نماز ظہر و عصر کے اوقات کے تعین کا مسئلہ
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 02

سوال

زید اور عمرو کے درمیان نماز ظہر و عصر کے اوقات کے بارے میں اختلاف ہے۔ زید کہتا ہے کہ لکڑی کا سایہ دوپہر کے وقت شمال کی طرف ہوتا ہے اور اس سایہ کو شمار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ لکڑی کا سایہ مشرق کی طرف بڑھتے وقت جب لکڑی کے برابر ہو جائے تو ظہر کا وقت ختم ہو کر عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ جبکہ عمرو کا کہنا ہے کہ جب لکڑی کا سایہ زوال کے بعد بڑھنا شروع ہو اور لکڑی کے برابر ہو جائے تو ظہر کا وقت ختم ہوتا ہے۔ عمرو مزید کہتا ہے کہ زوال کا وقت آج کل دوپہر 12:30 کے بعد شروع ہوتا ہے اور عصر کا وقت تقریباً پونے چار بجے شروع ہوتا ہے۔ اب علماء اہل حدیث سے دریافت ہے کہ ان دونوں میں سے کون سا قول صحیح ہے؟

جواب

زید کا قول درست نہیں ہے، اور عمرو کا قول حدیث اور علماء کے اجماع کے مطابق درست ہے۔ نماز ظہر کا وقت اس وقت ختم ہوتا ہے جب سایہ اصلی کے علاوہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو جاتا ہے، اور اس کے بعد نماز عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔

علماء نے نماز ظہر اور عصر کے اوقات کے بارے میں کئی احادیث اور فقہی آراء پیش کی ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ:

➊ وقت ظہر کا اختتام اس وقت ہوتا ہے جب ہر چیز کا سایہ اصلی کے سوا اس کے برابر ہو جائے۔
➋ وقت عصر کا آغاز اسی وقت سے ہوتا ہے جب سایہ اصلی کو نکال کر ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو جائے۔

حدیث کی روشنی میں:

ابو داؤد میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا اندازہ گرمیوں میں تین قدم سے پانچ قدم اور سردیوں میں پانچ قدم سے سات قدم تک ہوتا تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فئی زوال (زوال کے وقت کا سایہ) کا اعتبار کرنا ضروری ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں لکھا ہے:

متی خرج وقت الظہر عصیر ظل الشیئی مثله غیر الظل الذی یکون عند الزوال

’’یعنی جب ہر چیز کا سایہ (سایہ اصلی کے علاوہ) اس کے برابر ہو جائے تو ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور عصر کا وقت داخل ہوتا ہے۔‘‘

مختلف فقہی آراء:

➊ فقہ حنفیہ کے مطابق، جب سایہ اصلی کو نکال کر ایک مثل سایہ ہو جائے تو ظہر کا وقت ختم ہوتا ہے اور عصر کا وقت شروع ہوتا ہے۔
➋ فقہ شافعیہ کے مطابق بھی، ظہر کا وقت اس وقت ختم ہوتا ہے جب سایہ اصلی کے علاوہ سایہ ایک مثل ہو جائے۔
➌ فقہ مالکیہ اور فقہ حنبلیہ میں بھی یہی موقف ہے کہ ظہر کا وقت ایک مثل سایہ ہونے تک رہتا ہے اور اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہوتا ہے۔

فئی زوال (سایہ اصلی) کو نکالنا:

فقہاء نے فئی زوال کو نکالنے کا طریقہ بیان کیا ہے کہ زمین پر ایک سیدھی لکڑی گاڑھ دی جائے اور جب زوال کے وقت لکڑی کا سایہ سب سے کم ہو جائے اور دوبارہ بڑھنا شروع ہو، تو وہ سایہ فئی زوال کہلائے گا۔ اس کے بعد جب سایہ ایک مثل ہو جائے تو ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔

خلاصہ:

زید کا قول درست نہیں ہے کیونکہ اس نے سایہ کے درست حساب کا اعتبار نہیں کیا۔ عمرو کا قول حدیث اور علماء کی متفقہ آراء کے مطابق درست ہے، یعنی زوال کے بعد جب سایہ لکڑی کے برابر ہو جائے تو ظہر کا وقت ختم ہو کر عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔

واللہ اعلم

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے