بعض لوگوں نے دین میں مداخلت کرتے ہوئے ایک نئی نماز گھڑی ہے اور اسے ’’ نماز غوثیہ “ کا نام دے کر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ یہ نماز بدعات و خرافات اور شرک و کفر کا ملغوبہ ہے۔ دین نبی اکرم کے اقوال و افعال کی پیروی کا نام ہے۔ غیر مشروع طریقوں سے تقرب الٰہی کا حصول ناممکن ہے۔ اگرچہ یہ لوگ اپنے ان کارناموں کو اچھا خیال کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے طریقوں کو دین و عبادت قرار دینا فساد فی الارض ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ﴾ (البقره:12،11)
’’ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں : بلاشبہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ خبردار ! حقیقت میں یہی لوگ فسادی ہیں، لیکن انہیں شعور نہیں۔ “
بدعات، اللہ کی زمین پر فساد و فتنہ کا باعث ہیں۔ بعض لوگ آئے دن کوئی نہ کوئی بدعت ایجاد کر لیتے ہیں۔ وہ عبادات میں نبی اکرم کی ذات گرامی پر اکتفا نہیں کرتے۔
نماز غوثیہ کس نے اور کب ایجاد کی ؟
ساتویں صدی ہجری تک مسلمان اس سے ناواقف تھے۔ دنیا میں سب سے پہلے مصری قاری اور گمراہ صوفی ابوالحسن علی بن یوسف شطنوفی (۶۴۴۔۷۱۳ھ) نے متعارف کرایا۔ یہ صوفی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی طرف منسوب عبارت یوں ذکر کرتا ہے :
من استغان بي في كربة كشفت عنه، ومن ناداني باسمي في شدة فرجت عنه، ومن توسل بي إلى الله عزوجل في حاجة قضيت له، ومن صلي ركعتين، يقرأ في كل ركعة بعد الفاتحة سورة الإخلاص إحدي عشرة مرة، ثم يصلي علي رسول الله صلی الله عليه وسلم بعد السلام ويسلم عليه، ويذكرني، ثم يخطوا إلي جھة العراق إحدي عشرة خطوة، ويذكر اسمي، ويذكر حاجته، فإنھا تقضي بإذن الله.
’’ جو شخص کسی مشکل میں مجھ سے مدد مانگے، اس کی مشکل دور کر دی جائے گی۔ جو مصیبت میں مجھے میرا نام لے کر پکارے، اس کی مصیبت دور کر دی جائے گی اور جو کسی حاجت میں اللہ تعالیٰ کو میرا وسیلہ دے کر دعا کرے گا، اس کی حاجت پوری کر دی جائے گی۔ جو شخص دو رکعتیں اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص گیارہ مرتبہ پڑھے، پھر سلام پھیرنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجے اور مجھے یاد کرے، پھر عراق کی طرف گیارہ قدم چلے اور میرا نام لے کر اپنی ضرورت کو ذکر کرے، تو وہ ضرورت پوری ہو جائے گی۔ “ (بھجة الأسرار ومعدن الأنوار، ص:102، فضل ذكر أصحابه وبشراھم، طبع مصر )
تبصرہ:
یہ سفید جھوٹ ہے جسے شیخ عبدالقادر جیلانی سے منسوب کر دیا گیا ہے۔
اس گھڑنتل کا راوی ابوالمعالی عبدالرحیم بن مظفر، جو کہ شطنوفی کا استاذ ہے، اس کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔ یہ کون ہے ؟ کچھ معلوم نہیں۔ نیز اس سند میں ابوالقاسم بزاز کی واضح توثیق درکار ہے۔ نامعلوم افراد کی باتوں کی دین میں کیا حیثیت ہے ؟
جس کتاب میں یہ روایت مذکور ہے، اہل علم نے شطنوفی کی اس کتاب کے بارے میں بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے، بلکہ اسے خرافات کا مجموعہ قرار دیا ہے، جیسا کہ :
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جمع الشيخ نور الدين الشطنوفي المقري كتابا حافلا في سيرته وأخباره في ثلاث مجلدات، أتى فيه بالبرة وأذن الجرة، وبالصحيح والواهي والمكذوب، فإنه كتب فيه حكايات عن قوم لا صدق لهم.
شیخ نور الدین شطنوفی نے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی سیرت اور حالات کے بارے میں تین جلدوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی ہے، جس میں اس نے اچھی، بری، صحیح، کمزور اور جھوٹی ہر طرح کی باتیں ذکر کی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اس نے ایسے راویوں سے حکایات نقل کیں جو ہرگز سچے نہیں تھے۔ “ (تاريخ الإسلام:252/12)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قال الكمال جعفر : وذكر فيھا غرائب وعجائب، وطعن الناس في كثير من حكاياته، ومن أسانيده فيھا.
’’ کمال جعفر نے کہا ہے کہ شطنوفی نے اس کتاب میں منکر اور عجیب و غریب حکایات ذکر کی ہیں۔ اہل علم نے اس کی بہت سی حکایات اور بہت سی سندوں پر طعن کیا ہے۔ “ (الدرر الكامنة:141/3)
❀ حافظ ابن رجب لکھتے ہیں :
ولكن قد جمع المقرئ أبو الحسن الشطنوفي المصري، في أخبار الشيخ عبد القادر ومناقبه ثلاث مجلدات، وكَتَبَ فيها الطم والرم، وكفى بالمرء كذباً أن يحدث بكل ما سمع. وقد رأيتُ بعض هذا الكتاب، ولا يطيب على قلبي أن أعتمد على شيء مما فيه، فأنقل منه إلا ما كان مشهوراً معروفاً من غير هذا الكتاب، وذلك لكثرة ما فيه من الرواية عن المجهولين، وفيه،من الشطح، والطامات، والدعاوى، والكلام الباطل، ما لا يحصى، ولا يليق نسبة مثل ذلك إلى الشيخ عبدالقادر رحمه الله، ثم وجدت الكمال جعفر الأدفوني، قد ذكر أن الشطنوفي نفسه كان متهماً فيما يحكيه في هذا الكتاب بعينه.
’’ مقری ابوالحسن شطنوفی مصری نے شیخ عبدالقادر رحمہ اللہ کے فضائل و مناقب میں تین جلدوں پر مشتمل کتاب لکھی ہے اور اس میں ہر جھوٹی سچی بات لکھ ماری ہے۔ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہوتا ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو ( بغیر تحقیق ) آگے بیان کر دے۔ میں نے اس کتاب کا کچھ حصہ دیکھا ہے۔ مجھے اس میں سے کسی بھی بات پر اعتماد کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ میں اس سے صرف وہ مشہور و معروف چیزیں نقل کروں گا جو اس کتاب کے علاوہ دوسری کتب میں مذکور ہوں گی۔ اس کتاب میں مجہول راویوں کی کثرت ہے۔ اس میں بےتکی باتوں کی بھرمار ہے، نیز یہ جھوٹ طوفان، بلند بانگ دعووں اور باطل باتوں سے اٹی پڑی ہے۔ شیخ عبدالقادر رحمہ اللہ کی طرف اس کتاب کی نسبت جائز ہی نہیں۔ پھر میں نے کمال جعفر ادفوی کی یہ بات بھی پڑھی ہے کہ اس کتاب میں جو کچھ مذکور ہے، یہ خود شطنوفی کی گھڑنت ہے۔ “(ذيل طبقار للحنابلة:194،195/2)
قارئین کرام ! آپ نے نماز غوثیہ کے متعلق جان لیا ہے۔ جس کتاب سے اس کا ثبوت فراہم کیا گیا ہے، اس کے متعلق بھی جان کاری کر لی ہے۔ جو لوگ اس نماز کو دین قرار دیتے ہیں، وہ کتنے بےباک ہیں ؟ رسول اکرم کا فرمان ہے : من عمل عملا ليس عليه أمرنا، فھورد. ’’ جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا، جس پر ہماری مہر نہیں، وہ مردود و باطل ہے۔ “ (صحيح مسلم:77/2، ح:1718)
❀ حافظ ابن رجب فرماتے ہیں :
هذا الحديث أصل عظيم من أصول الإسلام، وهو كالميزان للأعمال في ظاهرها، كما أن حديث إنما الأعمال بالنيات ميزان للأعمال في باطنها، فكما أن كل عمل لا يُراد به وجه الله تعالى، فليس لعامله فيه ثواب، فكذلك كل عمل لا يكون عليه أمر الله ورسوله، فهو مردود على عامله، وكل من أحدث في الدين ما لم يأذن به الله ورسوله، فليس من الدين في شيء.
’’ یہ حدیث اسلام کے اصولوں میں سے ایک بہت بڑا اصول ہے۔ یہ اعمال کے لیے ظاہری طور پر ایسی ہی کسوٹی ہے، جیسے اعمال کے لیے باطنی طور پر یہ حدیث کسوٹی ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ جس طرح ہر وہ عمل جس کا مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا نہ ہو، کرنے والے کے لیے باعث ثواب نہیں ہوتا، اسی طرح ہر وہ عمل جس پر اللہ و رسول کی مہر نہ ہو، وہ مردود ہے۔ جس نے بھی دین میں ایسی چیز ایجاد کی، جس کی اجازت اللہ و رسول نے نہیں دی، اس کی دین میں کوئی حیثیت نہیں۔ “ (جامع العلوم والحكم، ص:8)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إن تصرفات العباد من الأقوال والأفعال نوعان، عبادات يصلح بها دينهم، وعادات يحتاجون إليها في دنياھم . فباستقراء أصول الشريعة نعلم أن العبادات التي أوجبها الله أو أحبها، لا يثبت الأمر بها إلا بالشرع.
’’ بندوں کے اقوال و افعال کی دو قسمیں ہیں ؛ ایک وہ جن سے ان کا دین درست ہوتا ہے اور دوسرے وہ جن کے وہ اپنی دنیاوی زندگی میں محتاج ہیں۔ شریعت کے اصولوں کے گہرے مطالعے سے ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ جو عبادات اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہیں یا انہیں مستحب ٹھہرایا ہے، ان کا معاملہ صرف شریعت ہی سے ثابت ہو سکتا ہے۔ “ (القواعد النورانية،ص78،79)
اپنی طرف سے نماز گھڑ کر بزرگوں کے وسیلے پر دلیل پیش کرنا، دین نہیں، بلکہ ایجاد دین ہے۔