نماز عید کا حکم
تمہید
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز عید کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ یہ فرض عین ہے، یعنی ہر مسلمان مرد پر اس کا ادا کرنا ضروری ہے اور اسے ترک کرنا جائز نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کے متعلق واضح طور پر حکم دیا ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو پردے میں رہنے والی خواتین کو بھی عید کی نماز کے لیے باہر آنے کا حکم دیا، اور حائضہ عورتوں کو بھی (عید کی دعا میں شرکت کے لیے) آنے کا ارشاد فرمایا، تاہم وہ نماز پڑھنے والوں سے الگ رہیں گی۔
عید کی نماز کی تاکید
ان دلائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ عید کی نماز کو انتہائی تاکید کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ میری رائے کے مطابق یہ نماز فرض عین ہے اور یہی قول راجح اور قوی ہے، اسی کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اختیار فرمایا ہے۔
نماز عید کی قضا کا حکم
یہ نماز نماز جمعہ کی طرح ہے کہ اگر فوت ہو جائے تو اس کی قضا نہیں کی جائے گی، کیونکہ اس بارے میں کسی صحیح دلیل کا وجود نہیں۔ نیز اس کے بدلے میں کوئی دوسری نماز بھی فرض نہیں، جبکہ نماز جمعہ اگر فوت ہو جائے تو اس کے وقت میں نماز ظہر کی ادائیگی واجب ہوتی ہے، کیونکہ وہ وقت ظہر کا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف نماز عید کے فوت ہو جانے کی صورت میں اس کی قضا مشروع نہیں۔
عمومی نصیحت
میرے مسلمان بھائیو! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس عظیم نماز کو قائم کرو، جو خیر اور دعا پر مشتمل ہے۔ یہ موقع نہ صرف اللہ کی عبادت کا ہوتا ہے بلکہ لوگوں سے ملاقات، میل جول، محبت اور الفت پیدا کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔
افسوس کہ جب کسی لہو و لعب والے اجتماع کی دعوت دی جاتی ہے تو لوگ ذوق و شوق سے اس میں شریک ہوتے ہیں، لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر مبنی اس نماز کی بات آتی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر و ثواب کا باعث ہے، تو سستی اور غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
عورتوں کے لیے خصوصی ہدایات
عورتوں کے لیے بھی لازم ہے کہ جب وہ عید کی نماز کے لیے آئیں تو:
❀ مردوں سے دور کسی کنارے میں کھڑی ہوں۔
❀ خوشبو، زیب و زینت یا حسن و جمال کے اظہار سے اجتناب کریں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عورتوں کو عید کے لیے نکلنے کا حکم دیا تو انہوں نے عرض کیا:
"یا رسول اللہ! اگر ہم میں سے کسی کے پاس اوڑھنی نہ ہو تو وہ کیا کرے؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لِتُلْبِسْہَا اُخْتُہَا مِنْ جِلْبَابِہَا))
(صحیح البخاري، الحیض، باب شہود الحائض العیدین ودعوۃ المسلمین… ح: ۳۲۴ وصحیح مسلم، صلاة المعیدین، باب ذکر اباحة خروج النساء فی العیدین، ح: ۸۹۰ (۱۲) واللفظ لہ۔)
’’اس کی بہن اسے اپنی اوڑھنی پہنا دے۔‘‘
یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عورت کو پردے کے مکمل اہتمام کے ساتھ عیدگاہ جانا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ عورت مقدور بھر پردہ کر کے چلی جائے، بلکہ فرمایا کہ وہ اپنی بہن کا جلباب اوڑھ کر جائے۔
عورتوں کو خطبہ دینا
نماز عید پڑھانے والے امام کے لیے ضروری ہے کہ اگر عورتوں نے مردوں کا خطبہ نہ سنا ہو تو وہ خواتین کو الگ خطبہ دے۔ اگر عورتوں نے مردوں کا خطبہ سن لیا ہو تو وہی ان کے لیے کافی ہے۔ البتہ بہتر یہی ہے کہ خطبے کے آخر میں عورتوں کے متعلق خصوصی احکام بیان کیے جائیں اور انہیں وعظ و نصیحت کی جائے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے موقع پر مردوں سے خطاب کے بعد عورتوں کی طرف متوجہ ہو کر انہیں بھی نصیحت فرمائی تھی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب