نماز عیدین کا وجوب اور اس کے دلائل
تحریر: عمران ایوب لاہوری

نماز عیدین کا حکم

نماز عیدین ہر مکلّف شخص پر واجب ہے۔
➊ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
امرنا أن نخرج العوائق والحيض فى العيدين يشهدن الخير ودعوة المسلمين و تعتزل الحيض المصلي
”ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم جوان لڑکیوں اور حائضہ عورتوں کو بھی عیدین میں ساتھ لے کر نکلیں تا کہ وہ بھی مسلمانوں کے امور خیر اور دعاؤں میں شریک ہوں البتہ حائضہ عورتیں عید گاہ سے الگ رہیں (یعنی نماز ادا نہ کریں) ۔
[بخاري: 981 ، كتاب الجمعة: باب اعتزال الحيض المصلى ، مسلم: 890 ، أبو داود: 1136 ، ترمذي: 537 ، نسائي: 180/3 ، ابن ماجة: 1308 ، أحمد: 84/5 ، بيهقي: 305/3]
➋ صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں :
أمرنا نبينا أن نخرج
”ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم (ان خواتین کو ) نکالیں۔“
[بخاري: 974]
➌ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا جب ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو اور اس وجہ سے وہ (نماز عید کے لیے ) نہ جا سکے تو کیا اس پر کوئی حرج ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لتلبسها صاحبتها من جلبابها فليشهدن الخير ودعوة المسلمين
”اس کی سہیلی اپنی چادر کا ایک حصہ اسے اوڑھا دے اور پھر وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں ۔“
[بخاري: 980 ، كتاب العيدين: باب إذا لم يكن لها جلباب فى العيد]
➍ کچھ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر گذشتہ روز چاند دیکھنے کی شہادت دی تو :
فأمرهم أن يفطروا وإذا أصبحوا أن يغدو إلى مصلاهم
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ روزہ کھول دیں اور جب صبح ہوتو وہ عید گاہ کی طرف جائیں ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 1026 ، كتاب الصلاة: باب إذا لم يخرج الإمام للعيد من يومه يخرج من الغد ، أبو داود: 1157 ، أحمد: 85/5 ، نسائي: 1557 ، ابن ماجة: 1653 ، إرواء الغليل: 634]
جب حائضہ اور بغیر چادر والی معذور خواتین کو عید گاہ میں حاضر ہونے کا حکم ہے تو مردوں کو بالا ولی حکم ہے۔
بعض حضرات نے اس آیت فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ سے نماز عید مراد لی ہے لیکن یہ بات راج نہیں کیونکہ یہ سورت مکی ہے اور نماز عید مدینہ میں مشروع ہوئی۔
[فتح البيان: 563/7 ، أحكام القرآن لابن العربي: 1986/4]
(شوکانیؒ) نماز عید واجب ہے۔
[السيل الجرار: 315/1]
(امیر صنعانیؒ ) نماز عید فرض عین ہے۔
[سبل السلام: 677/2]
(صدیق حسن خانؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[الروضة الندية: 358/1]
(البانیؒ) حق بات یہی ہے کہ نماز عید واجب ہے۔
[تمام المنة: ص/344]
اس مسئلہ میں فقہاء نے کچھ اختلاف کیا ہے۔
(احمدؒ) نماز عید فرض کفایہ ہے۔
(ابو حنیفہؒ) نماز عیدین صرف اسی پر واجب ہے جس پر جمعہ واجب ہے۔
(مالکؒ ، شافعیؒ) یہ نماز سنت موکدہ ہے۔
[المغنى: 367/2 ، كشاف القناع: 55/2 ، فتح القدير: 422/1 ، الدر المختار: 774/1 ، تبيين الحقائق: 223/1 ، مراقي الفلاح: ص/ 89 ، الشرح الصغير: 523/1 ، القوانين الفقهية: ص/ 85 ، مغني المحتاج: 310/1 ، المهذب: 118/1]
(راجح) یہ نماز ہر مکلّف شخص پر فرض عین ہے اور اس کے دلائل پیچھے بیان کیے جاچکے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
ان النبى صلى الله عليه وسلم صلى يوم العيد ركعتين لم يصل قبلهما ولا بعدهما
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے روز دو رکعت نماز پڑھائی جبکہ ان دو رکعتوں سے پہلے اور بعد میں کوئی نماز نہیں پڑھی۔“
[بخاري: 989 ، كتاب الجمعة: باب الصلاة قبل العيد وبعدها ، مسلم: 884 ، أبو داود: 1159 ، ترمذي: 537 ، ابن ماجة: 1291 ، نسائي: 193/3 ، أحمد: 355/1 ، ابن خزيمة: 345/2 ، بيهقى: 295/3]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز عید دو رکعت مسنون ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1