نماز میں بدن، لباس اور جگہ کی پاکیزگی کا بیان صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس مکتبہ دارالاندلس کی جانب سے شائع کردہ کتاب صحیح نماز نبویﷺ سے ماخوذ ہے جو الشیخ عبدالرحمٰن عزیز کی تالیف ہے۔

ظاہری طہارت کا بیان :

نماز کے لیے بدن، کپڑا اور جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے، تفصیل حسب ذیل ہے۔

بدن کی طہارت:

❀ چند چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے لگنے سے جسم ناپاک ہو جاتا ہے، یعنی انسان کا پیشاب و پاخانہ، منی، مدی، ودی، حیض، نفاس اور استحاضہ کا خون، لیکوریا کا پانی اور کتے کا لعاب وغیرہ۔
❀ حلال جانوروں کا پیشاب یا گوبر لگنے سے بدن ناپاک نہیں ہوتا، جیسا کہ حدیث میں ہے: ”قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ میں آ کر مسلمان ہوئے، ان کے پیٹ پھول گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اونٹوں کا دودھ اور ان کا پیشاب ملا کر پینے کا حکم دیا۔“
[بخاری، كتاب الوضوء، باب أبوال الإبل والدواب والغنم و مرابضها: 233]
❀ شرم گاہ کے علاوہ جسم سے نکلنے والا خون ناپاک نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگوں میں اسی حالت میں نمازیں ادا کرتے تھے۔

لباس کی طہارت:

❀ مسلمان پر لباس کو پاک رکھنا فرض ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ
(سورۃ المدثر: 4، 5)
”اپنے کپڑے پاک رکھ اور پلیدگی سے دور رہ۔“
نماز کے لیے پاک لباس شرط ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أصاب ثوب إحداكن الدم من الحيضة فلتقرصه ثم لتنضحه بماء ثم لتصل فيه
”جب تم میں سے کسی کے کپڑے کو حیض کا خون لگ جائے تو وہ اسے کھرچ دے اور پانی سے دھو لے، پھر اس میں نماز پڑھے۔“
[بخاری، كتاب الحيض، باب غسل دم المحيض: 307 – مسلم: 291]
❀ جوتا پاک ہو تو اس میں نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا جاء أحدكم إلى المسجد فلينظر فإن رأى فى نعليه قذرا أو أذى فليمسحه وليصل فيهما
”جب تم میں سے کوئی شخص مسجد کی طرف آئے تو اسے اپنا جوتا دیکھ لینا چاہیے، اگر اس میں گندگی یا تکلیف دہ چیز لگی ہو تو اسے زمین پر رگڑے اور پھر اس میں نماز پڑھ لے۔“
[ابو داود، كتاب الصلاة، باب الصلاة في النعل: 650 – صحیح]
❀ جن چیزوں کے لگنے سے بدن ناپاک ہو جاتا ہے، ان سے لباس بھی ناپاک ہو جاتا ہے۔
❀ مردوں کے لیے ریشم کا لباس حرام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حرم لباس الحرير والذهب على ذكور أمتي وأحل لإناثهم
”ریشم کا لباس اور سونا پہنا میری امت کے مردوں پر حرام اور عورتوں پر حلال ہے۔“
[ترمذی، كتاب اللباس، باب ما جاء في الحرير والذهب للرجال: 1720 – نسائی: 5149، 5147 – صحیح]

لباس یا بدن پر نجاست کا علم اگر دوران نماز میں ہو تو؟

❀ اگر نجاست جوتی وغیرہ کو لگی ہے تو جوتی کو اتار دیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ جوتا پہن کر نماز پڑھا رہے تھے کہ نماز کے دوران میں جوتا اتار دیا، پھر وجہ بتاتے ہوئے فرمایا:
إن جبريل عليه السلام أتاني فأخبرني أن فيهما قذرا
”میرے پاس جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور انھوں نے مجھے بتایا کہ میرے جوتے میں گندگی لگی ہے۔“
[ابو داود، كتاب الصلاة، باب الصلاة في النعل: 650 – صحیح]
❀ اگر گندگی لباس کو لگی ہو تو نماز میں لباس اتارتے ہوئے اگر کندھے سے گھٹنے تک کا حصہ ننگا ہو گیا تو نماز ٹوٹ جائے گی۔ (تفصیل لباس کے باب میں ملاحظہ فرمائیں)
❀ اگر بدن کو ایسی نجاست لگی ہو جسے صرف اتارنے سے کپڑا اور بدن پاک نہیں ہوگا تو نماز توڑ کر اسے پاک کرے، کیونکہ بدن کا پاک ہونا نماز کی شرط ہے۔

بدن اور لباس کو پاک کرنے کا طریقہ:

❀ مذی اگر جسم پر لگی ہو تو اسے دھویا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
توضأ واغسل ذكرك
”وضو کر اور شرم گاہ کو دھو لے (یعنی استنجا کر لے)۔“
[بخاری، کتاب الغسل، باب غسل المذي والوضوء منه: 269 – مسلم: 306]
❀ حلال جانوروں کے پیشاب کے چھینٹے پڑ جائیں تو کوئی حرج نہیں، کیونکہ وہ نجس نہیں۔
❀ ایسا شیر خوار بچہ جس کی غذا صرف ماں کا دودھ ہو، اس کا پیشاب لگ جائے تو اس جگہ پانی کے چھینٹے مار لینا کافی ہے۔
❀ لیکن اگر شیر خوار بچی کا پیشاب جسم یا کپڑے کو لگ جائے تو اسے دھونا چاہیے، کیونکہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يغسل بول الجارية وينضح بول الغلام ما لم يطعم
”بچی کا پیشاب دھویا جائے اور بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جائیں، جب تک وہ کھانا نہ کھانے لگے۔“
[ابو داود، كتاب الطهارة، باب بول الصبي يصيب الثوب: 377 – نسائی: 305 – ترمذی: 71 – ابن ماجه: 526 – صحیح]
❀ بڑے (مرد یا عورت) کا پیشاب وغیرہ لگ جائے تو دھویا جائے گا۔
[بخاری، کتاب الوضوء، باب صب الماء على البول في المسجد: 220 – مسلم: 284]
❀ حیض وغیرہ کا خون یا کوئی دوسری غلاظت لگی ہو تو اسے دھویا جائے گا۔
❀ فرمان نبوی ہے:
”تم میں سے کسی کے کپڑے کو حیض کا خون لگ جائے تو وہ اسے کھرچ لے اور پانی سے دھو لے، پھر اس میں نماز پڑھ لے۔“
[بخاری، کتاب الحيض، باب غسل دم المحيض: 307 – مسلم: 291]
منی کپڑے کو لگ جائے تو اگر منی تر ہے تو اسے پانی سے دھویا جائے گا۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يغسل المني ثم يخرج إلى الصلاة فى ذلك الثوب
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے کپڑے سے) منی دھوتے اور اسی کپڑے میں نماز پڑھانے کے لیے چلے جاتے تھے۔“
[مسلم، كتاب الطهارة، باب حكم المني: 289]
منی لگ کر خشک ہو گئی تو اسے کھرچ کر صاف کر دینے سے وہ پاک ہو جائے گا، اسے دھونا ضروری نہیں۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
”بلاشبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے خشک منی کو ناخن سے کھرچ کر اتار دیا کرتی تھی۔“
[مسلم، كتاب الطهارة، باب حكم المني: 290]
❀ مذی لگی ہو تو اس پر پانی کے چھینٹے مارنا کافی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يكفيك بأن تأخذ كفا من ماء فتنضح بها من ثوبك حيث ترى أنه أصابه
”تجھے بس اتنا ہی کافی ہے کہ پانی کا ایک چلو لے کر کپڑے میں جہاں مذی لگی ہے اس پر چھینٹے مار دے۔“
[ابو داود، كتاب الطهارة، باب في المذي: 210 – ترمذی: 115 – صحیح]
❀ زمین پر مصلی، صف یا قالین وغیرہ بچھا ہوا ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔
❀ جوتے میں غلاظت لگی ہو تو اسے زمین پر رگڑ کر صاف کر دیا جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا وطئ أحدكم بنعله الأذى فإن التراب له طهور
”تم میں سے کسی کے جوتے کو نجاست لگ جائے تو اس کی طہارت مٹی (پر رگڑ کر) ہوگی۔“
[ابو داود، كتاب الطهارة، باب في الأذى يصيب النعل: 385 – صحیح]
دھونے کے بعد بدن یا کپڑا گیلا ہے اور دھونے کا نشان باقی ہے تو کوئی حرج نہیں۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كنت أغسل الجنابة من ثوب النبى صلى الله عليه وسلم فيخرج إلى الصلاة وإن بقع الماء فى ثوبه
”میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے جنابت (منی) کو دھوتی، پھر آپ نماز کے لیے چلے جاتے اور آپ کے کپڑے میں پانی کے نشان باقی ہوتے۔“
[بخاری، کتاب الوضوء، باب غسل المني وفركه: 229، 230 – مسلم: 289]
طہارت کا یہ طریقہ مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں ہے۔

فطری طہارت کے مسائل:

فطری طہارت کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خمس من الفطرة: الختان، والاستحداد، ونتف الإبط، وتقليم الأظفار، وقص الشارب
”پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں: ختنہ کرنا، زیر ناف بال مونڈنا، بغلوں کے بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا اور مونچھیں کاٹنا۔“
[بخاری، كتاب اللباس، باب قص الشارب: 5889 – مسلم: 257]
❀ چالیس دنوں میں ایک دفعہ یہ کام ضرور کرنا چاہیے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”ہمارے لیے مونچھیں تراشنے، ناخن کاٹنے، بغلوں کے بال اکھیڑنے اور زیر ناف بال مونڈنے کا وقت مقرر کیا گیا کہ ہم انھیں چالیس دنوں سے زیادہ نہ چھوڑیں۔“
[مسلم، كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة: 258]
❀ نو مسلم کے بال کاٹے جائیں گے اور ختنہ کیا جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نومسلم سے فرمایا:
ألق عنك شعر الكفر واحتتن
”اپنے دور کفر کے بال کاٹ اور ختنہ کرا۔“
[ابو داود، كتاب الطهارة، باب الرجل يسلم فيؤمر بالغسل: 355، 356 – حسن]

جگہ کی طہارت کا بیان:

❀ عام زمین ان اشیا کے لگنے سے ناپاک ہو جاتی ہے جن سے بدن اور کپڑا ناپاک ہوتا ہے۔ اسے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس جگہ پانی بہا دیا جائے، تاکہ نجاست کا اثر ختم ہو جائے، تو زمین پاک ہو جاتی ہے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دیہاتی مسجد نبوی میں آکر پیشاب کرنے لگا، لوگ اسے ڈانٹنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اسے چھوڑ دو (یعنی پیشاب کر لینے دو)۔“ پھر آپ نے اس کے پیشاب پر پانی کا ایک ڈول بہا دینے کا حکم دیا اور صحابہ سے فرمایا:
”تمھیں آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے، تنگی کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا۔“
[بخاری، کتاب الوضوء، باب صب الماء على البول في المسجد: 220 – مسلم: 284]
❀ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی شخص لاعلمی کی وجہ سے غلط جگہ پیشاب کر رہا ہو تو اسے اسی وقت روکنا نہیں چاہیے، بلکہ اسے پیشاب کر لینے دینا چاہیے اور بعد میں احسن طریقہ سے سمجھا دینا چاہیے۔

جن مقامات پر نماز پڑھنا جائز نہیں:

❀ مزار اور ہر وہ جگہ جہاں لوگ غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں، یعنی ان کے نام کی نذریں مانتے، چڑھاوے چڑھاتے اور سجدہ کرتے ہیں، وہاں اللہ کی عبادت کرنا جائز نہیں۔
❀ قبرستان میں بھی نماز پڑھنا جائز نہیں اور جہاں ایک ہی قبر ہو وہاں بھی نماز وغیرہ جائز نہیں۔ کیونکہ وہاں نماز پڑھنے سے مشرکوں سے مشابہت ہوتی ہے۔
❀ فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
لا تجلسوا على القبور ولا تصلوا إليها
”قبروں پر (مجاور بن کر) نہ بیٹھو اور نہ ان کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو۔“
[مسلم، كتاب الجنائز، باب النهي عن الجلوس على القبر والصلاة عليه: 972]
❀ قبرستان میں اس وقت تک نماز نہیں پڑھی جا سکتی جب تک وہاں قبریں موجود ہیں۔
❀ اگر قبریں ختم کر دی جائیں تو وہاں مسجد بنائی جا سکتی ہے اور نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی قبریں ختم کر کے ہی مسجد نبوی تعمیر فرمائی تھی۔
[بخاری، کتاب الصلاة، باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية: 428 – مسلم: 524]
❀ مندرجہ بالا مقامات کے علاوہ کچھ مقامات اور ہیں جہاں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ (اس کی تفصیل ”مساجد کا بیان“ میں ملاحظہ فرمائیں)۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے