دو سجدوں کے درمیان شہادت کی انگلی کو حرکت دینے کا حکم
سوال:
نماز کے دوران دو سجدوں کے درمیان شہادت کی انگلی کو حرکت دینے کے بارے میں کیا کوئی صحیح حدیث موجود ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جی ہاں، اس بارے میں ایک صحیح حدیث موجود ہے جو صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب صفة الجلوس فی الصلاة، حدیث: 580، حدیث نمبر: 115 میں حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو انگشت شہادت کے ذریعہ اشارہ فرماتے تھے۔‘‘
عام اور خاص روایت کا فرق
◈ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ:
"جب آپ تشہد میں بیٹھتے۔”
◈ پہلی روایت عمومی نوعیت کی ہے، جبکہ دوسری روایت ایک مخصوص حالت (تشہد) سے متعلق ہے۔
◈ اصولی قاعدے کے مطابق اگر کسی عام حکم کے ساتھ ایک خاص حالت کا ذکر ہو اور وہ عام حکم کے موافق ہو، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ باقی حالات خارج ہو گئے ہوں۔
مثال کے طور پر:
اگر ایک شخص دوسرے سے کہے:
"طلبہ کی عزت کرو”
اور پھر کہے:
"زید کی عزت کرو”
(حالانکہ زید بھی طلبہ میں شامل ہے)
تو یہ اس بات کی تخصیص نہیں ہے کہ دوسرے طلبہ کی عزت نہ کی جائے۔
◈ علمائے اصول نے اس بات کو وضاحت سے بیان کیا ہے، اور علامہ شنقیطی رحمہ اللہ نے بھی اسے "اضواء البیان” میں ذکر فرمایا ہے۔
البتہ:
اگر کوئی یہ کہے:
"طلبہ کی عزت کرو، مگر اس کی عزت نہ کرو جو سبق میں سو رہا ہو”
تو یہ اسلوبِ کلام تخصیص کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ یہ عمومی حکم سے ہٹ کر ایک مخصوص استثنا کو بیان کرتا ہے۔
دو سجدوں کے درمیان شہادت کی انگلی سے اشارہ کی مخصوص حدیث
اس مسئلے میں ایک اور حدیث بھی ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی "مسند” میں ایسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے جسے:
◈ صاحب الفتح الربانی نے حسن قرار دیا ہے،
◈ اور زاد المعاد کے بعض حاشیہ نگاروں نے صحیح کہا ہے۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
«اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ كَانَ اِذَا جَلَسَ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ قَبَضَ اَصَابِعَهُ وَاَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ»
(مسند احمد: ۴/ ۳۱۸ بمعناه و تمام المنة: ۲۱۴)
ترجمہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھتے تو اپنی انگلیوں کو بند کر لیتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے۔”
جو شہادت کی انگلی کو حرکت دینے سے انکار کرے، اس سے سوال کیا جائے:
اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ نماز پڑھنے والا دو سجدوں کے درمیان شہادت کی انگلی کو حرکت نہ دے، تو ہم اس سے پوچھیں گے کہ:
"وہ دائیں ہاتھ کے ساتھ کیا کرے؟”
◈ اگر وہ یہ کہے کہ دایاں ہاتھ ران پر پھیلا دیا جائے، تو ہم اس سے اس عمل کی دلیل مانگیں گے۔
◈ کیونکہ کسی صحیح حدیث میں یہ بات ثابت نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ کو ران پر پھیلاتے تھے۔
◈ اگر یہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ضرور بیان کرتے، جیسا کہ انہوں نے یہ وضاحت کی کہ آپ بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر پھیلا لیا کرتے تھے۔
نتیجہ:
اس مسئلے کے بارے میں تین اہم دلائل پیش کیے گئے ہیں جو درج بالا تفصیل میں شامل ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب