بعض فرضوں سے پہلے، بعض فرضوں کے بعد اور بعض فرضوں سے پہلے اور بعد ہر دو موقع پر کچھ سنتیں ایسی ہیں جنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ پڑھا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ انہیں سنن راتبہ یا سنن مؤکدہ کہا جاتا ہے۔ ہر نماز کے ساتھ والی ان مؤکدہ سنتوں میں سے نماز فجر کے فرض سے پہلے دو رکعتیں ہیں جن کی بہت زیادہ تاکید اور فضیلت بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم، ترمذی، شرح السنہ بغوی اور مسند احمد میں ارشاد نبوی ہے:
وركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها
دو رکعت فجر دنیا و مافیہا سے بہتر ہیں۔
مختصر صحیح مسلم، صحیح الالبانی ص 100، نیل الاوطار 19/3/2، الشوکانی، شرح السنہ بغوی 453/3
اسی طرح صحیح بخاری و مسلم، ابوداؤد اور مسند احمد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
لم يكن النبى صلى الله عليه وسلم على شيء من النوافل أشد تعاهدا منه على ركعتي الفجر
النیل 19/3/2، شرح السنہ 453/3، الفتح الربانی 222/4، تر تیب و شرح مسند احمد الشیبانی از احمد عبد الرحمن النبا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی سنتوں سے زیادہ کسی دوسری نفلی نماز کی پابندی نہیں فرماتے تھے۔
ان دونوں سنتوں کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی ہوتا ہے کہ سفر کے دوران جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکعتوں والی فرض نمازوں کی بھی صرف دو رکعتیں (دوگانہ) پڑھا کرتے تھے، لیکن ان دو سنتوں کو سفر میں بھی نہیں چھوڑا کرتے تھے (جیسا کہ وتر ہیں)۔ بلکہ ایک دفعہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سمیت ایک سفر کے دوران فجر سے سوئے رہ گئے اور سورج چڑھ گیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تو اس وقت بھی یہ دو سنتیں ساتھ ہی پڑھیں، جیسا کہ صحیح مسلم، ابوداؤد، نسائی، مسند احمد، ابن ابی شیبہ، بیہقی اور دارقطنی میں یہ واقعہ مذکور ہے۔
ارواء الغلیل 94/1-293، نصب الرایہ للزیعلی 157/2/181
متعدد احادیث سے پتا چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں رکعتوں کو بہت ہلکا پڑھا کرتے تھے۔ اس کا اندازہ بخاری و مسلم، شرح السنہ اور مسند احمد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے کیا جاسکتا ہے جس میں وہ فرماتی ہیں:
وكان النبى صلى الله عليه وسلم يخفف الركعتين اللتين قبل صلوة الصبح حتى إني لاقول هل قرا بأم الكتاب
شرح السنہ 453/4، الفتح الربانی 224/4
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے پہلے دو رکعتیں اتنی ہلکی پڑھا کرتے تھے کہ میں شک کرنے لگتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ فاتحہ بھی پڑھی ہے یا نہیں؟
قراءت:
ان دونوں رکعتوں میں قرآن کریم کی کوئی بھی سورت پڑھی جاسکتی ہے، لیکن اگر کوئی شخص زیادہ ثواب حاصل کرنا چاہے تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو اپنا لینا چاہیے اور جو سورتیں یا آیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دو رکعتوں میں پڑھا کرتے تھے، ان کا پڑھنا مستحب ہے۔ اس کی تفصیل متعدد احادیث میں مذکور ہے، جیسا کہ صحیح مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ و مسند احمد میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتوں میں قُلْ يَأَيُّهَا الكَفِرُونَاور قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ پڑھا کرتے تھے۔
الفتح الربانی 225/4، مختصر مسلم ص 100، ترمذی مع التخفہ 470/2، مد في التفصيل، التحفہ اللمبارکپوری، الفتح الربانی و نیل الاوطار 30/3/2
دائیں پہلو پر لیٹنا:
فجر کی ان دو سنتوں کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جایا کرتے تھے، جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم، ابوداؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
كان النبى صلى الله عليه وسلم اذا صلى ركعتي الفجر اضطجع على شقه الايمن
الفتح الربانی 228/4، نیل الاوطار 21/3/2
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو سنتیں پڑھنے کے بعد اپنے دائیں پہلو پر (تھوڑی دیر) لیٹ جایا کرتے تھے
وإذا صلى أحدكم ركعتي الفجر فليضطجع على شقه اليمين
ترمذی مع التخفہ 476/2، ابوداؤد مع العون العظیم آبادی 138/4 طبع بیروت، تحقیق عبد الرحمن محمد عثمان، شرح السنہ 460/3
جب تم میں سے کوئی شخص فجر کی سنتیں پڑھ چکے تو اسے چاہیے کہ اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جائے
اس لیٹنے کے بارے میں اہل علم کی مختلف آراء ہیں، جن کی تفصیلات عون المعبود و شرح ابوداؤد (138/4/40)، تحفہ الاحوذی شرح ترمذی (476/2)، سبل السلام شرح بلوغ المرام (386/2)، زاد المعاد لابن قیم (21/1-318 محقق) اور مغنی ابن قدامہ (127/2) میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
اس مسئلہ میں برصغیر پاک و ہند کے معروف محدث فاضل علامہ انور شاہ کاشمیری العرف الشذی شرح ترمذی میں لکھتے ہیں کہ ہمارے (یعنی احناف) کے نزدیک صبح کی سنتوں کے بعد لیٹنا جائز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لیٹنا بطریق عبادت نہیں بلکہ بطریق عادت تھا، اور میں جس چیز کا قائل ہوں وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کی بھی پیروی کرتا ہے تو وہ ثواب سے بہرحال محروم نہیں رہ سکتا۔
بحوالہ فقہ السنہ محمد عاصم اردو 249/1
علامہ انور شاہ کے ان الفاظ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ لیٹنا بہرحال کار ثواب ہے کیونکہ یہ عادت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تھی۔ اور اگر کوئی شخص نہیں لیٹتا، جیسا کہ آج کل عموماً ہو رہا ہے، تو وہ اس ثواب سے تو محروم رہے گا، مگر (نہ لیٹنا) کوئی گناہ نہیں، کیونکہ احادیث کی رو سے یہ فعل مستحب یا مسنون ہے، نہ کہ واجب۔ البتہ علامہ ابن حزم نے محلی میں اسے واجب کہا ہے اور نیل الاوطار میں امام شوکانی کا میلان بھی اسی طرف ہے۔
راجع العیل و المحلی لابن حزم
مگر صحیح بخاری و مسلم کی حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہے:
وكان النبى صلى الله عليه وسلم اذا صلى ركعتي الفجر فإن كنت مستيقظة فحدثني وإلا اضطجع
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو مجھ سے باتیں کرتے، ورنہ لیٹ جاتے۔
یہ قرینہ صارفہ عن الوجوب ہے۔
انظر فتح الباری للحافظ ابن حجر عسقلانی والتحفہ اللمبارکپوری
وقت ادائیگی:
نماز فجر کی دونوں سنتوں کی بہت زیادہ فضیلت و اہمیت ہے اور ان کی ادائیگی کا وقت نماز فجر کی اقامت ہو جانے تک ہے۔ جب اقامت ہو جائے اور جماعت ہونے لگے تو اس وقت پھر جماعت سے مل جانا چاہیے اور سنتیں بعد میں پڑھ لینی چاہییں، کیونکہ اقامت ہو جانے پر اس فرض نماز کے سوا دوسری کوئی نماز نہیں ہوتی، چاہے وہ فجر کی سنتیں ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ صحیح مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور دیگر کئی کتب حدیث میں ارشاد نبوی ہے:
وإذا أقيمت الصلوة فلا صلوة إلا المكتوبة
مختصر مسلم، ابوداؤد مع العون 143/4، ترمذی مع التخفہ 481/2، نیل الاوطار 86/3/2
جب نماز کی تکبیر ہو جائے تو سوائے اس فرض نماز کے دوسری کوئی نماز نہیں ہوتی
مسند احمد کی روایت میں:
فلا صلوة إلا المكتوبة التى أقيمت لها
نیل الاوطار 84/3/2
سوائے اس فرض نماز کے کہ جس کے لیے اقامت کہی گئی ہے
بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: کیا اقامت ہو جانے کے بعد فجر کی دو سنتیں بھی نہیں پڑھ سکتے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ولا ركعتي الفجر
نہیں، فجر کی سنتیں بھی نہیں پڑھ سکتے
نیل الاوطار 84/3/2
بیہقی کی اس حدیث کو حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں نقل کر کے اسے حسن قرار دیا ہے۔
نیل الاوطار 84/3/2
اسی طرح امام زرقانی نے شرح موطا میں اور علامہ عبد الحی لکھنوی نے التعلیق الممجد علی موطا امام محمد میں بھی اس کے حسن ہونے کا اعتراف کیا ہے۔
اسی طرح صحیح بخاری و مسلم، نسائی اور ابن ماجہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز فجر کی اقامت کے بعد نماز پڑھ رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ گفتگو کی جو دوسروں نے نہ سنی۔ نماز سے فارغ ہو کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا تو اس شخص نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا تھا:
يوشك أن يصلي أحدكم أربعا
بخاری مع الفتح 222/5/2، نسائی باب ما يكره من الصلاة عند الاقامة، ابن ماجہ 149/1
قریب ہے کہ تم میں سے کوئی شخص فجر کی چار رکعتیں پڑھنے لگے گا۔
امام نووی نے شرح مسلم میں وضاحت کی ہے کہ یہ استفہام انکاری ہے، یعنی اقامت ہو جانے کے بعد سنتیں پڑھنے والے کے فعل کو غیر درست قرار دیا۔
نووی 223/5/3
اسی طرح صحیح مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں حدیث ہے کہ ایک شخص فجر کے وقت مسجد میں داخل ہوا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز پڑھا رہے تھے۔ اس شخص نے مسجد کے کسی کونے میں دو سنتیں پڑھیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جماعت میں شریک ہوا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا:
يا فلان ب أى الصلاتين اعتددت أبصلاتك وحدك أو بصلاتك معنا
مسلم مع النووی 224/5/3، ابوداؤد مع العون 142/3، نسائی فيمن يصلي ركعتي الفجر والامام في الصلاة، ابن ماجہ 364/1
اے فلاں! تو نے فرض نماز کس کو گنا، وہ جو تو نے اکیلے پڑھی یا وہ جو ہمارے ساتھ پڑھی؟
امام نووی فرماتے ہیں کہ اگرچہ سنتیں پڑھنے کے بعد جماعت مل جانے کی توقع ہو، تب بھی اس ارشاد نبوی کی رو سے اقامت ہو جانے کے بعد سنتیں پڑھنے کا آغاز کرنا ٹھیک نہیں۔
نووی 225/5/3
ایک حدیث مسند احمد، مستدرک حاکم، بیہقی، صحیح ابن خزیمہ اور ابن حبان وغیرہ میں ہے کہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور مؤذن نے تکبیر کہنا شروع کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کھینچتے ہوئے فرمایا:
أتصلي الصبح أربعا
فتح الباری 150/2، تحفہ الاحوذی 482/2، نیل الاوطار 86/3/2
کیا تم صبح کی چار رکعتیں پڑھتے ہو؟
اس میں بھی واضح انکار موجود ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث میں اقامت ہو جانے کے بعد سنتیں پڑھنے والے شخص کو فرمایا تھا:
أتصلي الصبح أربعا
نیل الاوطار 86/3/2، مختصر صحیح بخاری الالبانی 129/1، نووی 223/5/3
کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئی ہیں؟
جبکہ صحیح مسلم کے الفاظ ہیں:
أتصلي الصبح أربعا
نووی 223/5/3
کیا تم صبح کی نماز چار رکعتیں پڑھتے ہو؟
صحیح ابن خزیمہ، موطا امام مالک اور مسند بزار میں ہے کہ جب نماز کی تکبیر کہی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ (تکبیر ہو جانے کے باوجود) کچھ لوگ سنتیں پڑھ رہے ہیں تو فرمایا:
أصلاتان معاً؟ ونهى أن تصليا إذا أقيمت الصلاة
ابن خزیمہ تحقیق الاعظمی الدكتور مصطفی 70/2، موطا مع تنویر الحوالك للسیوطی 138/1، فتح الباری 149/2، ترمذی مع التحفہ 482/2
کیا دو نمازیں ایک ساتھ پڑھتے ہو؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامت ہو جانے کے بعد ان سنتوں کو پڑھنے سے منع فرمایا
صحیح بخاری و مسلم سمیت کتب حدیث میں اس موضوع کی بکثرت احادیث اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہ اللہ سے پتا چلتا ہے ۔
مجلہ جامعہ ابراہیمیہ سلسلہ 14، کمیسر 1987ء، فتوٰی مولانا محمد علی جانباز
کہ جب کسی نماز کی تکبیر ہو جائے تو پھر پہلی سنتیں پڑھنے میں مشغول نہیں ہونا چاہیے، اور نماز فجر کی پہلی دو سنتوں کے بارے میں تو یہ حکم بطور خاص ذکر ہوا ہے، جیسا کہ موطا امام مالک میں صراحت موجود ہے کہ مذکورہ ارشاد ہی فجر کی سنتوں کے بارے میں ہے۔ لہذا نماز فجر کی اقامت تک جس شخص نے سنتوں کا کافی حصہ پڑھ لیا ہو اور تشہد وغیرہ باقی ہو تو وہ پوری کر کے جماعت سے مل جائے، کیونکہ یہ آخری حصہ نماز، سجود، تشہد وغیرہ متممات مکملات داخلہ نماز سے ہیں، لہذا وہ فلا صلوة کی نفی میں داخل نہیں۔
نیل الاوطار 86/3/2
اگر کسی نے ابھی شروع ہی کی ہوں اور تکبیر ہو جائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کی رو سے اسے چاہیے کہ سنتوں کی نیت توڑ کر فرضوں کی جماعت میں شامل ہو جائے اور سنتیں بعد میں پڑھ لے۔ بیہقی کی ایک روایت میں فلا صلوة إلا المكتوبة کے بعد الا ركعتي الفجر کا اضافہ بھی ہے، جس کے بارے میں خود امام بیہقی نے کہا ہے:
هذه الزيادة لا أصل لها
فتح الباری 150/2، مصنف عبدالرزاق 236/2، محلی 110/3، بیہقی 483/2
اس زیادتی (اضافی الفاظ) کی کوئی اصل نہیں ہے
جماعت کھڑی ہونے کے بعد اگر کوئی شخص سنتیں پڑھتا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسے سزا دیتے تھے اور ابن عمر کہتے:
أتصلي الصبح أربعاً
المصنف أيضاً و مجمع الزوائد للبیہقی 383/2، إعلام الموقعین علامہ ابن القیم 356/2
کیا تم فجر کی چار رکعتیں پڑھتے ہو؟
ثوری، مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق کا قول ممانعت والا ہی ہے۔
تحفہ الاحوذی