نماز میں بسم اللہ بلند آواز سے پڑھنے کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

نماز میں بسم اللہ جہری پڑھنے کا حکم

سوال:

نماز کے دوران "بسم اللہ” کو بلند آواز (جہری) سے پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز میں "بسم اللہ” کو بلند آواز سے پڑھنے کے متعلق راجح (زیادہ صحیح) بات یہی ہے کہ اسے جہری (بلند آواز سے) نہیں پڑھنا چاہیے۔ سنت یہ ہے کہ اسے آہستہ یعنی سراً پڑھا جائے، کیونکہ:

◈ "بسم اللہ” سورۃ الفاتحہ کی آیت نہیں ہے۔ [1]

البتہ، اگر کبھی کبھار "بسم اللہ” کو جہری پڑھ لیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بلکہ بعض اہلِ علم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کبھی کبھار جہری پڑھنا مستحب ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھار "بسم اللہ” جہراً پڑھی ہے۔

تاہم، جو روایت صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم "بسم اللہ” کو جہراً نہیں پڑھتے تھے۔

لہٰذا، زیادہ بہتر یہی ہے کہ "بسم اللہ” کو سراً ہی پڑھا جائے۔

البتہ، اگر کسی مخصوص موقع پر ان لوگوں کی دِلجوئی اور تالیفِ قلب کے لیے "بسم اللہ” کو جہراً پڑھ لیا جائے جن کا مذہب اسے جہراً پڑھنے کا ہے، تو امید ہے کہ اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہو گا۔

حوالہ

[1]
"بسم اللہ” کے سورۃ الفاتحہ کی آیت ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہے۔
راجح (قوی تر) بات یہ ہے کہ یہ سورۃ الفاتحہ کی آیت معلوم ہوتی ہے۔
(دیکھیے: السلسلۃ الصحیحۃ، حدیث: 1183)
تاہم، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اسے نماز میں جہراً پڑھا جائے۔
کیونکہ اس کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی طریقے سے ہے کہ آپ نے اسے جہراً پڑھا یا سراً؟
اور زیادہ تر احادیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم "بسم اللہ” کو سری (آہستہ) آواز میں پڑھا کرتے تھے۔
اسی وجہ سے سراً پڑھنا ہی راجح ہو گا۔
(ص، ی)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے