتاب الصلاة، باب تسوية الصوف : ۱۹۸/۱، رقم : ٦٦٧- البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کیا ہے۔

’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اپنی صفیں ملی ہوئی رکھو، اور صفوں کو قریب قریب رکھو۔ اور گردنیں برابر رکھو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!یقینا میں شیطان کو صف کے شگافوں میں داخل ہوتا دیکھتا ہوں ، گویا کہ وہ بکری کا بچہ ہے۔‘‘

سیدنا براء بن عازبؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صف کے اندر تشریف لاتے ، ادھر اُدھر چکر لگاتے اور ہمارے سینوں اور مونڈھوں کو برابر کرتے ، اور ارشاد فرماتے تھے:

﴿لا تختلفوا فتختلف قلوبكم .﴾
صحيح سنن ابو داؤد للألباني، تفریع ابواب الصفوف، باب تسوية الصفوف : ١٩٧/١، رقم: ٦٦٤۔

’’اختلاف نہ کرو وگرنہ تمہارے دل بھی مختلف ہو جائیں گے۔‘‘

اور سید نا عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’صفوں کو قائم کرو، اور کندھوں کو برابر کرو، اور خلال مت چھوڑو، اور اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جاؤ ، اور صفوں کے درمیان شیطان کے لیے جگہ نہ چھوڑو، اور جو صف ملائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو ملائے گا، اور جو صف کو کاٹے گا اللہ تعالیٰ بھی اس کو اپنے سے کاٹ دے گا ۔
صحیح سنن ابو داؤد، للألباني، تفريع ابواب الصفوف، باب تسوية الصفوف، رقم: ٦٦٦ – سنن الكبرى للبيهقي: ۱۰۱/۳۔

اس حدیث مبارکہ میں صفیں درست نہ کرنے پر سخت وعید ہے۔ اور صفیں اس صورت میں ہی مضبوط ہوسکتی ہیں۔

◈ صفیں درست کرنے کا طریقہ :

سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

جب نمازی اپنے ساتھ والے نمازی کے کندھے کے ساتھ کندھا اور قدم کے ساتھ قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہو ۔ جیسا کہ سیدنا نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ:

﴿رأيت الرجل منا يلزق كعبه بكعب صاحبه .﴾
صحیح بخارى، كتاب الأذان، باب الزاق المنكب بالمنكب.

’’میں نے دیکھا کہ ہر آدمی اپنے ساتھ کے کندھے کے ساتھ کندھا ملایا کرتا تھا۔‘‘

اور سید نا انسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

﴿أقيموا صفوفكم، فإني أراكم من وراء ظهرى وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه .﴾
صحیح بخاری، کتاب الأذان، رقم: ٧٢٥۔

’’صفیں برابر کرلو۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں ، اور (نبی ﷺ کا یہ فرمان سن کر) ہم میں سے ہر شخص یہ کرتا کہ (صف میں) اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے، اور اپنا قدم اس کے قدم سے ملا دیتا تھا۔‘‘

↰ فائدہ:

ان احادیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں۔

➊ یہ کہ نبی کریم ﷺ صفوں کو سیدھا رکھنے کی بڑی تاکید فرماتے ،

➋ دوسرا یہ کہ صفوں کے درست نہ رکھنے سے آپس میں باہمی محبت کا خاتمہ ہوتا ہے اور اختلافات شروع ہو جاتے ہیں۔ جس کا مظاہرہ مسلمانوں میں کیا جاسکتا ہے کہ مساجد میں مسلمانوں کا معجب حال ہے۔ نمازی ایک ایک فٹ دور کھڑے ہوتے ہیں، اور باہمی قدم مل جانے کو بڑا خطرناک تصور کیا جاتا ہے، اور اس پر ہیز کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں میں سے محبت اور اخوت کا خاتمہ ہو چکا، بیچ ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب مسلمانوں کو دوبارہ آپس میں محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

مسلمانوں میں خون باقی نہیں ہے
محبت کا جنوں باقی نہیں ہے
صفیں کج، دل پریشان، سجدہ ہے ذوق
کہ جذب اندروں باقی نہیں ہے

◈ فرشتوں کی طرح صفوں کو درست کرو:

❀ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَالصَّافَّاتِ صَفًّا﴾

﴿الصافات : ۱﴾

’’قسم ہے قطار در قطار صفیں باندھنے والوں کی ۔‘‘

سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں۔

قتادہ کہتے ہیں کہ فرشتے آسمانوں میں صفیں باندھے ہوئے ہیں ۔
مختصر تفسیر ابن کثیر : ١٣٥/٥ تفسير الطبري : ٤١/٢٣.

امام مسلم نے حذیفہؓ سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’ہمیں لوگوں پر تین چیزوں میں فضیلت دی گئی ہے:

➊ ہماری صفوں کو فرشتوں کی صفوں کی طرح بنا دیا گیا ہے۔

➋ اور ساری زمین کو ہمارے لیے مسجد بنا دیا گیا ہے۔ اور اگر ہم پانی نہ پائیں تو اس کی مٹی کو ہمارے لیے ذریعہ طہارت بنا دیا گیا ہے ۔
صحیح مسلم، کتاب و باب المساجد و مواضع الصلاة ، رقم: ٥٢٢.

سیدنا جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تم اس طرح صفیں کیوں نہیں بناتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں بناتے ہیں؟ ہم نے عرض کیا:

فرشتے اپنے رب کے پاس کس طرح صفیں بناتے ہیں؟

❀ آپ ﷺ نے فرمایا:

وہ پہلے اگلی صفوں کو پورا کرتے ہیں اور وہ صف کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح بناتے ہیں ۔
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم: ٤٣٠ سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة ، رقم : ٦٦١ – سنن النسائي ، كتاب الإمامة ، رقم: ۸۱۷ سنن ابن ماجه ، كتاب إقامة الصلوات، رقم: ٩٩٢.

◈ صف بندی کے متعلق امام ابو حنیفہؒ کا موقف :

امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ فرماتے ہیں:

﴿عن إبراهيم أنه كان يقول: سروا صفوفكم، وسروا مناكبكم ، تراصوا أو ليتخللنكم الشيطان كأولاد الحذف الح . قال محمد: وبه نأخذ ، لا ينبغي أن يترك الصف وفيه الخلل حتى يسروا ، وهو قول أبى حنيفة رحمه الله تعالى .﴾
کتاب الآثار، باب اقامة الصفوف ، ص : ٢٦-۲۷ – طبع مکتبه امدادیه، ملتان .

❀ ابراہیم نخعی فرماتے ہیں:

صفیں اور شانہ برابر کرو، اور گچ کرو، ایسا نہ ہو کہ شیطان بکری کے بچہ کی طرح تمہارے درمیان داخل ہو جائے۔ امام محمدؒ کہتے ہیں:

ہم بھی اسی کو لیتے ہیں کہ صف میں خلل چھوڑ دینا لائق نہیں۔ جب تک ان کو درست نہ کر لیا جائے ۔ اور امام ابو حنیفہؒ کا بھی یہی مذہب ہے۔

◈ صفوں کی ترتیب اور مسائل :

سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’پہلے اول صف کو پورا کرو، پھر اس کو جو پہلے کے نزدیک ہے ۔‘‘
سنن ابوداؤد ، ابواب الصفوف ، رقم : ٦٧١ – صحيح ابن خزیمه ، رقم: ١٥۶٧،١٥۴۶ – صحيح ابن حبان، رقم: ۳۹۰۔ ابن خزیمہ، ابن حبان اور علامہ البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

امام کے پیچھے وہ مرد کھڑے ہوں جو دینی اعتبار سے زیادہ عقل مند ہیں، تا کہ وہ بھولنے پر یاد کرا سکیں اور کوئی مشکل پیش آنے پر امام بن سکیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’میرے قریب وہ لوگ کھڑے ہوں جو سب سے زیادہ سمجھ دار اور عقل مند ہیں، پھر وہ کھڑے ہوں جو ان کے قریب ہیں ، پھر وہ جو ان کے قریب ہیں ۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب الصلوة ، رقم : ٤٣٢۔

اگر عورتوں کے لیے الگ انتظام نہ ہو تو ، مردوں اور بچوں کے بعد عورتوں کی صف بنائی جائے گی۔
صحيح مسلم ، کتاب الفتن ، رقم : ٢٩٤٢۔

یاد رہے کہ اگر بچے مردوں کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں تو یہ بھی جائز ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ سید نا ابن عباسؓ نے تنہا ہونے کی وجہ سے نبی کریم ﷺ کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی پتا چلا کہ دو آدمیوں کی جماعت کے وقت امام بائیں طرف ، اور مقتدی اس کے دائیں طرف کھڑا ہوگا ۔
صحیح بخاری، کتاب الأذان، رقم : ٩٩٧۔

❀ سیدنا انسؓ فرماتے ہیں :

’’میں نے اور ایک یتیم لڑکے نے ہمارے گھر میں نبی کریم ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور میری والدہ ام سلیمؓ ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں تھی ۔‘‘
صحیح بخاري، كتاب الأذان ، رقم: ۷۲۷۔ صحیح مسلم، رقم: ٦٥٨۔

ستونوں کے درمیان صفیں بنانے سے اجتناب کیا جائے ۔ سید نا انسؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے دور میں ستونوں کے درمیان صفیں بنانے سے بچتے تھے ۔
سنن ابوداؤد، ابواب الصفوف، رقم : ۶۷۳ – محدث البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

◈ پہلی صف میں کھڑے ہونے کی فضیلت:

سیدنا براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں میں ایک جانب سے دوسری جانب چلتے اور ہمارے سینوں اور کندھوں کو چھوتے جاتے اور فرماتے تھے:

﴿لا تختلفوا فتختلف قلوبكم .﴾

’’صف میں اختلاف نہ کرو ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔‘‘

اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے:

﴿إن الله عزوجل وملائكته يصلون على الصفوف الأول﴾
سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة ، رقم : ٦٦٤ – محدث البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

’’بلاشبہ اللہ عزوجل پہلی صفوں والوں پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے اور اس کے فرشتے ان لوگوں کے لیے دُعائیں کرتے ہیں۔‘‘

◈ صف کے داہنی جانب کھڑے ہونے کی فضیلت :

سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

﴿إن الله وملائكته يصلون على ميامن الصفوف .﴾
سنن ابن ماجه ، كتاب إقامة الصلاة ، رقم: ١٠٠٥ – صحيح ابن حبان، رقم: ۳۹۳- فتح الباری : ۲۱۳/۲۔ ابن حبان نے اسے ’’صحیح‘‘ اور ابن حجر نے اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔

’’بلا شک و شبہ اللہ تعالیٰ صفوں کے داہنی طرف کھڑے ہونے والے لوگوں پر رحمت نازل کرتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں ۔‘‘

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء