نماز قصر کی مسافت اور جمع کا شرعی حکم تفصیل سے
ماخوذ : فتاوی ارکان اسلام

کتنی مسافت پر نماز قصر کی جا سکتی ہے

سوال:

سفر کی کتنی مسافت ہو جس کی وجہ سے مسافر نماز قصر ادا کرے گا؟ کیا یہ جائز ہے کہ نماز کو جمع تو کر لیا جائے مگر قصر نہ کی جائے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز قصر سے متعلق علما کی آراء مختلف ہیں۔ ان آراء کی تفصیل درج ذیل ہے:

قصر نماز کے لیے مسافت کی تعیین

◈ بعض علماء نے قصر نماز کے لیے 83 کلومیٹر (تقریباً) مسافت بیان کی ہے۔
◈ دیگر علماء کے مطابق قصر نماز کے لیے وہی مسافت کافی ہے جسے عرف عام میں "سفر” کہا جاتا ہو، چاہے وہ 83 کلومیٹر سے کم ہو۔ اگر کسی مسافت کو عوام "سفر” نہیں سمجھتے تو وہ شرعی سفر شمار نہیں ہوگا، چاہے وہ مسافت 100 کلومیٹر ہی کیوں نہ ہو۔

امام ابن تیمیہؒ کی رائے:

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی یہی رائے اپنائی ہے کہ:

اللہ تعالیٰ نے قصر نماز کے لیے کوئی معین مسافت بیان نہیں فرمائی، اور نہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص فاصلے کی تحدید کی ہے۔

حدیث:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

«کَانَ النَّبِيِّ إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةَ أَمْيَالٍ أَوْ ثَلَاثَةَ فَرَاسِخَ قَصَرَ الصَّلَاةَ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ»
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب صلاة المسافرین، حدیث: ۶۹۱)

یعنی:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ کی مسافت کے لیے سفر فرماتے تو نماز قصر ادا کرتے اور صرف دو رکعتیں پڑھتے تھے۔‘‘

عرف و عادت کے لحاظ سے عمل:

◈ اگر مختلف علاقوں میں "عرف” (رائج عادت) مختلف ہو تو ان عرفی اقوال پر عمل کرنے میں حرج نہیں، کیونکہ یہ اقوال بعض ائمہ اور مجتہد علما کے بھی ہیں۔
◈ اگر کسی علاقے میں عرف و عادت پوری طرح واضح ہو جائے، تو اسی پر عمل کرنا درست ہوگا۔

نماز جمع اور قصر کے درمیان تعلق

جمع اور قصر کی الگ الگ حیثیت:

◈ اگرچہ قصر جائز ہو، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جمع (دو نمازوں کو ملا کر پڑھنا) بھی لازم ہو۔
جمع نماز کا تعلق ضرورت و حاجت سے ہے، نہ کہ قصر کے ساتھ مشروط ہے۔

روزمرہ کے حالات میں جمع کی مثالیں:

بارش کی صورت میں جب مسجد میں جانا دشوار ہو تو لوگ نمازوں کو جمع کر لیتے ہیں۔
سردی اور ٹھنڈی ہوا کی شدت میں بھی یہی صورت ممکن ہے۔
مال کے نقصان یا ضائع ہونے کے اندیشے میں بھی نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے۔

حدیث:

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

«جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ»
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب الجمع بين الصلاتين فی الحضر، حدیث: ۷۰۵)

یعنی:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر و عصر، اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو کسی خوف یا بارش کے بغیر جمع کیا۔‘‘

اس حدیث کی وضاحت:

◈ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟
◈ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’تاکہ امت پر ترکِ جمع کی وجہ سے کوئی تنگی نہ ہو۔‘‘

شرعی اصول:

اگر ترک جمع کی وجہ سے انسان کسی حرج میں مبتلا ہو تو جمع جائز ہے۔
اگر کوئی حرج نہ ہو تو جمع کرنا جائز نہیں۔
◈ سفر کے دوران اکثر اوقات ترک جمع میں حرج کا اندیشہ ہوتا ہے، اس لیے مسافر کے لیے جمع کرنا جائز ہے، چاہے وہ سفر جاری رکھے یا اقامت اختیار کرے۔

جمع و قصر کا عمل کب کب کرنا چاہیے؟

مسافر کے لیے جمع کرنا جائز ہے۔
مقیم (نہ سفر پر ہو) کے لیے جمع ترک کرنا افضل ہے۔
◈ البتہ اگر کوئی شخص کسی ایسے شہر میں اقامت اختیار کرے جہاں جماعت کا باقاعدہ نظام ہو تو:
➤ نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا واجب ہے۔
➤ ایسی صورت میں نہ جمع کرے گا اور نہ قصر۔
◈ اگر جماعت میسر نہ ہو تو:
قصر کر لے گا۔
➤ جمع صرف ضرورت کی صورت میں کرے گا۔

حاشیہ / تحقیق:

(1) ’’جب تین فرسخ (یعنی پرانے تقریباً 15 میل) کی تحدید حدیث سے ثابت ہے، تو پھر عرف و عادت کی طرف رجوع کرنا زیادہ درست کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
لہٰذا فاضل مفتی رحمہ اللہ کی یہ رائے مرجوح (کمزور) ہے۔
راجح (زیادہ مضبوط) بات یہی ہے کہ سفر کی مسافت حدیث سے ثابت ہے، اور وہ تین فرسخ ہے۔
حافظ عبدالمنان نورپوریؒ کی تحقیق کے مطابق یہ 23 کلومیٹر بنتی ہے۔
یہ مسافت شہر کی حدود سے باہر نکلنے کے بعد شمار ہوگی۔

نتیجہ:

نماز قصر کی مسافت کے حوالے سے علما کی مختلف آراء موجود ہیں۔ حدیث کی روشنی میں تین فرسخ (تقریباً 23 کلومیٹر) کو شرعی معیار قرار دیا جا سکتا ہے، جب کہ جمع اور قصر کا عمل ضرورت، حالات، اور عرف کے مطابق اختیار کیا جائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1