غیر قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم
سوال:
اگر جماعت نے غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کر لی ہو، تو اس نماز کا کیا حکم ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے کی دو ممکنہ صورتیں ہیں:
پہلی صورت:
ایسی جگہ ہو جہاں قبلہ کا علم نہ ہو:
◈ اگر نماز پڑھنے والے ایسی جگہ ہوں جہاں انہیں قبلہ کی سمت معلوم نہ ہو، مثلاً:
◈ وہ سفر میں ہوں،
◈ آسمان ابر آلود ہو،
◈ سمت قبلہ متعین کرنے کے ذرائع میسر نہ ہوں۔
◈ ایسی صورت میں انہوں نے پوری کوشش سے قبلہ کی سمت کا اندازہ لگا کر نماز ادا کی، اور بعد میں معلوم ہوا کہ نماز غیر قبلہ رخ ادا ہوئی تھی، تو:
> ان پر کوئی گناہ یا قضا لازم نہیں ہو گی۔
◈ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم﴾
(سورة التغابن: 16)
"پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرو۔”
◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی اس پر دلالت کرتا ہے:
«وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ»
(صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ، حدیث: 7288)
(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب فرض الحج مرۃ فی العمر، حدیث: 1337 (412))
"جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو اسے اپنی استطاعت کے مطابق بجا لاؤ۔”
◈ خاص اسی صورت حال کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلِلَّهِ المَشرِقُ وَالمَغرِبُ فَأَينَما تُوَلّوا فَثَمَّ وَجهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وسِعٌ عَليمٌ﴾
(سورة البقرة: 115)
"اور مشرق اور مغرب اللہ ہی کے ہیں، لہٰذا جس طرف بھی تم رخ کرو، ادھر ہی اللہ کی ذات ہے۔ بیشک اللہ وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔”
دوسری صورت:
جہاں قبلہ کا علم حاصل کرنا ممکن ہو لیکن سستی کی گئی:
◈ اگر نماز پڑھنے والے ایسی جگہ ہوں جہاں قبلہ کے بارے میں سوال کرنا یا تحقیق کرنا ممکن تھا، لیکن انہوں نے سستی اور کوتاہی کی وجہ سے کسی سے پوچھا نہیں، تو:
> ایسی صورت میں ان پر اس نماز کی قضا لازم ہوگی۔
◈ چاہے انہیں اپنی غلطی کا علم نماز کے دوران ہو یا نماز مکمل ہونے کے بعد۔
◈ اس صورت میں:
◈ انہوں نے جان بوجھ کر قبلہ سے انحراف نہیں کیا، لیکن
◈ قبلہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں سستی کی۔
◈ تاہم اگر انحراف معمولی سا ہو، یعنی:
◈ صرف تھوڑا سا دائیں یا بائیں رخ ہو جائے،
◈ تو یہ نماز کے باطل ہونے کا سبب نہیں بنے گا۔
◈ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کو فرمایا:
«مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ»
(جامع الترمذی، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء ان ما بین المشرق والمغرب قبلۃ، حدیث: 342)
(سنن ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب القبلۃ، حدیث: 1011)
"مشرق اور مغرب کے درمیان ساری سمتیں قبلہ ہیں۔”
◈ جن لوگوں کا مقام کعبہ کے شمال میں ہے، ان کے لیے قبلہ مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔
◈ جو لوگ جنوب کی طرف ہیں، ان کے لیے بھی یہی اصول لاگو ہوگا۔
◈ اور جو مشرق یا مغرب کی طرف ہیں، ان کے لیے قبلہ شمال و جنوب کے درمیان ہوگا۔
> لہٰذا معمولی انحراف قابلِ معافی ہے۔
خصوصی مسئلہ: مسجد حرام کے نمازیوں کے لیے
◈ جو لوگ مسجد حرام میں نماز ادا کرتے ہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ عین کعبہ کی طرف رخ کریں۔
◈ صرف کعبہ کی جہت کی طرف رخ کرنا کافی نہیں۔
◈ اگر وہ عین کعبہ کی سمت سے ہٹ جائیں، تو ان کی نماز قبلہ رخ شمار نہ ہو گی۔
◈ مشاہدے میں آیا ہے کہ:
◈ جب صف لمبی ہو تو بعض لوگ عین کعبہ کی طرف رخ نہیں کرتے۔
◈ یہ بہت بڑی غلطی ہے۔
◈ مسلمانوں پر لازم ہے کہ:
◈ وہ اس غلطی سے بچیں،
◈ اور اس کی اصلاح کریں،
◈ کیونکہ ایسی صورت میں ان کی نماز غیر قبلہ کی طرف شمار ہو گی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب