جلسۂ استراحت کا شرعی حکم
سوال:
جلسۂ استراحت کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
علمائے کرام نے جلسۂ استراحت (نماز میں دو سجدوں کے بعد کھڑے ہونے سے پہلے کچھ لمحے کے لیے بیٹھنے) کے متعلق تین مختلف اقوال بیان کیے ہیں:
علماء کے اقوال
➊ مطلقاً مستحب ہے۔
➋ مطلقاً مستحب نہیں ہے۔
➌ جس کے لیے سیدھا کھڑا ہونا مشکل ہو، وہ بیٹھ جائے، اور جس کے لیے مشکل نہ ہو، وہ نہ بیٹھے۔
معتدل موقف اور اس کی بنیاد
کتاب المغنی (جلد: ۱، صفحہ: ۵۲۹، مطبوعہ دار المنار) میں تیسرے قول کو معتدل اور تمام احادیث کے مطابق قرار دیا گیا ہے۔ اس قول کے مطابق:
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ فرض نماز میں سنت یہ ہے کہ جب کوئی شخص پہلی دو رکعتوں کے بعد کھڑا ہو تو زمین پر اپنے دونوں ہاتھ نہ رکھے، سوائے اس کے کہ وہ بہت بوڑھا ہو اور بغیر سہارے کے کھڑا نہ ہو سکے۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی: جلد ۲، صفحہ ۱۳۶)
نبی کریم ﷺ کا طرز عمل
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آتا ہے:
’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا سجدہ مکمل کیا تو آپ سیدھے بیٹھ گئے اور پھر زمین پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوئے۔‘‘
(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب کیف یعتمد علی الارض اذا قام… حدیث: ۸۲۴)
یہ روایت اس وقت کی طرف اشارہ کرتی ہے جب نبی کریم ﷺ کو بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے سیدھا کھڑا ہونا دشوار ہوتا تھا، جیسا کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
«اِنِّیْ قَدْ بَدَّنْت فلا تسبقونی بالرکوع ولا بالسجودُ»
(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامة الصلوات، باب النہی ان يسبق الامام، حدیث: ۹۶۳، نیز الارواء، حدیث: ۵۰۹)
’’رکوع و سجدہ میں مجھ سے آگے نہ بڑھو… بے شک میں بڑی عمر کو پہنچ گیا ہوں۔‘‘
صاحبِ فتویٰ کا رجحان
اس فتویٰ نویس کا رجحان بھی اسی تیسرے قول کی طرف ہے کیونکہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں اس وقت آئے تھے جب غزوۂ تبوک کی تیاری ہو رہی تھی، یعنی اس وقت آپ ﷺ عمر کے آخری حصے میں داخل ہو چکے تھے۔
دیگر روایات سے استدلال
◈ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
«لَمَّا بَدَّنَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَثَقُلَ کَانَ أَکْثَرُ صَلَا تِهِ جَالِسًا»
(صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب جواز النافلة قائما وقاعدا، حدیث: ۷۳۲ (۱۱۷))
’’جب رسول اللہ ﷺ کی عمر بڑھ گئی اور جسم بھاری ہو گیا تو آپ زیادہ تر بیٹھ کر نماز ادا کرتے تھے۔‘‘
◈ عبداللہ بن شقیق نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا:
«نَعَمْ بَعْدَ مَا حَطَمَهُ النَّاسُ»
(صحیح مسلم، حدیث: ۷۳۲ (۱۱۵))
’’ہاں، جب لوگوں کا ہجوم آپ ﷺ پر بہت زیادہ ہو گیا (یعنی عمر بڑھنے کی وجہ سے) تو آپ بیٹھ کر نماز ادا کرنے لگے۔‘‘
◈ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی روایت:
«مَا رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی فِیْ سُبْحَتِهِ قَاعِدًا حَتَّی کَانَ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِعَامٍ فَکَانَ يُصَلِّی فِی سُبْحَتِهِ قَاعِدًا»
(صحیح مسلم، حدیث: ۷۳۳)
’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو نفل نماز بیٹھ کر پڑھتے نہیں دیکھا، سوائے وفات سے ایک سال قبل کے۔ اس وقت آپ نفل نماز بیٹھ کر ادا کرتے تھے۔‘‘
ایک اور روایت میں الفاظ ہیں: ’’وفات سے ایک سال یا دو سال قبل۔‘‘
یہ تمام روایات صحیح مسلم میں موجود ہیں، جو اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ زمین پر سہارا لینا بڑھاپے یا کمزوری کی حالت میں ہی ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ کی حدیث
«اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی بِهِمُ الظُّهْرَ فَقَامَ فِی الرَّکْعَتَيْنِ وِ لَمْ يَجْلِسْ»
(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب من لم ير التشهد الاول واجبا، حدیث: ۸۲۹، نیز صحیح مسلم، کتاب المساجد، حدیث: ۵۷۰)
’’نبی کریم ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی اور پہلی دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہو گئے اور نہیں بیٹھے۔‘‘
یہاں وَلَمْ يَجْلِسْ کے الفاظ عام ہیں اور جلسۂ استراحت کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا، مگر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہاں جس بیٹھنے کی نفی کی گئی ہے، وہ تشہد کی نشست ہے، نہ کہ مطلقاً ہر قسم کا بیٹھنا۔
جلسۂ استراحت کے وجوب پر مزید دلیل
یہ کہنا کہ نبی کریم ﷺ کا جلسۂ استراحت صرف بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے تھا کیونکہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اس وقت حاضر ہوئے جب نبی ﷺ عمر رسیدہ ہو چکے تھے، اتنا قوی استدلال نہیں۔ کیونکہ حدیثِ مسیءُ الصلاۃ (جس میں غلط طریقے سے نماز پڑھنے والے کو اصلاح دی گئی) میں بھی جلسۂ استراحت کی تاکید موجود ہے۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
(صحیح بخاری، کتاب الاستئذان، باب من رد فقال علیک السلام، حدیث: ۶۲۵۱)
لہٰذا جلسۂ استراحت کو غیر ضروری قرار دینا درست نہیں۔ نماز کے مسنون طریقے میں جلسۂ استراحت شامل ہے اور ہر نمازی کو بغیر کسی تفریق کے اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب