امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کا صحیح طریقہ
سوال کی وضاحت:
سوال میں مختلف احادیث پیش کی گئی ہیں جن کا تعلق نماز میں امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے طریقے سے ہے۔ خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ کیا امام کے دو سکتے (خاموشی کے وقفے) ہوتے ہیں اور ان میں مقتدی کو سورۃ الفاتحہ پڑھنی چاہیے؟ ان احادیث کی روشنی میں یہ وضاحت درکار ہے کہ:
✿ کیا یہ روایات درست ہیں؟
✿ کیا ان روایات کی روشنی میں عمل کرنا چاہیے؟
✿ اگر زیادہ تر ائمہ دو سکتے نہیں کرتے تو کیا دوسرا سکتہ کرنا ضروری ہے یا نہیں؟
ذیل میں ہر روایت کی وضاحت الگ الگ کی گئی ہے:
(1) سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی روایت:
"سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ دو سکتے کرتے تھے، ایک اس وقت جب صلاۃ شروع کرتے اور ایک اس وقت جب آپ ﷺ قرات سے فارغ ہوتے۔”
وضاحت:
یہ روایت ضعیف اور معلول ہے، کیونکہ اس کی سند میں حسن بصری رحمہ اللہ شامل ہیں، جن کے متعلق کتاب "التقریب” میں لکھا ہے:
"وَكَانَ يُرْسِلُ كَثِيرًا وَيُدَلِّسُ”
یعنی: "وہ بہت زیادہ ارسال (مرسل روایت بیان کرنا) اور تدلیس (مبہم انداز سے روایت کرنا) کیا کرتے تھے۔”
اس روایت میں انہوں نے سماع (براہ راست سننا) کی وضاحت نہیں کی، جس کی وجہ سے یہ روایت ضعیف قرار دی گئی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے درج ذیل کتب ملاحظہ کریں:
✿ إرواء الغليل (جلد 2، صفحہ 284، حدیث نمبر 505)
✿ سلسلہ ضعیفہ (جلد 2، صفحہ 25-26، حدیث نمبر 547)
(2) عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت:
"صحابہ رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کے پیچھے اس وقت پڑھتے جب آپ ﷺ خاموش رہتے، پھر جب آپ ﷺ قرأت کرتے تو صحابہ کچھ نہیں پڑھتے، جب آپ ﷺ خاموش ہو جاتے تو پھر پڑھتے تھے۔”
وضاحت:
یہ روایت درحقیقت قرأت کے دوران سکوت و توقف سے متعلق ہے، جیسا کہ اس کے الفاظ سے واضح ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے آیات کے درمیان توقف (وقفے) ثابت ہیں۔
اس روایت سے دو مخصوص سکتوں پر استدلال کرنا درست نہیں، البتہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ:
✿ تکبیر تحریمہ (نماز شروع کرنے کی تکبیر) کے بعد
✿ قرأت کے آغاز سے پہلے
رسول اللہ ﷺ تھوڑا سا وقفہ کرتے تھے۔ لہٰذا اس روایت سے یہی ایک سکتہ ثابت ہوتا ہے، نہ کہ دو۔
(3) خطبے والی روایت:
"آپ ﷺ نے خطبہ میں فرمایا: جو شخص امام کے ساتھ صلاۃ پڑھ رہا ہو، اسے چاہیے کہ جب امام سکتہ کرے تو امام سے پہلے ہی سورۃ فاتحہ پڑھ لے۔”
وضاحت:
اس روایت کی ایک سند میں ابن لہیعہ اور دوسری میں مثنی بن صباح ہیں، اور یہ دونوں راوی ضعیف ہیں۔
تاہم اگر فرض کر بھی لیا جائے کہ یہ روایت حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچتی ہے (جیسا کہ بعض اہل علم کی رائے ہے جیسے کہ کتاب "صلاة المسلمین” میں ذکر ہے)، تب بھی:
✿ اس روایت سے صرف ایک سکتہ ثابت ہوتا ہے جو قرأت سے پہلے ہوتا ہے۔
✿ دوسرے سکتہ (قرأت کے بعد) کا اس میں کوئی ذکر نہیں۔
یہی سکتہ ہے جس پر تمام ائمہ و فقہاء عمل کرتے ہیں۔
(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت:
"امام کے دو سکتے ہوتے ہیں، ان دونوں میں سورۃ فاتحہ کی قرأت کو لوٹ لو۔”
وضاحت:
یہ روایت موقوف ہے، یعنی یہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے نہ کہ نبی کریم ﷺ کا۔
یاد رکھیں کہ حجت صرف اللہ کی کتاب اور رسول ﷺ کی ثابت شدہ سنت ہے، نہ کہ صحابہ کے اقوال، اگر وہ نبی ﷺ کی طرف منسوب نہ ہوں۔
مزید یہ کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا دوسرا قول بھی ہے، جو پانچویں روایت میں ذکر ہوا:
"وَاسبِقْہُ”
یعنی: "امام سے پہلے سورۃ فاتحہ پڑھ لو۔”
اگر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دوسرے سکتہ میں قرأت کے قائل ہوتے، تو وہ امام سے پہلے قرأت کرنے کا حکم نہ دیتے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ:
✿ چوتھی روایت کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنا بعض راویوں کا وہم ہے۔
✿ اصل میں یہ قول امام ابو سلمہ رحمہ اللہ کا ہے، جسے کسی راوی نے غلطی سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول بنا دیا۔
(5) روایت:
"جب امام سورۃ فاتحہ پڑھے تو تم بھی سورۃ فاتحہ پڑھو اور اس سے پہلے پڑھو۔”
وضاحت:
یہ قول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے، اور جیسا کہ پہلے وضاحت کی گئی، وہ امام سے پہلے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم دے رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دوسرے سکتہ میں قرأت کے قائل نہیں تھے۔
خلاصہ:
✿ دو سکتے (دو خاموش وقفے) والی روایت ضعیف ہے، اور اس سے عمل نہیں کیا جا سکتا۔
✿ ایک سکتہ (قرأت سے پہلے) نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے اور اسی پر تمام آئمہ عمل کرتے ہیں۔
✿ صحابہ کرام کا عمل بھی اسی ایک سکتہ پر مبنی تھا۔
✿ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اقوال کو دیکھیں تو وہ بھی ایک سکتہ اور امام سے پہلے قرأت کے قائل تھے۔
✿ لہٰذا، دوسرا سکتہ (قرأت کے بعد) نہ تو ثابت ہے، نہ لازمی ہے، اور نہ ہی عمل کے قابل ہے۔
هٰذَا مَا عِندِي وَاللّٰهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ