سوال
نماز مغرب کی دو رکعت سنت مسجد میں پڑھنا کیسا ہے؟ بعض کہتے ہیں یہ سنتیں مسجد میں پڑھی جائز نہیں، گھر میں پڑھنی چاہئیں۔
الجواب
حدیث میں ہے:
اجعلوا فى بيوتكم ولا تتخذوها قبوراً (مشكوٰة باب المساجد و موضع الصلوٰة فصل اوّل)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نماز کا کچھ حصہ گھروں کے لیے بھی کرو‘‘
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ نوافل اور سنتیں مسجدوں کی بجائے گھروں میں پڑھنا افضل ہے اور مساجد میں جائز ہے۔ اس میں مغرب یا کسی دوسرے وقت کی کوئی خصوصیت نہیں سب کا یہی حکم ہے، صحا بہ کرام عہد نبوی میں مغرب کی سنتیں مسجد میں پڑھتے تھے، حدیث میں ہے:
عن عبد الله بن مغفل قال قال النبى صلى الله عليه وسلم: «صلوا قبل المغرب ركعتين صلوا قبل المغرب قال فى الثالثة كراهية أن يتخذها الناس سنة» (متفق عليه)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ ارشاد فرمایا کہ نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھو، تیسری مرتبہ فرمایا، جس کی مرضی ہو پڑھے، یہ اس لیے کہ لوگ اسے ضروری نہ سمجھ لیں۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ یہ دو رکعت جس قدر شوق اور کثرت سے پڑھتے تھے اس کا بیان حسب ذیل حدیث میں ہے:
عن أنس رضى الله عنه قال كنا بالمدينة فأذن لصلوٰة المغرب ابتداء روا السواري فركعوا ركعتين حتي أن الرجل الغريب ليدخل المسجد فيحسب ان الصلوٰة قد صليت من كثرة من يصلها (رواه مسلم، مشكوٰة باب السنن وفضلها)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم مدینہ منورہ میں تھے، مغرب کی نماز کے لیے جب مؤذن اذان کہتا تو لوگ مسجد کے ستون کی طرف لپکتے اور ستونوں کی طرف میں دو رکعت نفل پڑھتے، اور صحابہ کرام اس کثرت سے یہ نفل پڑھتے ، کہ کوئی اجنبی شخص مسجد میں داخل ہوتا، تو وہ خیال کرتا کہ مغرب کی نماز پڑھی گئی۔‘‘
یہ مسلم شریف کی روایت ہے۔ صحت کے لحاظ سے اس پر کوئی کلام نہیں، اس سے یہ مسئلہ ثابت ہو گیا کہ صحابہ کرام مغرب کی سنتیں مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔ ورنہ یہ الفاظ کہ اجنبی آدمی گمان کرتا تھا کہ نماز پڑھی گئی ہے۔یہ بے معنی ہوں گے، اور ان کا کوئی مطلب نہ ہو گا۔ فافھم وتدبر (تنظیم اہل حدیث لاہور ج۱۸ ش۲۱)