نماز جنازہ میں سورۃ الفاتحہ کی قراءت پر حدیث ابن عباسؓ
یہ اقتباس ڈاکٹر حافظ ابو یحییٰ نورپوری کی کتاب نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ فرض*مستحب* یا مکروہ تحریمی* سے ماخوذ ہے۔

نماز جنازہ کا نبوی طریقہ
حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

طلحہ بن عبد اللہ بن عوف تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
صليت خلف ابن عباس – رضي الله عنهما ـ على جنازة، فقرأ بفاتحة الكتاب، قال : [ليعلموا أنها سنة ]
میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اقتدا میں ایک نماز جنازہ ادا کی ۔ آپ نے سورہ فاتحہ کی قراءت کی۔ ( جب پوچھا گیا کہ ایسا کیوں کیا ہے تو ) فرمایا : اس لیے تاکہ لوگ جان لیں کہ یہ سنت ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ) ہے۔
(صحيح البخاري : 1335)
اس حدیث میں واضح طور پر صحابی رسول سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کو سنت نبوی قرار دیا ہے۔

فقہائے کرام اور حدیث عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

آئیے اب اس حدیث پر فقہائے کرام کی فقہی آراء ملاحظہ فرمائیں کہ وہ اس حدیث سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کا استنباط کرتے ہیں یا نہیں؟
① امام بخاری رحمہ اللہ (256 ھ ) کی اس حدیث پر تبویب یوں ہے :
باب قرائة فاتحة الكتاب على الجنازة .
نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کا بیان۔
② امام ترمذی رحمہ اللہ ( 279 ھ ) اس حدیث کو ذکر کرنے سے پہلے فرماتے ہیں:
باب ما جاء فى القرائة على الجنازة بفاتحة الكتاب
ان روایات کا بیان جو نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے بارے میں ہیں۔ (جامع الترمذي، تحت الحديث : 1027)
③ امام ابوداود رحمہ اللہ (275ھ ) حدیث ابن عباس پر باب بندی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
باب ما يقرأ على الجنازة.
اس چیز کا بیان جس کی نماز جنازہ میں قراءت کی جاتی ہے۔ (سنن أبي داود : 3198)
④ امام ابن منذر رحمہ اللہ (319ھ ) اس حدیث کو ذکر کرنے سے پہلے یوں باب باندھتے ہیں :
ذكر قرائة فاتحة الكتاب فى الصلاة على الجنازة بعد التكبيرة الأولى.
نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ کی قراءت کرنے کا بیان۔
✿ پھر اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
يقرأ بعد التكبيرة الأولى بفاتحة الكتاب، وإن قرأ بفاتحة الكتاب وسورة قصيرة؛ فحسن .
(نماز جنازہ میں) پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ کی قراءت کی جائے گی۔ اگر کوئی فاتحہ کے ساتھ ایک چھوٹی سورت کی بھی قراءت کرے تو اچھا ہے۔ (الأوسط : 436/5-440)
⑤ امام دارقطنی رحمہ اللہ (385ھ) کچھ احادیث، جن میں مذکورہ حدیث بھی شامل ہے، پر یوں باب باندھتے ہیں :
باب : التسليم فى الجنازة واحد، والتكبير أربعا وخمسا، وقرائة الفاتحة
اس چیز کا بیان کہ نماز جنازہ میں سلام ایک ہے، تکبیریں چار اور پانچ ہیں، نیز سورہ فاتحہ کی قراءت بھی ہے۔ (سنن الدارقطني : 72/2)
⑥ امام بیہقی رحمہ اللہ (458 ھ ) نے اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے :
باب القرائة فى صـلاة الجنازة
نماز جنازہ میں قراءت کا بیان (السنن الكبرى للبيهقي : 38/4)
✿ امام بیہقی رحمہ اللہ ایک مقام پر یوں رقمطراز ہیں :
راءة الفاتحة فريضة فى صلاة الجنازة .
نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت فرض ہے۔ (الخــلافیات : 236/4)
⑦ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ (456ھ) لکھتے ہیں :
فإذا كبر الأولى قرأ أم القرآن، ولا بد.
(نماز جنازہ پڑھنے والا ) جب پہلی تکبیر کہے تو سورہ فاتحہ کی قراءت کرے، یہ فرض ہے۔ (المحلی : 129/3)
⑧ حافظ عبد الحق اشبیلی رحمہ اللہ (581ھ ) کی تبویب یوں ہے:
باب الصفوف على الجنازة والتكبير وقراءة أم القرآن .
نماز جنازہ میں صفیں بنانے تکبیر کہنے اور قراءت فاتحہ کا بیان۔ (الأحكام الشرعية الكبرى: 514/2)
⑨ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (597ھ ) تبویب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تجب قرائة الفاتحة فى صلاة الجنازة .
نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت واجب ہے۔ (التحقيق في أحاديث الخلاف : 14/2)
⑩ حافظ نووی رحمہ اللہ (676 ھ ) کی تبویب اس حدیث پر یہ ہے :
باب قرائة الفاتحة .
(نماز جنازہ میں ) سورہ فاتحہ کی قراءت کا بیان۔ (خلاصة الأحكام في مهمات السنن وقواعد الإسلام : 972/2)
⑪ علامہ صنعانی رحمہ اللہ (1182ھ) فرماتے ہیں:
الحديث دليل على وجوب قرائة الفاتحة فى صلاة الجنازة
یہ حدیث نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کے وجوب کی دلیل ہے۔ (سبل السلام : 487/1)

فقہاء کے استدلال پر اعتراضات کا جائزہ

ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ثابت ہو گیا ہے کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت طریقۂ نبوی اور فرض ہے۔ یہ بات فقہائے کرام کی زبانی بھی قارئین ملاحظہ فرما چکے ہیں، لیکن احناف کی طرف سے اس استدلال پر کئی اعتراضات کیے گئے ہیں۔
ان اعتراضات کا منصفانہ تجزیہ پیش خدمت ہے :

① اس حدیث سے فرضیت ثابت نہیں ہوتی !

علامہ ابن ترکمانی حنفی (750ھ ) لکھتے ہیں :
ثم إن الحديث لا يدل على الوجوب .
پھر یہ حدیث فرضیت پر تو دلالت ہی نہیں کرتی۔
(الجوهر النقي على سنن البيهقي : 38/4)
تجزیہ

● علامہ ابن ترکمانی حنفی کو شاید سنة کے لفظ سے یہ شبہ ہو گیا ہے کہ اس حدیث سے فرضیت ثابت نہیں ہوتی ، حالانکہ سنت سے یہاں مراد وہ اصطلاحی لفظ سنت نہیں جو فرض کے مقابلے میں بولا جاتا ہے، بلکہ یہاں طریقہ نبوی مراد ہے اور طریقہ نبوی کبھی امت کے لیے فرض کا درجہ رکھتا ہے کبھی نفل کا۔ یہ بات ہم اپنی طرف سے نہیں کر رہے، بلکہ اگر کتب حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو بات بالکل عیاں ہو جاتی ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور لفظ سنت

مثلاً سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نماز کے بارے میں فرماتے ہیں:
فإن الله شرع لنبيكم – صلى الله عليه وسلم – سنن الهدى، وإنهن من سنن الهدى، ولو أنكم صليتم فى بيوتكم كما يصلي هذا المتخلف فى بيته؛ لتركتم سنة نبيكم، ولو تركتم سنة نبيكم؛ لضللتم .
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے ہدایت کی سنن ( طریقے ) مقرر کی ہیں۔ نمازیں بھی ان سنن (طریقوں) میں سے ہیں۔ اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھو گے جیسے یہ پیچھے رہنے والا اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے تو تم اپنے نبی کے طریقے کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر تم اپنے نبی کے طریقے کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔(صحیح مسلم : 654)
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے اس فرمان میں فرض نمازوں کو سنن قرار دیا ہے، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ نا گمراہی کا سبب بتایا ہے۔ معلوم ہوا کہ سنت کا لفظ کبھی اس چیز کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جس پر عمل کرنا فرض اور ضروری ہوتا ہے، ترک عمل سے آدمی گمراہ ہو جاتا ہے۔ اس حدیث میں اگر چہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے لیے لفظ سنت استعمال ہوا ہے لیکن وہ فرض کے معنی میں ہے، کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب .
”جس شخص نے سورہ فاتحہ کی قراءت نہیں کی ، اس کی کوئی نماز نہیں۔“
(صحیح البخاری : 756، صحیح مسلم : 394)

امام شافعی رحمہ اللہ اور لفظ سنت

● ایسے لوگوں کا رد کرتے ہوئے ، جو سنت اور فرض کا فرق کر کے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت پر اعتراض کرنا چاہتے ہیں، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فإذا وجدنا لرسول الله صلى الله عليه وسلم سنة؛ اتبعناها، أرأيت لو قال قائل : أزيد فى التكبير على ما قلتم، لأنها ليست بفرض، أو لا أكبر وأدعو للميت؛ هل كانت لنا عليه حجة إلا أن نقول : قد خالفت السنة وكذلك الحجة على من قال : لا يقرأ، إلا أن يكون رجل لم تبلغه السنة فيها .
ہمیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت مل جائے تو ہم اس کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر کوئی ( آپ سے ) یہ بات کہے تو آپ کا کیا خیال ہو گا؟ میں تمہارے کہنے کے مطابق کچھ تکبیریں زائد کروں گا، کیونکہ وہ فرض نہیں ہیں یا میں تکبیر اور دُعا کروں گا ہی نہیں ( کیونکہ یہ چیزیں بھی سنت ہی تو ہیں) ۔ کیا اس شخص کے خلاف ہمارے پاس کوئی دلیل ہے ؟ ہاں ! ہم یہی کہیں گے کہ تو نے سنت کی مخالفت کی ہے؟ یہی (سنت کی مخالفت والی) دلیل اس شخص کو دے دی جائے گی جو کہے کہ نماز جنازہ میں قراءت نہیں کی جائے گی ( کیونکہ حدیث میں اس کے لیے سنت کا لفظ ہے، فرض کا نہیں)۔ اگر کسی شخص کو اس بارے میں سنت کا علم نہ ہو تو اور بات ہے۔
(كتاب الأم : 270/1)
یعنی اگر سورۂ فاتحہ کے لیے حدیث میں سنت کا لفظ ہونے کی وجہ سے اسے چھوڑا جائے تو پھر دوسری وہ چیزیں جن کو سنت سمجھا جاتا ہے، وہ بھی نماز جنازہ سے نکال دی جائیں۔ کیا حنفی بھائی ایسا کر سکتے ہیں؟
● ہم فصل سوم کے تحت حدیث ابو امامہ رضی اللہ عنہ پیش کریں گے۔ اس حدیث میں صحابی رسول سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے صراحتاً نماز جنازہ میں تکبیر تحریمہ، سورۂ فاتحہ، درود، دعا اور سلام سب چیزوں کو سنت قرار دیا ہے۔ کیا ہمارے حنفی بھائی اس حدیث کی بنا پر نماز جنازہ میں تکبیر تحریمہ، درود ، دعا اور سلام کی فرضیت سے بھی انکاری ہو جائیں گے ؟ اگر نہیں تو صرف سورہ فاتحہ کی قراءت کے بارے میں یہ مفروضہ کیوں؟

② سنت سے مراد سنت نبوی نہیں !

علامہ ابن ترکمانی حنفی (750ھ ) مزید لکھتے ہیں :
ولم يصرح أنها سنةه عليه السلام، فيحتمل أن ذلك رأيه، أو غيره من الصحابة، وهم مختلفون، فتعارضت آراؤهم
انہوں نے (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ) یہ صراحت نہیں کی کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، لہذا احتمال ہے کہ یہ ان کی اپنی رائے ہو یا کسی اور صحابی کی بجائے ہو۔ اس بارے میں صحابہ کرام کا اختلاف ہے اور ان کی آراء مختلف ہیں۔
(الجوهر النقي : 38/4-39)
تجزیہ
● محدثین کرام کے نزدیک یہ اصول مسلم ہے کہ جب صحابی لفظ سنت بولے تجزيه تو اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہی ہوتا ہے۔

فقہاء ومحدثین اور لفظ سنت

✿ امام بخاری رحمہ اللہ باب کے تحت مرفوع حدیث ہی ذکر کرتے ہیں، چنانچہ دیگر علمائے امت کی طرح امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ حدیث مرفوع حکمی ہے۔
✿ امام حاکم رحمہ اللہ ( 405 ھ ) اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وقد أجمعوا على أن قول الصحابي : سنة، حديث مسند .
اہل علم کا اجماع ہے کہ صحابی” سنت“ کہے، تو اس سے مراد مرفوع حدیث ہوتی ہے۔
(المستدرك على الصحيحين : 358/1، معرفة علوم الحديث، ص 23)
✿ امام بیہقی رحمہ اللہ ( 458 ھ ) فرماتے ہیں:
إني لا أعلم خلافا بين أهل النقل أن الصحابي إذا قال : من السنة كذا وكذا أنه يريد به سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويكون ذلك مسندا
میرے علم کے مطابق محدثین کے مابین اس میں کوئی اختلاف نہیں کی جب صحابي [ من السنة كذا وكذا] کہے، تو مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہوتی ہے، نیز یہ مرفوع حدیث ہوگی۔“
(الخلافيات : 110/2 ، 238/4،441/2)
✿ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463 ھ ) فرماتے ہیں:
لا يختلفون فى ذلك .
اہل علم کا اس میں اختلاف نہیں ( کہ صحابی کے ”سنت“ کہنے سے مرفوع حدیث مراد ہوتی ہے)۔
( التقصي لما في المؤطا من حديث النبي صلى الله عليه وسلّم : 161/1)
● خود علامه ابن ترکمانی حنفی ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں :
وأكثر علماء الحديث على أن الصحابي إذا قال : أمرنا بكذا، أو نهينا عن كذا ، أو من السنة كذا؛ فهو من قبيل المرفوع، وهو الصحيح عندهم
اکثر محدثین کا کہنا ہے کہ صحابی جب أمرنا بكذا نهينا عن كذا يا من السنة كذا تو یہ مرفوع (حدیث نبوی) کی ایک قسم ہوتی ہے۔ محدثین کے نزدیک یہی بات صحیح ہے۔
(الجوهر النقي : 303/1)

لفظ سنت اور علمائے احناف کا دوہرا معیار

● جب حنفی بھائیوں کے اپنے مطلب کی بات آتی ہے تو وہ صحابی کے سنت کہنے کو مرفوع حدیث ہی سمجھتے ہیں، جیسا کہ فقہ حنفی کی تقریباً تمام کتب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب یہ روایت موجود ہے کہ :
من السنة فى الصلاة وضع الأكف على الأكف تحت السرة
سنت یہ ہے کہ نماز میں ایک ہتھیلی کو دوسری ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔
حالانکہ اس بارے میں محدثین کا اتفاقی فیصلہ ہے کہ یہ ”ضعیف“ روایت ہے، جیسا کہ حافظ نووی رحمہ اللہ (676 ھ ) لکھتے ہیں :
اتفقوا على تضعيفه، لأنه من رواية عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي، منكر الحديث، مجمع على ضعفه .
محدثین کرام کا اس حدیث کو ضعیف قرار دینے پر اتفاق ہے، کیونکہ یہ عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی کی روایت کردہ ہے جو کہ منکر الحدیث ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر ائمہ کا اتفاق ہے۔
(خــــــــــــلاصة الأحكام في مهمات السنن وقواعد الإسلام : 359/1)
اس کے باوجود احناف اسے مرفوع حدیث قرار دے کر نقل کرتے ہیں لیکن صحیح بخاری ومسلم کی یہ صحیح حدیث، جس کی صحت پر امت کا اتفاق ہے،اس میں یہی سنت والے لفظ آئے ہیں تو اسے صحابی کی ذاتی رائے قرار دیا۔ یہ دوہرا معیار کیوں؟

احناف کے گھر کی گواہی

● علامہ ابن ترکمانی حنفی نے جب لفظ سنت سے سنت رسول مراد لینے پر اعتراض کیا تو مولانا ظفر احمد تھانوی صاحب (1394ھ) نے ان کے رد میں لکھا :
إن قول الصحابي : أمرنا بكذا، أو [نهينا عن كذا]، أو من السنة كذا، وما أشبهه كله مرفوع على الصحيح الذى قاله الجمهور، كما فى التدريب.
کسی صحابی کا أمرنا بكذا نهينا عن كذا يا من السنة كذا اور اس سے ملتے جلتے الفاظ کہنا سب مرفوع ( حدیث نبوی) ہے۔ صحیح مذہب یہی ہے، جمہور نے ایسے ہی کہا ہے، جیسا کہ ”تدریب الراوي“ میں مذکور ہے ۔
(إعلاء السنن : 2568/6)
لو! یہ اعتراض تو خود علامہ ابن ترکمانی حنفی صاحب کے اپنے گھر سے رفع ہو گیا۔

③ نماز جنازہ کو سنت کہا گیا ہے نہ کہ فاتحہ کو ؟

علامہ ابن ترکمانی حنفی ایک اور اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
حكى الماوردي عن بعض أصحابهم : إن فى قول ابن عباس هذا احتمالا؛ هل أراد أن يخبرهم بهذا القول أن القرائة سنة أو نفس الصلاة سنة
ماوردی نے ان (؟) کے کچھ اصحاب سے نقل کیا ہے : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس بیان میں احتمال ہے کہ انہوں نے اس قول میں قراءت کو سنت مراد لیا ہے یا خود نماز جنازہ کو سنت کہا ہے۔
(الجوهر النقي : 39/4)
تجزيہ
● کاش کہ علامہ ابن ترکمانی حنفی اس اعتراض کو نقل کرنے سے پہلے کتب حدیث پر ایک نظر ڈال لیتے !

حدیث کے الفاظ کا فیصلہ

ہم تین معتبر کتب حدیث سے صحیح سند کے ساتھ اسی حدیث کے الفاظ نقل کرتے ہیں اور فیصلہ قارئین کرام پر چھوڑتے ہیں کہ اس حدیث میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سنت نماز جنازہ کو کہا ہے یا نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کو ؟
✿ امام ابن جارود رحمہ اللہ (307ھ) نے اس حدیث کے یہ الفاظ ذکر کیے ہیں:
صليت خلف ابن عباس على جنازة، فقرأ فيها بفاتحة الكتاب، فأخذت بيده، فقلت : تقرأ بها؟ قال : إنها سنة وحق.
میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی ۔ آپ نے سورہ فاتحہ کی قراءت کی۔ میں نے آپ کا بازو تھام کر عرض کیا : کیا آپ (نماز جنازہ میں) سورۂ فاتحہ کی قراءت کرتے ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: بلاشبہ یہ سنت نبوی اور حق ہے۔
(المنتــقى من السنن المسندة : 534، وسنده صحيح)
✿ امام ابن حبان رحمہ اللہ (354ھ) نے ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت اپنی کتاب میں درج کی ہے :
شهدت ابن عباس صلى على جنازة، فقرأ بفاتحة الكتاب، فلما انصرف قلت له : أتقرأ بفاتحة الكتاب؟ قال : نعم، يا ابن أخي، سنة وحقا.
میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک جنازے میں حاضر ہوا۔ آپ نے سورہ فاتحہ کی قراءت کی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا : کیا آپ سورہ فاتحہ کی قراءت کرتے ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ہاں، میرے بھیجے ! یہ سنت اور حق ہے۔
(صحیح ابن حبان :3072 ، وسنده صحيح )
✿ امام حاکم رحمہ اللہ (405 ھ ) نے یہ الفاظ ذکر کیے ہیں :
صليت خلف ابن عباس على جنازة، فسمعته يقرأ بفاتحة الكتاب ، فلما انصرف أخذت بيده، فسألته، فقلت : أتقرأ؟ قال : نعم، إنه حق وسنة
میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اقتدا میں ایک نماز جنازہ ادا کی۔ میں نے آپ رضی اللہ عنہما کو سورہ فاتحہ کی قراءت کرتے سنا۔ جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے آپ کا بازو پکڑا اور سوالیہ انداز میں کہا: کیا آپ (نماز جنازہ میں) قراءت کرتے ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہاں ! یقینا یہ حق اور سنت ہے۔
(المستدرك على الصحيحين للحاكم : 510/1 ، وقال : بإسناد صحيح)
اب حنفی اور دیوبندی بھائی ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ کیا صحیح بخاری کی ایک بالکل صحیح حدیث کے خلاف حنفی علماء کی طرف سے کیے گئے یہ اعتراضات محض حدیث سے ناواقفیت کا شاخسانہ نہیں؟

محدثین وفقہائے کرام کا فیصلہ

● محدثین کرام اور فقہائے دین چونکہ ذخیرہ حدیث پر گہری نظر رکھتے تھے، لہذا انہوں نے اس حدیث سے بالا تفاق قراءت کو سنت کہنا ہی مراد لیا ہے۔ اس سلسلے میں ائمہ و فقہاء کے بہت سے اقوال اور تبویبات ہم ذکر کر آئے ہیں۔ چند اور حوالے پیش خدمت ہیں :
✿ امام شافعی رحمہ اللہ ( 204ھ ) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کو ذکر کرنے سے پہلے فرماتے ہیں :
يقرأ فى الأولى بأم القرآن … وقال بعض الناس : لا يقرأ فى الصلاة على الجنازة، إنا صلينا على الجنازة وعلمنا كيف سنة الصلاة فيها لرسول الله صلى الله عليه وسلم .
(نماز جنازہ میں) پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ کی قراءت کی جائے گی ۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت نہیں کی۔ جائے گی۔ ہم نماز جنازہ ادا کرتے رہے ہیں اور ہمیں یہ علم ہے کہ اس نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کیا ہے۔ (کتاب الأم : 270/1)
✿ امام ترمذی رحمہ اللہ (279 ھ ) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کا مفہوم یوں بیان کرتے ہیں :
والصحيح عن ابن عباس قوله : من السنة القرائة على الجنازة بفاتحة الكتاب .
صحیح بات سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ فرمان ہے : نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت سنت نبوی ہے۔
(جامع الترمذي، تحت الحديث : 1026 )
✿ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومن السنة قرائة فاتحة الكتاب .
نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت سنت ہے۔
(حجــة الله البالغة : 57/2)
✿ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ ) ابن عباس رضی اللہ عنہما کے لفظ سنت کہنے کا مطلب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
يعني : لتعلموا أن القرائة مأمور بها .
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مراد یہ تھی : تا کہ تم جان لو کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ) قراءت کا حکم دیا گیا ہے۔
(خلاصة الأحكام في مهمات السنن وقواعد الإسلام : 972/2)
✿ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ (804 ھ) نے بھی بالکل یہی فرمایا ہے۔
(البدر المنير في تخريج الأحاديث والآثار الواقعة في الشرح الكبير : 268/5)
معلوم ہوا کہ فقہائے کرام کے نزدیک بھی اس حدیث میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ فاتحہ کی قراءت کو ہی سنت کہا ہے۔

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

● علامہ ابن ترکمانی حنفی صاحب کا ذکر کردہ یہ اعتراض صرف احادیث رسول، محدثین کرام اور فقہائے دین کے مطابق ہی غلط نہیں ، بلکہ مولانا ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب (1394ھ) نے بھی ان کا رد کیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
إن إنكار طلحة بن عبيد الله على ابن عباس إنما يتأتى فى قرائة الفاتحة دون نفس الصلاة، فإن كون الصلاة على الميت سنة، بل فريضة، لا يجهله مثله .
طلحہ بن عبید اللہ کا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے استفسار صرف قراءت کے بارے میں تھا نہ کہ پوری نماز کے بارے میں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نماز جنازہ جو کہ سنت بلکہ فرض ہے، اس ( کی شرعی حیثیت) سے طلحہ بن عبید اللہ جیسا شخص ناواقف نہیں ہو سکتا تھا۔
(إعلاء السنن : 2568/6)
اب بھی اگر کوئی حنفی بھائی علامہ ابن ترکمانی حنفی کے اعتراضات کو کوئی علمی کاوش سمجھے اور ان کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث پر عمل کرنے سے گریز کرے تو یہ سراسر نا انصافی ہوگی۔

ایک لطیفہ انوار خورشید صاحب کی دوغلی پالیسی

بعض حنفی حضرات کی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے لفظ سنت کے بارے میں جناب انوار خورشید دیوبندی صاحب نے بھی اپنا حصہ ڈالنے کے لیے طبع آزمائی کی ، وہ لکھتے ہیں:
رہا حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا نماز جنازہ میں قراءت کو سنت قرار دینا تو اس سے سنت مصطلحہ ، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مراد نہیں ہے۔
پھر اس پر مزید لکھتے ہیں :
ذخیرہ حدیث میں کئی مقامات ایسے ملتے ہیں جہاں صحابہ کرام نے لفظ سنت استعمال کیا ہے لیکن وہاں اس سے سنت لغویہ مراد ہے سنت مصطلحہ مراد نہیں۔ ( حدیث اور اہلحدیث : ص874,873)
ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ ایسے کئی نہیں بلکہ صرف چند مقامات باسند صحیح پیش کر دیں جہاں صحابہ کرام نے سنت کا لفظ بول کر سنت لغویہ مراد لی ہو!
اتنی تمہید کے بعد اب آئیے اور صرف تین ورق اُلٹیے ۔ جب نماز جنازہ آہستہ آواز سے پڑھنے کے دلائل کی بات آئی تو یہی جناب انوار خورشید صاحب لکھتے ہیں :
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ میں آہستہ آواز سے قراءت کو سنت قرار دیا ہے، جیسا کہ حدیث نمبر ➊ سے واضح ہے۔ ( حدیث اور اہلحدیث ، ص : 880)
غور فرمائیں کہ نماز جنازہ کو آہستہ آواز سے سنت نبوی قرار دینے کے لیے صحابی رسول سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے بولا گیا وہی لفظ سنت جناب انوار صاحب نے اپنی دلیل بنا لیا ہے۔ یہاں صرف تین ورق لکھنے کے بعد ان کو شاید اپنے ہی یہ الفاظ بھول گئے تھے کہ :
ذخیرہ حدیث میں کئی مقامات ایسے ملتے ہیں جہاں صحابہ کرام نے لفظ سنت استعمال کیا ہے لیکن وہاں اس سے سنت لغو یہ مراد ہے، سنت مصطلحہ نہیں۔
اگر سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے یہاں بولے گئے لفظ سنت سے مراد سنت نبویہ ہے تو اسی حدیث میں سورہ فاتحہ کی قراءت کا بھی ذکر ہے۔ اسے سنت نبوی ماننے سے انوار صاحب اور دوسرے دیو بندی و حنفی حضرات کیوں گریزاں ہیں؟ اور اگر سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے بولے ہوئے اس لفظ سنت سے مراد سنت لغو یہ ہے تو اس سے نماز جنازہ کو آہستہ پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسے ثابت ہو گیا؟ نیز اگر اس حدیث میں لفظ سنت کو لے کر نماز جنازہ میں آواز آہستہ رکھنا ضروری قرار دیا جاتا ہے تو پھر اسی حدیث میں لفظ سنت کے ذریعے سورہ فاتحہ کی قراءت ضروری قرار کیوں نہیں دی جاتی ؟
؎ تیری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہی تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی !

④ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما پر” کشمیری“ الزام !

علامہ انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب (1353ھ ) کہتے ہیں :
وهذا من دأب ابن عباس أنه يطلق على بعض مختاراته لفظ السنة، كما فعله فى الإفعاء مع أن ابن عمر صرح بنقضه، وقال : إن الإفعاء ليس بسنة
ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی کچھ پسندیدہ باتوں کو سنت کہہ دیتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اقعاء کے معاملے میں کیا ہے (یعنی اقعاء کو سنت کہہ دیا ہے) ، حالانکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے صراحتاً اس کا رد کرتے ہوئے فرمایا : اقعاء سنت نہیں ہے۔ (فیض الباري : 474/2-475)
تجزیه
؎ کیا باغ کوئے یار ہے، سیر اس کی کیجیے !
آتش شگوفے پھوٹتے ہیں یاں نئے نئے !
ہم نے محدثین کرام کا اتفاق نقل کیا ہے کہ جب صحابی سنت کا لفظ بولے تو اس سے مراد مرفوع روایت، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہوتی ہے۔ پھر مولانا ظفر احمد تھانوی دیو بندی صاحب (1394ھ) نے بھی اس بات کا سختی سے رد کر دیا ہے لیکن تمام محدثین کرام اور حنفی محققین کے قول کے خلاف علامہ کشمیری صاحب نے یہ کہہ دیا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی رائے کو سنت کہہ دیتے تھے۔

علامہ انور شاہ کشمیری اور ناموس صحابہ

اقعاء والی جو مثال علامہ انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب نے پیش کی ہے، اس میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی سخت گستاخی ہو گئی ہے، کیونکہ بقول کشمیری صاحب اقعاء سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اپنی رائے تھی اور اسے انہوں نے ”اپنی عادت“ کے مطابق سنت کہہ دیا ہے، حالانکہ صحیح مسلم میں تفصیل سے یہ واقعہ موجود ہے۔ قارئین وہ ساری حدیث ملاحظہ فرمائیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے جلیل القدر شاگرد عکرمہ تابعی رحمہ اللہ کا بیان ہے :
قلنا لابن عباس فى الإفعاء على القدمين، فقال :هي السنة فقلنا له : إنا لنراه جفاء بالرجل، فقال ابن عباس : بل هي سنة نبيك صلى الله عليه وسلم
ہم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پاؤں پر اقعاء کرنے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: یہ سنت ہے۔ ہم نے پھر عرض کیا : ہم تو اقعاء کرنے کو کسی آدمی پر مشقت سمجھتے ہیں۔ اس پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: نہیں، بلکہ یہ آپ کے نبی صلى الله عليه وسلم کی سنت ہے۔(صحیح مسلم : 536)
اگر یہ اقعاء سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اپنی رائے تھی تو اُن کا اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرار دینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بنتا ہے جس کے ارتکاب سے کوئی آدمی صحابی تو کجا صحیح مسلمان بھی نہیں رہتا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر حدیث ہے:
من كذب على فليتبوأ مقعده من النار
”جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھتا ہے، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھے۔“
(صحيح البخاری : 107 ، مقدمة صحيح مسلم : 3)
کیا احترام صحابہ اور اکرام سنت کا یہی تقاضا ہے؟ اللہ شاہد ہے کہ ہم نے پہلے اپنی طرف سے علامہ کشمیری صاحب کے لیے یہ عذر تراشا تھا کہ انہوں نے جان بوجھ کر یہ تنقیص نہ کی ہوگی لیکن کیا کریں کہ دورانِ مطالعہ اس حوالے سے علامہ کشمیری صاحب کی کتاب ”العرف الشذی“ سے ایک صریح عبارت ہمارے سامنے آگئی۔ انہوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مذکورہ الفاظ ، جن میں انہوں نے اقعاء کے سنت نبوی ہونے کی صراحت کی ہے، پیش کرنے کے بعد انہیں رد کرتے ہوئے یہ لکھ دیا ہے کہ ہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے ، کیونکہ :
إن ابن عباس ربما يقول باجتهاده ورأيه ويغيره بالسنة
یقیناً ابن عباس رضی اللہ عنہما بسا اوقات اپنے اجتہاد اور رائے سے کوئی بات کرتے اور اسے سنت کا نام دے دیتے تھے۔ (العرف الشذي : 314/1)
یہاں آکر ہمارے تراشے ہوئے عذر کے غبارے سے ساری ہوا نکل گئی کہ علامہ کشمیری صاحب تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سنت نبوی والے الفاظ میں انہیں (معاذ اللہ !) سچا نہیں مانتے ، بلکہ ان کے بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ( معاذ اللہ!) اپنی ذاتی رائے لوگوں کو سنت کہہ کر سنا دیتے تھے۔
ہم یہاں پر بڑے دردِ دل سے اپنے دیو بندی بھائیوں کو اتنا سوچنے پر مجبور کریں گے کہ ایسا کیوں ہوا ہے؟ کیا جسے لوگ تعصب کہتے ہیں، اُس نے تو کشمیری صاحب کو ایسا کرنے پر مجبور نہیں کر دیا؟ اس کا سبب یہی نہیں کہ ان کے علمائے کرام حدیث آجانے کے بعد اُسے تسلیم کرنے کے بجائے طرح طرح کی تاویلات باطلہ پر اتر آتے ہیں؟ اسی وجہ سے بہت سی ایسی باتیں اُن سے سرزد ہو جاتی ہیں جن سے صحابہ کرام کی تنقیص ہونے کے ساتھ ساتھ سنت نبوی کی مخالفت کا ارتکاب بھی ہو جاتا ہے۔ ہم وقتاً فوقتاً ایسی باتوں کی طرف اشارہ کرتے رہیں گے لیکن صرف اس نیت سے کہ ہمارے دیو بندی بھائی اللہ کے لیے کچھ انصاف سے کام لیں!

ممنوع اور مشروع اقعاء

رہی یہ بات کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے کہ اقعاء سنت نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اقعاء کی دو قسمیں ہیں : ایک اقعاء وہ ہے جس کو شیطان اور کتے کی بیٹھک سے تشبیہ دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ممنوع قرار دیا ہے۔ (صحیح مسلم : 498)
یہی وہ اقعاء ہے جس کے سنت ہونے سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے انکار کیا ہے۔ اس کے برعکس وہ اقعاء جسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سنت قرار دیا ہے، وہ دونوں سجدوں کے درمیان پاؤں کی ایڑیوں پر بیٹھنے کا نام ہے۔
اس بارے میں علمائے کرام کی تصریحات اگر نقل کی جائیں تو معاملہ طوالت کا شکار ہو جائے گا۔ ہم صرف ایک عبارت پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ حافظ نووی رحمہ اللہ اس بارے میں ایک جامع تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
والصواب الذى لا معدل عنه أن الإفعاء نوعان، أحدهما أن يلصق أليتيه بالأرض وينصب ساقيه ويضع يديه على الأرض كإفعاء الكلب، هكذا فسره أبو عبيدة معمر بن المتنى وصاحبه أبو عبيد القاسم بن سلام وآخرون من أهل اللغة، وهذا النوع هو والنوع المكروه الذى ورد فيه النهي الثاني أن يجعل أليتيه على عقبيه بين السجدتين، وهذا هو مراد بن عباس بقوله : سنة نبيكم صلى الله عليه وسلم…… وحمل حديث ابن عباس رضي الله عنهما عليه جماعات من المحققين ؛ منهم البيهقي والقاضي عياض والآخرون رحمهم الله تعالى، قال القاضي : وقد روي عن جماعة من الصحابة والسلف أنهم كانوا يفعلونه
حق بات جس سے فرار ممکن نہیں ، یہ ہے کہ اقعاء کی دو قسمیں ہیں ؛ ایک یہ ہے کہ آدمی کتے کے بیٹھنے کی طرح اپنی سرین زمین پر رکھ کر ٹانگیں کھڑی کر لے اور دونوں ہاتھ بھی زمین پر رکھ دے۔ ابوعبیدہ معمر بن مثنی ان کے شاگرد ابو عبید القاسم بن سلام اور دیگر اہل لغت نے یہی تفسیر کی ہے۔ اقعاء کی یہ قسم مکروہ ہے جس کے بارے میں ممانعت وارد ہوئی ہے۔ دوسری قسم یہ ہے کہ آدمی دو سجدوں کے درمیان اپنی سرین ایڑیوں پر رکھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اقعاء کو جو سنت نبوی قرار دیا ہے، ان کی مراد یہی اقعاء ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کو ڈھیر سارے محققین نے اسی معنی پر محمول کیا ہے۔ ان محققین میں امام بیہقی ، قاضی عیاض اور دیگر علمائے کرام شامل ہیں۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا ہے : بہت سے صحابہ کرام اور سلف صالحین سے مروی ہے کہ وہ ایسا کرتے تھے۔ (شرح النووي على مسلم : 19/5)
یہ بات بالکل حق ہے، کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے خود اقعاء کرنا ثابت ہے۔
(المعرفة والتاريخ للفسوي : 197/3 ، السنن الكبرى للبيهقي : 119/2 ، مصنف ابن أبي شيبة : 286/1 ، وسنده صحيح)
اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جس اقعاء کے سنت ہونے سے انکاری تھے اس سے مراد وہ اقعاء نہیں تھا، جسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سنت نبوی قرار دیتے تھے، بلکہ اس سے مراد کتے کی بیٹھک کی مثل اقعاء تھا جو کہ بالا تفاق ممنوع ہے۔ شاید ہمارے کوئی دیوبندی بھائی ہماری بیان کردہ حافظ نووی رحمہ اللہ اور دیگر علمائے کرام کی اس تحقیق سے مطمئن نہ ہوں۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ بالکل یہی بات حنفی فقہ کی معتبر کتاب ہدایہ کی احادیث کی تخریج کرتے ہوئے علامہ زیلعی حنفی ( 762 ھ ) نے کی ہے (نصب الراية : 93/2) اور اسی بات کو سنن ابی داؤد کی شرح (30/4 ) میں ایک بہت جید و معتبر حنفی عالم علامہ بدر الدین عینی حنفی (855ھ) نے نقل کیا ہے۔
ہم یہاں پر علامہ نیموی حنفی صاحب کی عبارت بھی پیش کیے دیتے ہیں۔ انہوں نے بھی اقعاء کی دو قسمیں بنائی ہیں : ایک پاؤں کی ایڑیوں پر بیٹھنا اور دوسری کتے کی طرح بیٹھک۔
اس تقسیم کے بعد وہ لکھتے ہیں :
القول الفيصل أن الإفعاء بالمعنى الثاني لا خلاف فى كراهته، وبالمعنى الأول فرخصة عند العذر .
فیصلہ کن بات یہ ہے کہ اقعاء کی دوسری قسم ( کتے کی طرح نشست ) بلا اختلاف مکروہ ہے، جبکہ اس کی پہلی قسم (ایڑیوں پر بیٹھنے ) میں عذر کے وقت رخصت ہے۔
(التعليق على آثار السنن، ص : 122)
دیکھیں کہ محدثین کرام، علامہ عینی حنفی اور علامہ نیموی حنفی صاحب نے کتنی صراحت کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کیا ہے لیکن علامہ انور شاہ کشمیری صاحب نے محض نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کے سنت ہونے کا انکار کرنے کے لیے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما پر سیہ الزام دھر دیا کہ وہ اپنی رائے کو سنت کہہ دیتے تھے۔
اس طرح تو صحابہ کرام نے پینے کی مقدس ترین ہستیوں پر سخت ترین بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ کیا یہ انکار حدیث کا ایک اقدام نہیں ہے؟ اگر حدیث کو بیان کرنے والے اوّلین راویوں یعنی صحابہ کرام کی حالت (معاذ اللہ !) یہ تھی کہ وہ اپنی رائے اور خیالات کو سنت بنانے کی کوشش کرتے تھے تو بعد والے راویوں پر کیا اعتماد ہوگا؟ جب لوگوں کے دلوں میں صحابہ کرام اور دیگر راویان حدیث کے بارے میں ایسے خیالات پیدا ہو جائیں گے تو وہ بھلا حدیث کو کیا مقام دیں گے؟ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں تعصب و تحزب سے محفوظ فرمائے !

⑤ سورہ فاتحہ کے علاوہ قراءت کیوں فرض نہیں؟

علامہ انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب ایک اور اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
على أن فى النسائي ص (۲۸) أنه قرأ بفاتحة الكتاب وسورة وجهر بها، وفي المنتقى لابن الجارود أنه ضم سورة أيضا، فعلى الشافعية أن يقولوا بالجهر وضم السورة أيضا إذ قالوا ببعضها
اس کے ساتھ ساتھ سنن نسائی میں یہ روایت بھی ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ فاتحہ کے ساتھ ایک اور سورت بھی تلاوت فرمائی اور بآواز بلند اس کی قراءت کی۔ ابن جارود رحمہ اللہ کی” کتاب المنتقی“ میں بھی یہ الفاظ ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ فاتحہ کے ساتھ ایک اور سورت ملائی تھی۔ جب شوافع نے اس حدیث کے کچھ حصے کے مطابق موقف بنایا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ نماز جنازہ کو بآواز بلند پڑھنے اور سورہ فاتحہ کے ساتھ ایک سورت ملانے کا بھی موقف بنا ئیں۔ (فیض الباري : 475/2)
تجزیہ
ان الفاظ سے سورہ فاتحہ کی فرضیت کو مشکوک نہیں بنایا جا سکتا، کیونکہ:

یہ الفاظ محفوظ نہیں!

● امام بیہقی رحمہ اللہ ان الفاظ کو معلول قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وذكر السورة فيه غير محفوظ .
حدیث ابن عباس میں (فاتحہ کے بعد ) سورت کا ذکر غیر محفوظ ہے۔
(السنن الكبرى : 62/4، تحت الرقم : 6954)

احادیث رسول اور آثار صحابہ کا تقاضا

● اگر یہ الفاظ محفوظ بھی مان لیے جائیں تو سورہ فاتحہ کے علاوہ کسی اور سورت کی قراءت کو فرض نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف سورہ فاتحہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی کسی اور سورت کو آپ نے نماز کے لیے شرط قرار نہیں دیا۔ اسی بنا پر ہم فاتحہ کے علاوہ کسی دوسری سورت کی قراءت کو فرض قرار نہیں دیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد رشید سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ اگر میں نماز میں صرف سورۂ فاتحہ کی قراءت کروں، کوئی اور سورت نہ پڑھوں تو ؟ اس پر انہوں نے فرمایا:
إن زدت عليها فهو خير، وإن انتهيت إليها أجزأت عنك
”اگر آپ اس (سورۂ فاتحہ ) سے زائد پڑھ لیں تو بہتر ہے اور اگر آپ اسی پر اکتفا کر لیں تو آپ کا فرض ادا ہو جائے گا۔“
(صحيح البخاری : 772، صحیح مسلم : 43/396 ، واللفظ له)
ایک روایت میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں :
ومن قرأ بأم الكتاب فقد أجزات عنه، ومن زاد فهو أفضل.
”جو شخص سورہ فاتحہ کی قراءت کر لے گا، اسے کافی ہو جائے گی اور جو اس سے زائد قراءت کرے گا تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔“
(صحیح مسلم : 44/396)
نیز سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث جس کا بیان چند سطروں بعد امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ کے حوالے سے آ رہا ہے، اس میں صحابی رسول سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ میں سنت طریقہ بیان کرتے ہوئے صرف سورہ فاتحہ کی قراءت کا ذکر کیا ہے۔ اگر کسی اور سورت کی قراءت بھی ضروری ہوتی تو وہ اسے بھی ضرور ذکر کرتے ۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اپنی صراحت

● ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے صرف سورہ فاتحہ کی قراءت کے بارے میں سوال ہوا تھا ، جس پر انہوں نے اسے سنت وحق قرار دیا۔ ہم وہ الفاظ دوبارہ نقل کیے دیتے ہیں:
فلما انصرف قلت له : أتقرأ بفاتحة الكتاب؟ قال : نعم، يا ابن أخي، سنة وحق
جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا : کیا آپ سورہ فاتحہ کی قراءت کرتے ہیں؟ تو آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہاں، میرے بھتیجے! یہ سنت اور حق ہے۔
(صحیح ابن حبان : 3072 ، وسنده صحيح )
جب حدیث میں سوال وجواب صرف سورہ فاتحہ کے بارے میں ہوئے تو دوسری سورت کی قراءت کا حکم سورۂ فاتحہ والا کیسے ہوا؟ لہذا یہ الفاظ ثابت بھی ہوں تو سورۂ فاتحہ کی فرضیت پر اعتراض کا موجب نہیں۔

نماز جنازہ سری اور جہری دونوں طرح

باقی رہا یہ سوال کہ جب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بآواز بلند نماز جنازہ ادا کی ہے تو ہم نماز جنازہ میں آواز بلند کرنے کو فرض کیوں نہیں کہتے ، جبکہ سورہ فاتحہ کو فرض کہتے ہیں تو اس کا جواب بھی حدیث نبوی میں ہے۔ سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کی جو حدیث ہم فصل سوم میں بالتفصیل ذکر کرنے والے ہیں،ایک روایت میں اس کے الفاظ یہ ہیں:
إن السنة فى الصلاة على الجنازة أن يكبر الإمام، ثم يقرا بفاتحة الكتاب سرا فى نفسه
نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر کہے، پھر خاموشی سے سورۃ فاتحہ کی قراءت کرے۔
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 500/1، وسنده صحيح)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت بآواز بلند سنت سے ثابت ہے، اسی طرح آہستہ آواز سے قراءت کرنا بھی سنت سے ثابت ہے۔ نیز جس حدیث میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سورہ فاتحہ کو بآواز بلند پڑھنے کا ذکر ہے، اسی حدیث میں ان کے یہ الفاظ بھی موجود ہیں :
إنما جهرت لتعلموا أنها سنة
میں نے سورہ فاتحہ کی قراءت بلند آواز سے اس لیے کی ہے کہ تمہیں علم ہو جائے کہ یہ سنت نبوی ہے۔
(المستدرك على الصحيحين للحاكم : 510/1 ، وقال : صحيح على شرط مسلم)
اس بحث سے ثابت ہوا کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کسی سورت کو پڑھنا عمومی دلائل سے مستحب تو ہے، ضروری نہیں، نیز نماز جنازہ میں قراءت بآواز بلند اور آہستہ سے ، دونوں طرح جائز ہے۔

⑥ سنت غیر معروف طریقہ ایک قبیح تحریف

جناب امین صفدر اوکاڑوی صاحب مذکورہ حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
سب جنازے بغیر فاتحہ کے پڑھے جاتے ہیں اور اگر کسی نے بھولے سے پڑھ لی تو اکابر علماء نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا، چنانچہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جنازہ میں سورۃ فاتحہ اور ایک سورت پڑھی۔ چونکہ خیر القرون میں یہ ایک انوکھی بات تھی، اسی وقت آپ کا بازو پکڑ کر پوچھا گیا کہ یہ کیا؟ آپ نے إنها سنة کہہ کر جان چھڑائی کہ یہ نماز جنازہ پڑھنے کا ایک غیر معروف طریقہ ہے جسے عام صحابہ و تابعین نہیں پہنچانتے۔ اس لیے آپ نے لفظ سنت کو نکرہ بیان فرمایا۔اس کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی کبھی فاتحہ نہ پڑھی، بلکہ جب آپ نے حضرت ابو حمزہ کو نماز جنازہ کا طریقہ سکھایا تو فرمایا: تصلي على الجنازة تسبح وتكبر ولا تركع ولا تسجد. (سنده صحيح، فتح الباری : 376/3) یعنی نماز جنازه میں تسبیح و تکبیر ہے، رکوع سجدہ نہیں۔ قراءت کا ذکر تک نہ فرمایا۔
( مجموعه رسائل : 255/1)
تجزیہ
ویسے تو اس چھوٹی سی عبارت میں جناب اوکاڑوی صاحب نے بے باکانہ انداز میں کئی بے بنیاد باتیں لکھ دی ہیں، لیکن سب سے خطرناک بات معنوی تحریف کرتے ہوئے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے لفظ سنت کو ”غیر معروف طریقہ“ قرار دینا ہے۔
ہم ان ساری باتوں کا بالتفصیل تجزیہ کرتے ہیں :

⑦ خیر القرون اور نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ

اوکاڑوی صاحب کے بقول خیر القرون میں سب جنازے بغیر فاتحہ کے پڑھے جاتے تھے ۔ آئندہ صفحات میں قارئین ملاحظہ فرمالیں گے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ دین کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کرتے تھے۔ خیر القرون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ دین ہی کا تو نام ہے۔
ہم دیو بندی بھائیوں سے بڑے احترام سے یہ سوال کریں گے کہ جو ائمہ دین نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کو سنت نبوی قرار دیتے رہے ہیں، کیا وہ اپنے دعوے میں سچے نہیں تھے؟

حنفی علماء کی گواہی

علامہ بدر الدین عینی حنفی ، امام طحاوی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
لعل قرائة من قرأ الفاتحة من الصحابة؛ كان على وجه الدعاء ، لا على وجه التلاوة .
جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے (نماز جنازہ میں ) سورہ فاتحہ کی قراءت کی ہے، شاید انہوں نے بطور دُعا یہ قراءت کی ہو، بطور تلاوت نہ کی ہو۔
(عمدة القاري شرح صحيح البخاري، تحت الحديث : 1335)
یہی بات بہت سے دیگر حنفی علماء نے بھی اپنی کتابوں میں لکھی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نماز جنازہ میں فاتحہ کو بطور دعا پڑھا تھا یا بطور قراءت، اس بات کا تذکرہ تو فصل ششم میں اپنے مقام پر آئے گا لیکن حنفی علماء کی اس تصریح سے اتنا تو بہر صورت ثابت ہو جاتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا ثابت ہے۔اس لیے اوکاڑوی صاحب کا یہ کہنا کہ خیر القرون میں سب جنازے بغیر فاتحہ کے پڑھے جاتے تھے حنفی علماء کو بھی جاہل قرار دینے کے مترادف ہے۔

⑧ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھول کر فاتحہ پڑھی!

ہم اوکاڑوی صاحب سے یہ عبارت نقل کر چکے ہیں کہ انہوں نے کہا:
اگر کسی نے بھولے سے پڑھ لی تو اکا بر علماء نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا، چنانچہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ……
اس بات سے تو یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ بھول کر پڑھی تھی، نیز طلحہ بن عبید اللہ رحمہ اللہ جنہوں نے سوال کیا تھا، وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مقابلے میں بڑے عالم تھے لیکن فی الواقع دونوں باتیں سفید جھوٹ ہیں۔ پہلی اس طرح کہ خیر القرون اور بعد کے ائمہ دین میں سے کسی نے یہ بات کہی یا سمجھی نہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھول کر ایسا کیا تھا۔ یہ بات سب سے پہلے اوکاڑوی صاحب کو ہی سوجھی ہے۔
دیوبندی بھائیوں سے ہماری درد مندانہ اپیل ہے کہ وہ ایک دفعہ تھوڑی دیر کے لیے تعصب سے دُور ہو کر یہ سوچیں کہ اوکاڑوی صاحب کی یہ کاوش حدیث کو قبول کرنے کے لیے ہے یا حدیث کو رد کرنے کے لیے؟
دوسری بات یہ ہے کہ طلحہ بن عبید اللہ رحمہ اللہ ایک درمیانے درجے کے تابعی ہیں۔ صحابی رسول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مقابلے میں ان کو اکابر علماء میں سے شمار کرنا یا تو کم علمی ہے یا انتہائی نا انصافی کی بات !

اوکاڑوی صاحب کا ایک نحوی چٹکلا !

اوکاڑوی صاحب کے بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لفظ سنت کہہ کر سنت نبوی نہیں، بلکہ ایک غیر معروف طریقہ مراد لیا تھا جسے عام صحابہ و تابعین نہیں پہچانتے تھے۔ اس کی دلیل انہوں نے یہ دی ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لفظ سنت کو نکرہ بیان کیا تھا۔ یہ بات بھی سراسر غلط ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آج تک دنیا کے کسی محدث نے لفظ سنت سے ایسا غیر معروف طریقہ مراد نہیں لیا جس کو عام صحابہ وتابعین پہنچانتے نہ ہوں۔

کتب حدیث بمقابلہ اوکاڑوی منطق

دوسری بات یہ ہے کہ اگر اوکاڑوی صاحب خود کتب حدیث سے یہ حدیث ملاحظہ کر لیتے یا کسی صاحب علم سے رجوع کر لیتے تو ایسا کبھی نہ لکھتے ، کیونکہ سنن کبری بیہقی اور جامع ترمذی میں اسی حدیث میں لفظ سنت نکرہ کے بجائے معرفہ استعمال ہوا ہے کہ:
إنها من السنة (السنن الكبرى للبيهقي : 38/4، جامع الترمذي : 1027)
پھر فصل سوم میں ہم سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث پیش کرنے والے ہیں۔
اس حدیث میں سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ :
السنة فى الصلاة على الجنازة أن يكتر، ثم يقرأ بأم القرآن
نماز جنازہ میں مسنون طریقہ یہ ہے کہ آدمی تکبیر کہے، پھر سورہ فاتحہ کی قراءت کرے۔
اس حدیث میں سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے بھی لفظ سنت کو معرفہ استعمال کیا ہے۔ اس کے بارے میں دیو بندی بھائیوں کا کیا خیال ہے؟
تیز طلحہ بن عبداللہ رحمہ اللہ سے بالکل صحیح سند کے ساتھ یوں بھی مروی ہے :
شهدت ابن عباس صلى على جنازة، فقرأ بفاتحة الكتاب، فلما انصرف؛ قلت له : أتقرأ بفاتحة الكتاب؟ قال : نعم، يا ابن أخي ، سنة وحق
میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک جنازے میں حاضر ہوا۔ آپ نے سورۂ فاتحہ کی قراءت کی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا: کیا آپ سورۂ فاتحہ کی قراءت کرتے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ہاں، میرے بھتیجے! یہ سنت اور حق ہے۔
(كتاب الأم للشافعي : 270/1، مسند الشافعي : 1642 ، السنن الكبرى للبيهقي : 38/4، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 510/1 ، وقال : بإسناد صحيح صحيح ابن حبان : 3072 ، واللفظ له)
اس حدیث میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کو سنت کہنے کے ساتھ ساتھ حق بھی قرار دیا ہے۔ کیا جو طریقہ حق تھا، اسے عام صحابہ و تابعین پہنچانتے ہی نہ تھے ؟ بالفرض اگر حق کو عام صحابہ وتابعین نہ بھی پہنچانتے تھے تو فرمانِ البى : ﴿أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ﴾ (10-يونس:35) کے مطابق حق ہی کی پیروی ضروری ہوتی ہے۔
اب منصف مزاج دیوبندی بھائی خود ہی اندازہ فرمائیں کہ اوکاڑوی صاحب سنت کا معنی ”غیر معروف طریقہ“ کرنے میں حق بجانب ہیں یا۔۔؟ نیز اس سے اوکاڑوی صاحب کی علم حدیث سے عدم معرفت بھی خوب معلوم ہو جاتی ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ترک فاتحہ

جناب اوکاڑوی صاحب نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس واقعہ کے بعد کبھی بھی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی۔ اپنی دلیل میں انہوں نے فتح الباری کے حوالے سے ایک روایت ذکر کی ہے لیکن ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کی مکمل سند ذکر نہیں کی، صرف یہ لکھا ہے کہ عمر بن شبہ نے اسے اپنی کتاب ”کتاب مکہ“ من حماد عن أبى حمزة عن ابن عباس کی سند سے ذکر کیا ہے۔

منقطع اور غیر متعلق روایت

ہمیں عمر بن شبہ کی یہ کتاب نہیں مل سکی، البتہ علامہ انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب نے” العرف الشذی“ میں اس کتاب کا نام أخبار المدينه ومكة ذكر كيا ہے۔ عمر بن شبہ کی” أخبار المدينه “نامی کتاب ”دار الكتب العلمیة بیروت “، سے طبع ہوئی ہے لیکن اس سے بھی یہ روایت ہمیں تلاش بسیار کے باوجود نہیں مل سکی۔
پھر نہ جانے یہ حماد کون ہیں جو ابو حمزہ سے بیان کر رہے ہیں؟ ابو حمزہ (انس بن سیرین) کے شاگردوں میں دو حماد نامی راوی ملے ہیں ؛ ایک حماد بن زید رحمہ اللہ اور دوسرے حماد بن سلمہ رحمہ اللہ ان دونوں میں سے جو بھی اس سند میں مذکور ہیں، ان سے عمر بن شبہ کی ملاقات ثابت نہیں ۔ پھر اس منقطع روایت کی سند صحیح کیسے ہوگئی ؟
ویسے اگر یہ روایت ثابت ہو بھی جائے تو اس سے یہ قطعاً ثابت نہیں ہوتا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ ترک کر دی تھی ۔ اس روایت میں تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے صرف تسبیح و تکبیر کا اثبات اور رکوع وسجدہ کی نفی کی ہے۔
یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ عدمِ ذکر کو عدمِ وجود پر محمول نہیں کیا جاتا، یعنی اگر کسی جگہ ایک چیز کا ذکر نہ ہو تو یہ اس بات کی دلیل نہیں بنتی کہ وہاں اس چیز کا وجود ہی نہیں ۔ پھر اس روایت میں نماز جنازہ کے لیے قیام درود، دعا اور سلام کا بھی ذکر نہیں ہے۔ کیا دیو بندی بھائی ان چیزوں سے بھی نماز جنازہ کو خالی کر دیں گے اور بس میت کے پاس سبحان الله اور الحمد لله کہنے سے نماز جنازہ کی ادائیگی کا فتوی دے دیں گے؟
اس بحث سے معلوم ہوا کہ اوکاڑوی صاحب کی طرف سے کیے گئے سب اعتراضات باطل ہیں اور ان کی علمی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں۔
پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں جناب اوکاڑوی صاحب کا انداز انتہائی غیر محتاط ہے۔ فقہی مسائل میں اپنے مذہب کی برتری کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جناب میں سوءِ ادبی آخرت کا نقصان ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے