نماز عید کا وقت سورج کے نیزے کے برابر بلند ہونے سے ڈھلنے تک ہے
➊ حضرت عبد الله بن بسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
أنه خرج مع الناس يوم عيد فطر أو أضحى فأنكر إبطاء الإمام وقال إنا كنا قد فرغنا ساعتنا هذه وذلك من التسبيح
”وہ لوگوں کے ساتھ عید الفطر یا عید الاضحیٰ کے دن نکلے تو انہیں امام کے تاخیر کر دینے پر نہایت تعجب ہوا اور انہوں نے کہا کہ بے شک ہم تو اس وقت (نماز پڑھ کے ) فارغ ہو چکے ہوتے تھے اور وہ نماز چاشت کا وقت تھا۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 1040 ، كتاب الصلاة: باب وقت الخروج إلى العيد ، إرواء الغليل: 101/3 ، أبو داود: 1135 ، ابن ماجة: 1317 ، بخارى تعليقا: 968 ، تمام المنة: ص/348 ، التعليقات المرضية على الروضة الندية: 387/1]
➋ حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان النبى صلى الله عليه وسلم يصلى بنا يوم الفطر والشمس على قيد رمحين والأضحى على قيد رمح
”نبي صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اس وقت پڑھتے تھے جب سورج دو نیزوں کے برابر بلند ہو جاتا اور عید الا ضحیٰ اس وقت پڑھتے جب سورج ایک نیزے کے برابر ہوتا ۔“
[ضعيف: تلخيص الحبير: 167/2 ، اس كي سند ميں معلٰي بن حلال راوي كذاب هے اس ليے يه حديث ضعيف هے جيسا كه شيخ البانيؒ نے يه وضاحت كي هے۔ التعليقات الرضية على الروضة الندية: 386/1 ، تمام المنة: ص/ 347]
(شوکانیؒ ) نماز عیدین کے وقت کی تعیین میں سب سے اچھی وارد شدہ حدیث حدیثِ جندب رضی اللہ عنہ ہے ۔
[نيل الأوطار: 592/2]
امام شافعیؒ نے مرسلا روایت کیا ہے کہ :
ان النبى صلى الله عليه وسلم كتب إلى عمرو بن حزم وهو بنجران أن عجل الأضحى وأخر الفطر
”نبي صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی طرف جو کہ نجران میں تھے خط لکھا کہ عید الاضحیٰ جلدی پڑھا کرو اور عید الفطر کچھ تاخیر سے پڑھا کرو۔“
[بدائع المنن: 272/1 – 173 ، 490 ، اس كي سند ميں ابراهيم بن محمد شيخ الشافعي ضعيف هے۔ الروضة الندية: 365/1]
اگرچہ ان احادیث میں ضعف ہے لیکن ان سے ماخوذ مسائل پر اتفاق ہے۔
[تفصيل كے ليے ملاحظه هو: فتح الباري: 357/2 ، الموعظة الحسنة: 43 – 44 ، زاد المعاد: 442/1 ، موسوعة الإجماع فى الفقه الإسلامي: 654/2]
نماز عیدین کا آخری وقت زوال آفتاب ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زوالِ آفتاب کے بعد چاند نظر آنے کی اطلاع ملنے پر کہا کہ ”کل صبح لوگ نماز عید کے لیے عید گاہ پہنچیں ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 1026 ، أبو داود: 1157]
اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
[تفصيل كے ليے ملاحظه هو: البحر الزخار: 5532 ، نيل الأوطار: 592/2 ، الروضة الندية: 365/1]