نماز عصر کو موخر کر کے پڑھنا درست نہیں، اول وقت میں ادا کرنا
وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ مَن كَانَ يُصَلِّى الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ حَيَّةٌ فَيَذْهَبُ النَّاهِبُ إِلَى الْعَوَالِي، فَيَأْتِي الْعَوَالِيَّ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھا کرتے تھے جبکہ سورج بلند اور زندہ ہوتا اور جانے والا عوالی مدینہ جاتا اور عوالی مدینہ پہنچ جاتا اور سورج ابھی بلند ہی ہوتا ۔ “
تحقيق و تخریج :
البخاری : 550 ، مسلم : 621
فوائد :
➊ نماز عصر کو موخر کر کے پڑھنا درست نہیں ہے اول وقت میں ادا کرنے کو اہل علم نے اختیار کیا ہے ۔
➋ نماز عصر کو صلوٰۃ وسطی کہا جاتا ہے جس کے فوت ہو جانے سے گویا کہ آدمی کاسب کچھ تباہ ہو جاتا ہے خاص مصروفیت یا مجبوری کے پیش نظر نماز عصر سورج کے زرد ہو جانے کے وقت بھی اداکی جا سکتی ہے لیکن یہ مختار وقت نہ ہو گا ۔
➌ سورج بے جان ہونے کے باوجود اپنے اندر روشنی کا اتار چڑھاؤ رکھتا ہے اپنے مدار میں چلتے ہوئے دھیمی کرنوں کو بھی چھوڑتا ہے کبھی مکمل تمازت سے چہرہ دکھاتا ہے اور کبھی مسکین مسافر کی طرح خاموشی سے ڈھلنے کی طرف رواں ہوتا ہے اور ہر نئی صبح اللہ سے اجازت مانگ کر دوبارہ طلوع ہوتا ہے ۔ سورج اوقات کی نشان دہی کرتا ہے ۔ قدیم زمانہ سے اس کو دیکھا جا رہا ہے اپنی ڈیوٹی میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا قدیم باشندے سورج کی تمازت اور سائے سے اور شکل سے وقت کا اندازہ لگایا کرتے تھے ۔ سورج کی روزانہ کی زندگی میں ہماری سالوں بھری زندگی کے لیے اسباق ہیں ان میں ایک واضح سبق یہ ہے کہ جیسے دن کا سورج شام کو آخر غروب ہو جاتا ہے اسی طرح انسان کی زندگی کا خاموش سورج ایک دن غروب جائے گا ۔
➍ دیہاتوں ، بستیوں سے شہروں کی طرف آنا جانا تجارت کرنا اشیائے ضروریات شہروں میں دینے یا لینے جانا شرعاً درست ہے ۔ اسی طرح دور سے چل کر شہروں کی تعلیم گاہوں میں پڑھنا بھی جائز ہے ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: