نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم
سوال:
نماز کے دوران سورہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے متعلق علماء کے درمیان مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ ان آراء کی تفصیل درج ذیل ہے:
مختلف اقوال علمائے کرام
➊ سورہ فاتحہ کا پڑھنا کسی کے لیے بھی واجب نہیں
◈ امام، مقتدی یا منفرد سب کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنا واجب نہیں ہے، چاہے نماز سری ہو یا جہری۔
◈ واجب صرف یہ ہے کہ قرآن کا جو حصہ آسانی سے یاد ہو وہ پڑھ لیا جائے۔
قرآن:
﴿فَاقرَءوا ما تَيَسَّرَ مِنَ القُرءانِ﴾ سورة المزمل: 20
’’آسانی کے ساتھ جتنا قرآن تمہیں یاد ہو اس کی تلاوت کرو۔‘‘
حدیث:
«اِقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ»
(صحیح البخاری، الأذان، باب وجوب القراءة للإمام والمأموم، حدیث: 757)
(صحیح مسلم، الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة فی کل رکعة، حدیث: 397)
➋ سورہ فاتحہ کا پڑھنا سب کے لیے نماز کا رکن ہے
◈ امام، مقتدی، منفرد، سری و جہری نماز، ابتدا سے جماعت میں شامل ہونے والے یا کچھ نماز رہ جانے والے، سب کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنا نماز کا رکن ہے۔
➌ سورہ فاتحہ امام اور منفرد کے لیے رکن، مقتدی کے لیے واجب نہیں
◈ امام اور منفرد کے لیے سورہ فاتحہ کا پڑھنا رکن ہے۔
◈ مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنا مطلقاً واجب نہیں، چاہے نماز سری ہو یا جہری۔
➍ مقتدی کے لیے صرف سری نماز میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا رکن
◈ امام اور منفرد کے لیے ہر نماز میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا رکن ہے۔
◈ مقتدی کے لیے سری نماز میں تو رکن ہے، مگر جہری نماز میں نہیں۔
➎ راجح قول
مصنف کے نزدیک راجح (زیادہ صحیح) بات یہ ہے کہ:
◈ سورہ فاتحہ پڑھنا امام، مقتدی اور منفرد، سب کے لیے سری و جہری نماز میں رکن ہے۔
◈ البتہ اگر کوئی شخص امام کو حالت رکوع میں پائے، تو اس کے لیے سورہ فاتحہ ساقط ہو جاتی ہے۔
حدیث:
«لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ»
(صحیح البخاری، الأذان، باب وجوب القراءة، حدیث: 756)
(صحیح مسلم، الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة، حدیث: 394)
«مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيْهَا بِأُمِّ الْقُرْاٰنِ فَهِیَ خِدَاجٌ»
(صحیح مسلم، الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة، حدیث: 395)
’’خداج‘‘ کا مطلب ناقص یا فاسد نماز ہوتا ہے، اور یہ حکم عام ہے۔
➏ حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی وضاحت
نبی ﷺ نے نماز فجر کے بعد صحابہ سے فرمایا:
«لَعَلَّکُمْ تَقْرَئُونَ خَلْفَ إِمَامِکُمْ»
ہم نے عرض کیا: ہاں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
«لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأم القرآنِ، فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا»
(سنن ابی داؤد، الصلاة، باب من ترک القراءة فی صلاته، حدیث: 823)
(جامع الترمذی، الصلاة، باب ماجاء فی القراءة خلف الامام، حدیث: 311)
(مسند احمد: 5/316)
➐ مدرک رکوع سے سورہ فاتحہ ساقط ہونے کی دلیل
حدیث ابی بکرہ رضی اللہ عنہ:
انہوں نے نبی ﷺ کو رکوع کی حالت میں پایا اور جلدی سے رکوع میں چلے گئے۔ نبی ﷺ نے نماز کے بعد فرمایا:
«زَادَکَ اللّٰهُ حِرْصًا وَلاَ تَعُدْ»
(صحیح البخاری، الأذان، باب إذا رکع دون الصف، حدیث: 783)
◈ نبی ﷺ نے انہیں اس رکعت کے دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا، حالانکہ اگر سورہ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہوتا تو ضرور اس کا حکم دیتے جیسا کہ دیگر مواقع پر کیا۔
➑ عقلی دلیل
◈ اگر قیام نہ پایا، جو سورہ فاتحہ پڑھنے کا مقام ہے، تو قراءت ساقط ہو جاتی ہے، جیسے کہ:
▪ ہاتھ کٹ جانے کی صورت میں اس کا وضو ساقط ہو جاتا ہے۔
◈ اسی طرح امام کو رکوع میں پانے والے سے قیام فوت ہو گیا، اس لیے سورہ فاتحہ بھی ساقط ہو گئی۔
➒ اگر حدیث عبادہ نہ ہوتی…
اگر حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نہ ہوتی، تو راجح قول یہ ہوتا کہ:
◈ جہری نماز میں مقتدی پر سورہ فاتحہ پڑھنا واجب نہیں کیونکہ سننے والا اجر و ثواب میں پڑھنے والے کی طرح ہے۔
قرآن:
﴿قَد أُجيبَت دَعوَتُكُما﴾ سورة يونس: 89
’’تمہاری (دونوں کی) دعا قبول کر لی گئی۔‘‘
حالانکہ دعا صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کی تھی، جیسا کہ:
﴿وَقالَ موسى رَبَّنا إِنَّكَ ءاتَيتَ فِرعَونَ﴾ سورة يونس: 88
◈ اللہ تعالیٰ نے ’’دعوتکما‘‘ (تم دونوں کی دعا) فرمایا، حالانکہ حضرت ہارون علیہ السلام نے صرف آمین کہی تھی۔
➓ حدیث: امام کی قراءت مقتدی کے لیے کافی ہے؟
حدیث:
«مَنْ کَانَ لَهُ اِمَامٌ فَقِرَاءَ ةُ الْاِمَامِ لَهُ قِرَاءَ ةٌ»
(مسند احمد: 3/339)
(سنن ابن ماجہ، اقامة الصلاة، باب اذا قرأ فانصتوا، حدیث: 850)
◈ یہ حدیث مرسل ہے اور ضعیف ہے، جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر کے مقدمے میں ذکر کیا ہے۔
◈ پھر اس کے اطلاق کو ماننے والے بھی سری نماز میں مقتدی پر قراءت کو واجب مانتے ہیں، جو کہ اس کے اطلاق کی نفی ہے۔
اگر امام سکوت نہ کرے؟
◈ مقتدی امام کے ساتھ ساتھ سورہ فاتحہ پڑھ سکتا ہے، جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیا کرتے تھے۔
حدیث:
«لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأم القرآنِ، فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا»
(سنن ابی داؤد، حدیث: 823)
(جامع الترمذی، حدیث: 311)
(مسند احمد: 5/316)
حاشیہ
(1) فاضل مفتی رحمہ اللہ کا یہ قول درست ہے کہ سورہ فاتحہ کا پڑھنا سب کے لیے نماز میں رکن ہے۔
لیکن انہوں نے مدرک رکوع سے اس کی رکنیت ساقط کی ہے، حالانکہ جن احادیث سے وہ سب پر رکنیت کا اثبات کر رہے ہیں، وہ مدرک رکوع پر بھی لاگو ہوتی ہیں۔
◈ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث سے استدلال درست نہیں، کیونکہ:
▪ نبی ﷺ نے صرف «لَا تَعُدْ» فرمایا تھا، جس کے کئی احتمالات ہیں:
➊ دوڑ کر نہ آنا
➋ رکعت شمار نہ کرنا (لَا تَعُدَّ)
➌ نماز دوبارہ نہ پڑھنا (لَا تُعِدْ)
◈ جب ایک سے زائد احتمالات ہوں، تو ان میں سے کسی ایک پر استدلال درست نہیں ہوتا۔
قاعدہ:
اِذَا جَائَ الْاِحْتِمَالُ بَطَلَ الْاِسْتِدْلَالُ
لہٰذا مدرک رکوع کی رکعت شمار کرنا درست نہیں کیونکہ اس میں قیام اور قراءت فاتحہ دونوں فوت ہو گئے، اور جب نماز کا ایک رکن بھی فوت ہو جائے تو وہ رکعت شمار نہیں ہوتی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب