سوال:
نماز کے تشہد میں انگلی کھڑی رکھنے یا حرکت دینے کے حوالے سے صحیح موقف کیا ہے؟
جواب از فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ ، فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
یہ مسئلہ اختلافی ہے اور دونوں جانب مستند دلائل موجود ہیں۔ مختلف مکاتبِ فکر کے علماء نے اس پر تفصیلی گفتگو کی ہے، لیکن جس رائے پر اکثر اہل علم کا اتفاق ہے، وہ درج ذیل ہے:
1. انگلی کو کھڑا رکھنا:
صحیح اور راجح رائے یہی ہے کہ تشہد کے آغاز سے اختتام تک انگلی کھڑی رکھی جائے، مگر حرکت نہ دی جائے۔
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ إِذَا دَعَا وَلَا يُحَرِّكُهَا۔
[سنن أبي داود: 989]
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کرتے تو اپنی انگلی سے اشارہ کرتے اور اسے حرکت نہیں دیتے تھے۔‘‘
2. حرکت دینے کی روایت:
بعض اہل علم حرکت دینے والی روایات کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کے نزدیک انگلی کو دعائیہ کلمات پر حرکت دینا بھی جائز ہے۔
تاہم حرکت دینے والی روایت کو کئی اہل علم ضعیف قرار دیتے ہیں، جیسا کہ بعض محدثین اور فقہاء نے وضاحت کی ہے۔
3. تطبیق اور درمیانی حل:
امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں ان دونوں اقوال کے درمیان تطبیق دی ہے کہ نبی کریم ﷺ انگلی کا اشارہ کرتے مگر بار بار حرکت نہیں دیتے تھے۔
اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ تشہد کے آغاز میں انگلی اٹھائی جائے اور اختتام تک اشارے کی حالت میں کھڑی رہے۔
4. علماء کی آراء:
- شیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ اور شیخ عمر فاروق السعیدی نے بھی یہی رائے دی ہے کہ تشہد کے آغاز سے انگلی کو اٹھا کر اختتام تک اشارے کی حالت میں رکھا جائے، حرکت نہ دی جائے۔
- شیخ خضر حیات حفظہ اللہ نے بھی عربی کتاب "البشارة في شذوذ تحريك الإصبع و ثبوت الإشارة” کا حوالہ دیا ہے، جس میں حرکت دینے کو غیر راجح قرار دیا گیا ہے۔
خلاصہ:
- راجح اور افضل رائے یہی ہے کہ تشہد کے آغاز سے اختتام تک انگلی کھڑی رکھی جائے اور اسے حرکت نہ دی جائے۔
- جو لوگ حرکت دینے کے قائل ہیں، انہیں بھی چاہیے کہ حرکت میں مبالغہ یا غیر ضروری تکرار سے بچیں۔