نماز فجر میں دعائے قنوت کا حکم: سنت یا نوازل کے ساتھ مخصوص؟
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 366

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ نماز فجر میں ہمیشہ دعائے قنوت رسول اللہ ﷺ کی سنت سے ثابت ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے، جس میں دو مشہور اقوال موجود ہیں:

امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک نماز فجر کی دوسری رکعت کے رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھنا مشروع ہے۔
✿ دوسری طرف فقہاء کا ایک گروہ اس کے قائل نہیں کہ نماز فجر کی دوسری رکعت میں قنوت مشروع ہے۔

شیخ ابوالحسن عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر تحقیق کرتے ہوئے دوسرے قول کو راجح قرار دیا ہے۔ وہ دونوں فریقین کے دلائل پیش نظر رکھتے ہوئے وضاحت فرماتے ہیں:

الراجح عندي ما ذهب إليه أبوحنيفة وأحمد أنه لا يسن القنوت في غير الوتر من غير سبب لا في صلاة الصبح ولا في غيرها من الصلوات، وأنه مختص بالنوازل؛ لأنه لم يرد في ثبوته في غير الوتر من غير سبب حديث مرفوع صحيح خال عن الكلام، صريح في الدلالة على ما ذهب إليه مالك والشافعي، بل قد صح عنه – صلى الله عليه وسلم – ما يدل على خلاف ما قالا به۔ (مرعاة المفاتیح: ج۲ص۲۲)

یعنی:
میرے نزدیک امام ابوحنیفہ اور امام احمد کا قول زیادہ راجح ہے، کیونکہ وتر کی نماز کے علاوہ بغیر کسی سبب کے نہ تو نماز فجر میں اور نہ کسی دوسری نماز میں قنوت پڑھنا مسنون ہے۔ دعائے قنوت صرف نوازل (جیسے وبا، قحط یا دشمن کا خوف) کے مواقع کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کے ثبوت میں وتر کے علاوہ بغیر سبب کے کوئی ایسی مرفوع صحیح حدیث موجود نہیں جو جرح سے پاک اور امام مالک و امام شافعی کے موقف کے لیے صریح دلیل ہو۔ بلکہ صحیح احادیث اس کے برعکس موجود ہیں جو رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں۔

نتیجہ

لہٰذا اس تحقیق کے مطابق نماز فجر میں ہمیشہ قنوت پڑھنے کو سنت کہنا درست نہیں، بلکہ قنوت نوازل کے ساتھ مخصوص ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے