نماز میں سلام کا جواب دینے کا حکم ┇ اشارے سے جواب دینے کی دلیل
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج 1، ص 364

سوال

اگر دو آدمی اکٹھے اپنی اپنی نماز پڑھ رہے ہوں اور ان میں سے ایک آدمی پہلے سلام پھیر کر فارغ ہوجائے، پھر مسجد سے نکلتے وقت وہ "السلام علیکم” کہے، تو کیا دوسرا آدمی جو اب بھی نماز کی حالت میں ہے، اس کے سلام کا جواب دے سکتا ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلے میں نماز پڑھنے والا شخص سلام کا جواب دے سکتا ہے، لیکن الفاظ کے ساتھ نہیں بلکہ ہاتھ کے اشارے سے۔ کیونکہ نماز کے دوران کلام منع ہے، جبکہ "وعلیکم السلام” کہنا کلام کے زمرے میں آتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

قلت لبلال کیف رأیت النبیﷺ یردہ علیھم حین یسلمون علیه وھو یصلی؟ قال یقول ھکذا وبسط کفه، وفی روایة قال یبیر بیدہ۔
(رواہ الخمسة إلا ان فی روایة النسائی وابن ماجة صھیبا مکان بلال۔ نیل الاوطار: ج۲ ص۳۳۱، وسبل السلام: ج۱ ص۱۴۰)

ترجمہ:
’’میں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: نبی کریم ﷺ کو جب صحابہ کرام نماز کے دوران سلام کرتے تھے تو آپ نے کیسے جواب دیتے دیکھا؟ تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ ایسے کہتے اور اپنی ہتھیلی کو پھیلا دیتے تھے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ہاتھ کے اشارے سے جواب دیتے، زبان سے "وعلیکم السلام” نہ کہتے۔‘‘

دیگر روایات

امام شوکانی وضاحت کرتے ہیں کہ اس مضمون کی روایات صرف حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے ہی نہیں بلکہ:

✿ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا
✿ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
✿ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ
✿ حضرت انس رضی اللہ عنہ
✿ حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ
✿ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ
✿ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ
✿ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ
✿ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ
✿ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا

سے بھی مروی ہیں۔

صاحب متقی الاخبار فرماتے ہیں:

وقد صحت الإشارة عن رسول اللہﷺ من حدیث عائشة وجابر ومن روایة أم سلمة۔

یعنی: ’’حضرت ام سلمہ، حضرت عائشہ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہم کی روایات کے مطابق رسول اللہ ﷺ سے نماز میں اشارہ کرنا صحیح طور پر ثابت ہے۔‘‘

امام شوکانی کی وضاحت

امام شوکانی فرماتے ہیں:

والأحادیث المذکورة تدل علی أنه لا باس أن یسلم غیر المصلي علی المصلي لتقریرهﷺ علی ذلک وجواز الرد بالاشارة۔
(نیل الاوطار: باب الإشارة فی الصلاة لرد السلام أو حاجة تعرض، ج۲ ص۳۳۱، ۳۳۲)

ترجمہ:
’’یہ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ غیر نمازی کے لیے جائز ہے کہ وہ نمازی کو سلام کرے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو منع نہیں فرمایا۔ اگر سلام کرنا ناجائز ہوتا تو آپ ﷺ لازماً منع فرما دیتے۔‘‘

خلاصہ

ان صحیح و حسن احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ:

نمازی کو سلام کیا جاسکتا ہے۔
نمازی سلام کا جواب الفاظ کے ساتھ نہیں دے گا بلکہ ہاتھ کے اشارے سے دے گا۔

بعض اہل علم اس عمل کو منع سمجھتے ہیں اور وہ بھی کچھ احادیث ذکر کرتے ہیں، لیکن امام شوکانی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ ممانعت الفاظ کے ساتھ جواب دینے کے بارے میں ہے، اشارے کی نفی مراد نہیں۔

جو تفصیل چاہے وہ نیل الاوطار کی طرف رجوع کرے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے