نماز جنازہ کا مکمل طریقہ صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب ہدیۃ المسلمین نماز کے اہم مسائل مع مکمل نماز نبویﷺ سے ماخوذ ہے۔

نماز جنازہ کا طریقہ

عن طلحه بن عبد الله بن عوف قال: صليت خلف ابن عباس على جنازه فقرأ بفاتحه الكتاب وسوره وقال: لتعلموا انها سنه [وحق]
طلحہ بن عبد اللہ بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی، پس انہوں نے سورہ فاتحہ( اور ایک سورہ بلند آواز سے) پڑھی اور فرمایا: (میں نے اس لیے جہراً سے پڑھی ہے کہ) تم جان لو کہ یہ سنت (اور حق) ہے۔“ [صحیح البخاری: 178/1 ح 1335]
ترجمے میں پہلی بریکٹ کے الفاظ نسائی (281/1 ح 1989) اور دوسری کے منتقی ابن الجارود (ص:188 ح 534، 536 ) کے ہیں، آخری بریکٹ کے الفاظ نسائی اور ابن الجارود کے ہیں۔
فوائد
اس حدیث سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے، لا صلوة لمن لم يقرأ بفاتحه الكتاب کا عموم بھی اس کا مؤید ہے۔ [صحیح بخاری: 756]
(2)مروجہ سبحانك اللهم الخ وفيه : وجل ثناءك اور مروجہ درود: رحمت وترحمت کا کتاب وسنت سے کوئی ثبوت نہیں ہے۔
(3)اگر صحابی من السنه وغیرہ کے الفاظ کہے تو اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہوتی ہے، دیکھیے صحیح البخاری: 785/2 ح 5213، وصحیح مسلم: 472/1 ح 461 وغیرہ، یہی بات اصول حدیث میں لکھی ہوئی ہے، محمد بن ابراہیم الی الحنفی نے ”قفوال اثر فی صفو علوم الاثر“ (ص 94) میں کہا:
واما قول الصحابي: من السنه، ذكرا قولا او فعلا فله حكم الرفع عند الاكثر وهو مذهب عامه المتقدمين من اصحابنا ومختار صاحب البدائع من متاخريهم
اور صحابی کا قول ”من السنه“ چاہے قول سے متعلق ہو یا فعل سے، اکثر کے نزدیک مرفوع کے حکم میں ہے اور یہی مسلک ہمارے عام متقدمین کا ہے اور اسے ہی بدائع الصنائع کے مصنف (ملاکسانی) نے اختیار کیا ہے جو کہ متاخرین میں سے ہیں۔
(4)جنازہ میں قراءت وغیرہ جہراً بھی جائز ہے جیسا کہ صحیح البخاری وسنن النسائی سے ظاہر ہے اور سراً بھی جیسا کہ ابو امامہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کی حدیث میں ہے۔ [دیکھیے فائدہ نمبر 6]
(5)نماز جنازہ کی تکبیروں میں رفع یدین کرنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ سے ثابت ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه : 296/3 ح 11380]
(6)ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
السنه فى الصلوة على الجنازه ان تكبر ثم تقرأ بام القرآن ثم تصلي على النبى صلى الله عليه وسلم ثم تخلص الدعاء للميت ولا تقرأ الا فى التحكيمه الاولي ثم تسلم فى نفسه عن يمينه
نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ تم تکبیر کہو پھر سورہ فاتحہ پڑھو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھو، پھر خاص طور پر میت کے لیے دعا کرو، قراءت صرف پہلی تکبیر میں کرو، پھر اپنے دل میں دائیں طرف سلام پھیر دو۔ [منتقی ابن الجارود ص 189 ح 540، مصنف عبد الرزاق: 488/3، 489 ح 6428]
اس کی سند صحیح ہے۔ [ارواء الغلیل:ج 3 ص 181]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ قطعاً ثابت نہیں ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر جنازہ ہو جاتا ہے یا انہوں نے سورہ فاتحہ کے بغیر جنازہ پڑھا ہو۔ نماز جنازہ میں وہی درود پڑھنا چاہیے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے (یعنی نماز والا) ”رحمت وترحمت“ والا۔ خود ساختہ درود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1