نماز جنازہ میں سورۂ فاتحہ کی قراءت کا وجوب احناف کے اپنے اصولی کی روشنی میں
یہ اقتباس ڈاکٹر حافظ ابو یحییٰ نورپوری کی کتاب نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ فرض*مستحب* یا مکروہ تحریمی* سے ماخوذ ہے۔

مسلّمات احناف اور نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ

قارئین کرام باب اول میں صحیح احادیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، صحابہ کرام کا عمل اور جمہور تابعین کا مذہب جان چکے ہیں کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کرنی چاہیے۔ باب دوم میں احناف کے مزعومہ دلائل کا منصفانہ تجزیہ ملاحظہ فرمایا۔ اب ہم ان کے سامنے چند ایسے اصول رکھتے ہیں جن کو احناف تسلیم کرتے ہیں اور ان کی رُو سے بھی نماز جنازہ میں سورۂ فاتحہ کی قراءت ضروری ہے۔
احناف کو چاہیے کہ وہ احادیث رسول، صحابہ کرام کے عمل اور جمہور تابعین کے مذہب سے صرف نظر کرتے ہیں تو کم از کم اپنے مسلمہ اصولوں کی ہی لاج رکھ لیں۔ باب سوم انہی اصولوں پر مشتمل ہے۔
بقول اقبال ؎ تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن

فقه حنفی اور نماز میں قراءت کی فرضیت

احناف کے ہاں نماز میں فاتحہ نہ سہی قرآن کریم کی مطلق قراءت تو فرض ہے، یعنی ان کے نزدیک نماز کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ اس میں قرآن کریم کا کوئی نہ کوئی حصہ پڑھا جائے۔ خود احناف نے اس سلسلے میں قرآن و سنت سے دلائل پیش کیے ہیں۔ آئیے اس مسئلہ کو انہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیے:

◈ صاحب ہدایہ کی عبارت

مشہور حنفی عالم، ابوالحسن علی بن ابو بکر مرغینانی (593ھ ) لکھتے ہیں :
فرائض الصلاة ستة ﴿فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ﴾
نماز کے فرائض چھ ہیں۔ ان میں سے ایک قراءت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ﴾ (تم جو میسر ہو قرآن کی قراءت کرو)۔
(الهداية شرح البداية، فصل في الأوقات التي تكره فيها الصلاة : 46/1)

◈ علامہ کا سانی حنفی اور قراءت کا وجوب

ابوبکر بن مسعود بن احمد کا سانی حنفی (587ھ ) نماز میں قراءت کی فرضیت کے دلائل ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ولنا قوله تعالى : ﴿فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ﴾ ومطلق الأمر الوجوب، وقول النبى صلى الله عليه وسلم : لا صلاةإلا بقراءة .
ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ : ﴿فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ﴾ (تم جو میسر ہو قرآن کی قراءت کرو)۔ مطلق حکم وجوب ہی کے لیے ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قراءت کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔“
(بدائع الصنائع :110/1)

◈ علامہ زیلعی حنفی کا فرمان

عثمان بن علی زیلعی حنفی (743 ھ ) کنز الدقائق کی شرح میں نماز کے فرائض بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
والقراءة لقوله تعالى : ﴿فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ﴾ ولقوله صلى الله عليه وسلم : ثم اقرأ ما تيسر معك من القرآن، وعلى فرضيتها انعقد الإجماع .
اور قراءت بھی فرض ہے کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:﴿فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ﴾ (جو میسر ہو قرآن کی قراءت کرو) نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تمہارے پاس قرآنِ کریم میں سے جو میسر ہو، اس کی قراءت کرو۔“ نماز میں قراءت کی فرضیت پر اجماع ہو چکا ہے۔
(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق : 104/1)
فقہ حنفی کی ان عبارات سے معلوم ہوا کہ دلائل شرعیہ ، یعنی قرآن، حدیث اور اجماع سے نماز میں مطلق قراءت فرض ہے۔ اگر یہ دلائل ہم خود پیش کرتے تو شاید کسی حنفی بھائی کو ان پر کوئی اعتراض ہوتا۔ یہ ان کے اپنے ہی گھر کی گواہی ہے کہ شرعی دلائل کی رُو سے نماز میں قراءت فرض ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب باعتراف احناف شریعت نے نماز میں قراءت کو فرض قرار دیا ہے ، پھر اس حکم سے قرآن وحدیث نے کسی نماز کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا تو فقہ حنفی نے کسی دلیل سے نماز جنازہ کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے؟ احناف کے تمام مزعومہ دلائل ہم ذکر کر چکے ہیں۔ ان میں سے صرف ایک صحیح دلیل ایسی ہے جو نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کے بارے میں ہے اور وہ ہے ابوالعالیہ تابعی کا ذاتی خیال اور قیاس۔ کیا قرآن، حدیث اور اجماع امت پر عمل کے نعرے کا یہی تقاضا ہے کہ ان دلائل شرعیہ کی رُو سے ثابت فرائض نماز کو کسی امتی کے قیاس کی بنا پر چھوڑ دیا جائے؟ روز محشر حوض کوثر پر کس منہ سے جائیں گے؟
اس سلسلے میں ایک اور قابل توجہ بات یہ ہے جس طرح رکوع ، سجود اور دیگر کئی ارکان نماز کو شریعت نے خود نماز جنازہ سے ختم کر دیا ہے، اسی طرح اگر کوئی دلیل نماز جنازہ میں قراءت سے منع کرنے کی بھی پیش کی جاتی تو قابل تسلیم ہوتی لیکن ہم ذکر کر چکے ہیں کہ بجائے منع کرنے کے شریعت اسلامیہ نے نماز جنازہ میں قراءت کو ضروری قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور جمہور تابعین نے اس پر عمل کیا ہے۔

◈ قیاس اور نماز جنازہ میں قیام

اب اگر کوئی حنفی بھائی صرف یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کرے کہ نماز جنازہ تو میت کے لیے ایک دعا ہے، کوئی مستقل نماز نہیں، لہذا اس میں قراءت ممنوع ہے۔ تو ہم اس سے انصاف کی اپیل کرتے ہوئے عرض کریں گے کہ جناب اگر دعا ہونے کی وجہ سے اس سے قراءت والا فرض بغیر کسی دلیل شرعی کے ختم و ممنوع کر دیا گیا ہے تو پھر اس دعا میں قیام کی فرضیت کیوں باقی رکھی گئی؟ دُعا میں قیام کو کوئی مسلمان بھی فرض نہیں کہتا۔ فقہ حنفی نے یہ فتویٰ کیوں نہیں دیا کہ نماز جنازہ میں قیام بھی فرض نہیں رہا کیونکہ یہ تو میت کے لیے دعا ہے، کوئی مستقل نماز نہیں؟ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین!

جنازہ میں بطور دعا یا ثنا سورہ فاتحہ کی قراءت

احناف ایک طرف تو نماز جنازہ میں قرآن کریم کی قراءت کو ممنوع قرار دیتے ہیں، لیکن دوسری طرف جب نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے بارے میں دلائل شرعیہ کو دیکھتے ہیں اور ان کو رد کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی حیلہ باقی نہیں رہتا تو کہہ دیتے ہیں کہ ہاں، ایک حیلے سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کی جا سکتی ہے۔ وہ حیلہ کیا ہے؟ اس میں بھی مختلف لوگوں کی مختلف آراء ہیں۔ ملاحظہ ہو :

◈ ابو حنیفہ ثانی کا فتویٰ

امام ابن نجیم حنفی المعروف بہ ابوحنیفہ ثانی (970ھ ) لکھتے ہیں :
وفي المحيط والتجنيس : ولو قرأ الفاتحة فيها بنية الدعاء؛ فلا بأس به، وإن قرأها بنية القراءة؛ لا يجوز، لأنها محل الدعاء دون القراءة اهـ .
المحيط اور التجنيس میں ہے کہ اگر کوئی نماز جنازہ میں دعا کی نیت سے سورہ فاتحہ کی قراءت کرے تو کوئی حرج نہیں اور اگر قراءت کی نیت سے اس کی قراءت کرے تو ناجائز ہے کیونکہ نماز جنازہ دعا کا محل ہے قراءت کا نہیں۔“(البحر الرائق : 197/2)

◈ علامہ کا سانی حنفی کی رخصت

یہ تو تھا بطور دُعا پڑھنے کا حیلہ بعض کے نزدیک نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کو بطور ثنا پڑھا جاسکتا ہے۔ جبکہ بعض کے نزدیک دونوں حیلے کارگر ہیں جیسا کہ کا سانی حنفی نےایک ضعیف روایت میں تاویل کرتے ہوئے لکھا ہے:
وتأويل حديث جابر أنه كان قرأ على سبيل الثناء، لا على سبيل قراءة القرآن، وذلك ليس بمكروه عندنا .
حدیث جابر کی تاویل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ فاتحہ کو بطور ثنا پڑھا تھا، بطور قراءت نہیں اور جنازہ میں فاتحہ کو بطور ثنا پڑھنا ہمارے نزدیک بھی مکروہ نہیں۔(بدائع الصنائع : 314/1)
اس سے پہلے خود علامہ کا سانی حنفی ہی نے لکھا تھا:
وعندنا لو قرأ الفاتحة على سبيل الدعاء والثناء لم يكره
ہمارے نزدیک اگر کوئی نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت بطور دعا وثنا کرلے تو یہ مکروہ نہیں۔ (بدائع الصنائع : 313/1)
اب حنفی بھائیوں سے سوال ہے کہ جب نماز جنازہ میں قرآن کریم کی قراءت اصلاً ممنوع ہے اور اس پر وہ بزعم خویش دلائل بھی رکھتے ہیں تو پھر کس دلیل سے انہوں نے بطور دعا و ثنا اسی ممنوعہ قراءت کی اجازت دے دی؟ اگر شرعی دلائل کی رُو سے جنازہ میں قراءت منع ہوئی تھی تو ضروری ہے کہ کسی شرعی دلیل سے ہی جنازہ میں بطور دعا یا ثنا اس قراءت کا جواز بھی ثابت ہو، ورنہ تو یہ دینی معاملات میں من مانی ہے۔
ہاں، اس حوالے سے حنفی بھائی ایک قیاسی دلیل ہی پیش کرتے ہیں اور وہ ہم قارئین کی آسانی کے لیے خود ہی پیش کیے دیتے ہیں۔

◈ علامہ زیلعی حنفی کا قیاس در فاسد قیاس

عثمان بن علی زیلعی حنفی (743 ھ ) کنز الدقائق کی شرح میں اس حوالے سے لکھتے ہیں :
لو قرأ الجنب الفاتحة على نية الثناء والدعاء، دون القراءة؛ يجوز، وكذا لو قرأها فى صلاة الجنازة على نية الدعاء ، دون القراءة؛ تجوز، وإن لم تشرع فيها القراءة .
اگر جنبی آدمی ثنا اور دعا کی نیت سے فاتحہ کی قراءت کرے، قراءت کی نیت نہ کرے تو جائز ہے۔ اسی طرح اگر نماز جنازہ میں دعا کی نیت سے کوئی اس کی قراءت کرے، البتہ قراءت کی نیت نہ کرے تو یہ بھی جائز ہو گا، اگر چہ نماز جنازہ میں قراءت کا شریعت میں کوئی وجود نہیں۔ (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق : 157/1)
معلوم ہوا کہ احناف کے نزدیک نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت ہے تو ممنوع ، لیکن اس کی بطور دعا و ثنا قراءت جائز ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جنبی کے لیے بھی قراءت ممنوع ہے لیکن اسے بطور دعا و ثنا قراءت کی اجازت ہے۔ یعنی نماز جنازہ میں فاتحہ پڑھنے کو حالت جنابت میں بطور دعا وثنا قراءت کرنے پر قیاس کیا گیا ہے۔
سب سے پہلی اصولی بات تو یہ ہے کہ اگر حالت جنابت میں بطور دعا و ثنا قراءت کرنا کسی شرعی دلیل سے ثابت ہو گا تو پھر ہی نماز جنازہ میں بطور دعا و ثنا قراءت کو بھی اس پر قیاس کرنے کا سوچا جا سکے گا۔ اس قیاس کا اصول فقہ کی روشنی میں صحیح یا غلط ہونا پھر بھی بعد کی بات ہوگی۔ لیکن اگر حالت جنابت میں بطور دعا وثنا قراءت کرنے کا جواز کسی شرعی دلیل سے ثابت ہی نہ ہو تو پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ شریعت کی رُو سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت بطور دعا و ثنا جائز ہے؟ کیونکہ جس بات پر اسے قیاس کیا گیا تھا، اس کا ہی جواز شرعاً ثابت نہیں ہو سکا۔

◈ جنابت میں بطورِ دُعا تلاوت اور اسلاف

حنفی بھائیوں سے گزارش ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی شرعی دلیل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جنبی شخص حالت جنابت میں قرآن کریم کی تلاوت بطور دعا وثنا کر سکتا ہے ، تو وہ اسے منظر عام پر لائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن وسنت یا اجماع امت میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں۔ شریعت نے جنبی کو قرآن کریم کی قراءت سے منع کیا ہے، پھر اس سے بطور دعا و ثنا پڑھنا مستثنی نہیں کیا، لہذا جنبی کے لیے کسی بھی نیت سے قرآن کریم کی قراءت جائز نہیں۔ اسلاف امت بھی یہی کہتے ہیں :
✿ مخضرم تابعی ابو وائل شقیق بن سلمہ رحمہ اللہ (82ھ) فرماتے ہیں :
لا يقرأ الجنب والحائض القرآن.
جنبی اور حائضہ قرآن کریم کی قراءت نہیں کر سکتے۔
(مصنف ابن أبي شيبة :102/1 ، وسنده صحيح)
✿ ابو العالیہ رفیع بن مہران تابعی رحمہ اللہ ( 93 ھ ) سے حائضہ عورت کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا:
لا تقرأ القرآن.
وہ قرآن کریم کی قراءت نہ کرے۔
(سنن الدارمي، كتاب الطهارة، باب الحائض تذكر الله ولا تقرأ القرآن، رقم الحديث : 1035، وسنده صحيح)
✿ امام عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی رحمہ اللہ ( 157 ھ ) بیان کرتے ہیں :
امام زہری رحمہ اللہ سے جنبی مرد اور حیض ونفاس والی عورت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ان کو قرآن کریم کے کچھ حصے کی قراءتکرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔
(السنن الكبرى للبيهقي، كتاب الحيض، باب الحائض لا تمس المصحف ولا تقرأ القرآن: 309/1 ، وسنده حسن)
سلف صالحین میں سے کسی نے بھی یہ فتویٰ نہیں دیا کہ حالت جنابت میں بطور دعا و ثنا قرآن کریم کی قراءت کی جاسکتی ہے۔ بعض اسلاف نے جو ایک آدھ آیت پڑھنے کی اجازت دی ہے، اس اجازت کو ان میں سے کسی نے بھی دعا وثنا کی نیت کے ساتھ مشروط نہیں کیا۔ اس بارے میں اسلاف سے جو آثار صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں ، وہ قارئین کرام کے افادے کے لیے بیان کیے جاتے ہیں:
✿ ابو اسحاق عمرو بن عبد اللہ سبیعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
میں نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ (95ھ) سے پوچھا کہ کیا حائضہ اور جنبی قرآن پڑھ سکتے ہیں؟ اس پر آپ نے جواب دیا: ایک دو آیات پڑھ سکتے ہیں۔
(مصنف ابن أبي شيبة : كتاب الطهارة، باب من رخص للجنب أن يقرأ من القرآن : 102/1، وسنده صحيح)
✿ ابو جعفر محمد بن علی الباقر تابعی رحمہ اللہ ( 114 ھ) سے روایت ہے :
جنبی اور حائضہ کے لیے ایک دو آیات پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
(مصنف ابن أبي شيبة، كتاب الطهارة، باب من رخص للجنب أن يقرأ من القرآن : 102/1، وسنده صحيح)
✿ امام عطاء بن ابی رباح تابعی رحمہ اللہ (114ھ) فرماتے ہیں:
حائضہ قرآن نہیں پڑھ سکتی۔ ہاں کسی آیت کا کوئی ٹکڑا پڑھ لے۔
(سنن الدارمي، كتاب الطهارة، باب الحائض تذكر الله ولا تقرأ القرآن، رقم الحديث : 1039، وسنده صحيح)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (241 ھ) اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (238ھ ) اور دیگر کئی ائمہ دین کا بھی یہی مذہب ہے۔
(جامع الترمذي، أبواب الطهارة، باب ما جاء في الجنب والحائض أنّهما لا يقرأن القرآن، تحت الحديث : 131)
حالت جنابت میں قرآن کریم کی آیت کے کسی ٹکڑے یا ایک دو آیات پڑھنے کی اجازت کے بارے میں اسلاف کے باسند صحیح اقوال کا کل ذخیرہ یہی ہے جو قارئین کرام نے ملاحظہ فرما لیا۔ کیا ائمہ دین میں سے بھی کسی نے اس اجازت کو دعا وثنا کی نیت کے ساتھ مشروط کیا ہے؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔
ان آثار کو اگر خاطر میں لایا جائے تو ان کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ یہی ثابت ہو سکتا ہے کہ حالت جنابت میں کبھی کبھار ایک آدھ آیت اگر پڑھ لی جائے تو امید ہے کہ اس میں گناہ نہ ہو گا۔ ہمارا حنفی بھائیوں سے سوال ہے کہ اگر کوئی حالت جنابت میں کئی پاروں کی قراءت اپنی منزل دوہرانے کی نیت سے کرے تو کیا وہ جائز کام کرے گا؟ اگر اس کا یہ کام ناجائز ہے اور یقینا ناجائز ہے تو کیوں؟ صرف اسی لیے
ناں کہ شریعت نے بطور منزل دو ہرائی کو ممانعت سے مستثنیٰ نہیں کیا۔
جب حالت جنابت میں قرآن کریم کو بطور دعا و ثنا پڑھنے کا جواز کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں ہو سکا تو حنفی بھائی ہی بتائیں کہ اس پر قیاس کر کے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کی اجازت کیونکر دی جا سکتی ہے؟
اب تو یہ بات یقینی ہوگئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور صحابہ کرام نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی جو قراءت کی ، اسے بطور دعا وثنا قرار دینا بالکل بے دلیل ہے۔ لہذا احناف کا نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت سے روکنے کا یہ حیلہ بھی بے کار ہو گیا ہے۔ جب نماز جنازہ میں سورۂ فاتحہ کی قراءت کو نیت کے ساتھ مشروط کرنا کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں ہو سکا تو خود احناف کے مذہب کی رُو سے بھی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت مطلقاً جائز ہوئی اور کسی جائز کام سے روکنا بلاشبہ نا جائز ہوتا ہے۔

کثرت طرق اور نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ

محدثین و ائمہ دین ، حدیث کے معاملے میں بہت محتاط تھے۔ وہ سند و متن کے حوالے سے اجماعی قوانین کی پوری رعایت کرتے تھے۔ ان کے نزدیک کسی بھی حدیث کے صحیح ہونے کے لیے اس کا پانچ شرائط پر پورا اترنا ضروری تھا۔ صحیح حدیث کی جو تعریف اصولِ حدیث کی متداول کتب میں موجود ہے، وہ انہی پانچ شرائط پر مشتمل ہے۔ یعنی وہ حدیث جس کو بیان کرنے والا راوی کردار کے لحاظ سے پاکدامن ہو، ذہنی اعتبار سے پختہ ہو، اس حدیث کی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہو، نیز اس حدیث میں شذوذ یا کوئی مخفی علت موجود نہ ہو۔ یوں ائمہ حدیث صرف صحیح احادیث پر اعتماد کرتے تھے۔
بعض علماء کا کہنا ہے کہ اگر کسی حدیث کی کئی ”ضعیف“ سندیں مل جائیں، بشرطیکہ ان میں ضعف شدید نہ ہو یا اسی طرح کی کم ضعف والی کوئی اور حدیث اس کے ساتھ مل جائے تو وہ بھی حسن، یعنی قابل عمل ہو سکتی ہے۔ یہ اگر چہ نکتہ اختلاف ہے، اس پر علماء کے علمی مباحثے بھی ہوتے رہتے ہیں۔
البتہ احناف کے اکثر علماء اسی موقف کی طرف مائل ہوئے ہیں کہ کسی روایت کی اگر ایک سے زائد کم ضعف والی سندیں ہوں یا کوئی اور کم ضعف والی حدیث اس کے ساتھ مل جائے تو وہ روایت قابل عمل و قابل حجت بن جاتی ہے۔

◈ علمائے احناف اور کثرت طرق

علامہ ابن نجیم حنفی (970ھ ) لکھتے ہیں۔
وذلك يرفع الضعيف إلى الحسن
کثرت طرق سے ضعیف حدیث حسن بن جاتی ہے۔
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق : 201/1)
علامہ طحطاوی حنفی (1231ھ) ایک ضعیف حدیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
والأظهر أنه لا ينزل عن درجة الحسن لاعتضاده بكثرة الطرق والشواهد .
راجح بات یہی ہے کہ یہ حدیث کثرت طرق اور شواہد سے قوت پانے کی بنا پرحسن درجہ سے کم نہیں۔
(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، ص : 66)
علامہ ابن عابدین شامی حنفی (1252ھ ) لکھتے ہیں:
يصير الحديث بمجموعها حسنا .
کئی روایات سے مل کر یہ حدیث حسن بن جاتی ہے۔
(رد المحتار على الدر المختار : 419/6)

◈ دیو بند مکتب فکر اور کثرت طرق

صدر مدرس دارالعلوم دیوبند جناب محمود حسن صاحب لکھتے ہیں:
کتب اصول میں تو یہ امر موجود ہے کہ اگر کسی حدیث کے طرق متعددہ ضعیفہ موجود ہوں تو حدیث مذکور بوجہ تعدد طرق حسن بن جاتی ہے اور قوی سمجھی جاتی ہے۔ (ایضاح الأدلة، ص : 60، طبع دهلی، 1330ھ)

◈ بریلوی مکتب فکر اور کثرت طرق

امام بریلویت جناب احمد رضا خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں:
حسب ذیل چیزوں سے حدیث ضعیف حسن بن جاتی ہے:
➊ دو یا زیادہ سندوں سے روایت ہو جانا، اگر چہ وہ سب اسناد میں ضعیف ہوں، یعنی اگر ایک حدیث چند ضعیف روایتوں سے مروی ہو جاوے تو اب وہ ضعیف نہ رہی، حسن بن گئی (مرقات ، موضوعات کبیر، شامی، مقدمه مشکوۃ شریف مولانا عبد الحق، رساله اصول حدیث للجرجانی، اوّل ترندی شریف وغیرہ)۔ (جاء الحق ، حصہ دوم ص : 5 )
نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کے حوالے سے صحیح احادیث میں احناف نے باطل تاویلات کی بہت کوششیں کیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے صحابہ کرام کے لفظ سنت کو سنت نبوی مانے سے بھی انکار کر دیا۔ حالانکہ ہم نے حسن سند کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مبارک بھی پیش کیا ہے اور عمل مبارک بھی۔ مگر مقلدین دوست ہیں کہ ماننے کا نام نہیں لیتے۔ انہوں نے ان روایات کے ثقہ و صدوق راویوں کے بارے میں ناقابل اعتبار اعتراضات کو آڑ بنا کر انہیں رد کرنے کا حیلہ کیا۔ اس طرح انہوں نے یہ بلند بانگ دعوئی کیا کہ کسی صحیح حدیث سے یہ بات ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کی ہو یا اس کا حکم دیا ہو، جیسا کہ انوار خورشید دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
کسی ایک بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نماز جنازہ میں قراءت کرتے تھے یا دوسروں کو قراءت کا حکم دیتے تھے۔
(حدیث اور اہلحدیث ، ص : 870 )
اپنی دلیل کے طور پر انوار صاحب نے علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کا یہ قول بھی پیش کیا :
ويذكر عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه أمر أن يقرأ على الجنازة بفاتحة الكتاب، ولا يصح إسناده .
نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے ذکر کیا جاتا ہے کہ آپ نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا ہے لیکن اس کی سند صحیح نہیں ہے۔ (زاد المعاد:1471)
جہاں تک علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی بات ہے تو یہ ان کا علمی تسامح ہے۔ اصولِ محدثین کے مطابق یہ بات درست نہیں کیونکہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے حکم کے بارے میں جو سندیں ذکر کی ہیں، وہ اصولِ محدثین کے مطابق صحیح ہیں۔
اب رہے جناب انوار خورشید صاحب اور دیگر احناف تو اگر ان کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ ان سندوں میں کچھ کمزوری ہے تو پھر بھی ان کے اپنے مسلم اصول کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود نماز جنازہ میں قراءت کرنے اور اس کا حکم فرمانے والی روایات آپس میں مل کر قابل حجت ہو جائیں گی۔
احناف یا تو اس مسئلے کو رد کرنے کے لیے اپنے ایک ایسے اصول کی قربانی دیں گے جس کو وہ اکثر مسائل میں اپنا ہتھیار سمجھتے ہیں یا پھر وہ اپنے اصول کی لاج رکھتے ہوئے ان احادیث کو صحیح مان لیں گے۔

◈ حدیث ام شریک اور کثرت طرق

جنازہ میں فاتحہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک والی ام شریک رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ حدیث کی ایک سند وہاں ذکر ہوگئی تھی، اس کے بارے میں جناب محمد امین اوکاڑوی صاحب نے لکھا ہے :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تلخیص الحبیر میں اس کی سند کو بھی ضعیف کہا ہے۔
( مجموعہ رسائل: 274/1)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی یہ جس بات کی طرف اوکاڑوی صاحب نے اشارہ کیا ہے، اس کی اصل عبارت یوں ہے :
وفي إسناده ضعف يسير .
اس کی سند میں ہلکی سی کمزوری ہے۔(التلخيص الحبير : 279/2)
ثابت ہوا کہ اگر اس سند میں کمزوری مان بھی لی جائے تو وہ بالکل تھوڑی سی ہے جو کہ احناف کے بقول بھی دوسری سند کے ملنے سے بالکل ختم ہو جائے گی، دوسری سند یہ ہے:
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقال محمد بن المثنى : حدثني حماد بن بشير أبو عبد الله، سمع مرزوقا أبا عبد الله الشامي، سمع شهر بن حوشب عن أم شري
(التاريخ الكبير للبخاري : 22/3)
اس روایت کے پہلے راوی اور امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ محمد بن مثنی (252 ھ ) ”ثقہ ثبت“ امام ہیں۔ دوسرے راوی حماد بن بشیر رحمہ اللہ کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ”ثقہ“ قرار دیا ہے جبکہ کسی اور امام نے اس پر کوئی جرح نہیں کی۔ لہذا یہ ”مجہول الحال“ راوی ہے۔ تیسرے راوی مرزوق ابو عبد اللہ شامی ہیں جو کہ ”حسن الحدیث“ ہیں۔ چوتھے راوی شہر بن حوشب میں اور وہ بھی ”حسن الحدیث“ ہیں جیسا کہ باب اول کی فصل چہارم میں تفصیلاً بیان کیا جا چکا ہے۔
معلوم ہوا کہ اس سند میں صرف ایک ہی کمزوری ہے اور وہ ہے حماد بن بشیر کے حالات زندگی معلوم نہ ہونا اور احناف مانتے ہیں کہ سند میں اگر کوئی راوی مجہول ہو تو اس سے روایت سخت نہیں بلکہ کم ضعف والی ہوتی ہے۔ اگر بالفرض باب اوّل میں ذکر کردہ سند میں کوئی کمزوری تھی تو ان دونوں سندوں کے آپس میں ملنے کی وجہ سے وہ احناف کے اپنے اصول کے مطابق صحیح ہو گئی۔

◈ حدیث اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا اور کثرت طرق

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم مبارک کا معاملہ ہے۔ ہم باب اوّل ہی میں اس کی دو حسن سندیں ذکر کر چکے ہیں۔ ایک امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ کبیر میں بیان کی ہے اور دوسری امام طبرانی رحمہ اللہ نے اپنی کبیر میں ذکر کی ہے۔
دونوں سندیں ایک بار پھر مزید وضاحت کے ساتھ ملاحظہ فرمالیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کی ذکر کردہ روایت ان کی سند کے ساتھ یوں ہے :
وقال معلى : حدثنا محمد بن حمران، قال : حدثني أبو عبد الله الشامي عن أبى جعفر، عن شهر بن حوشب، عن أسماء بنت يزيد، عن النبى صلى الله عليه وسلم، قال : اقرؤوها على الجنائز .
معلی بن اسد نے بیان کیا کہ ہمیں محمد بن حمران نے بیان کیا : مجھے ابوعبد اللہ شامی نے ابو جعفر کے واسطے سے حدیث بیان کی۔ وہ شہر بن حوشب کے واسطے سے اسماء بنت یزید سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کیا کرو۔“
(التاريخ الكبير للبخاري : 22/3)
امام طبرانی رحمہ اللہ نے یہ روایت یوں بیان کی ہے :
حدثنا على بن عبد العزيز : ثنا معلى بن أسد العمي : ثنا محمد بن حمران : ثنا مرزوق أبو عبد الله الشامي عن أبى جعفر، عن شهر بن حوشب، عن أسماء بنت يزيد، قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا صليتم على الجنازة فاقرؤوا بفاتحة الكتاب .
ہمیں علی بن عبد العزیز نے بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں معلی بن اسد عمی نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن حمران نے بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مرزوق ابو عبد اللہ شامی نے ابو جعفر کے واسطے سے شہر بن حوشب سے بیان کیا۔ وہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز جنازہ ادا کرو تو سورہ فاتحہ کی قراءت کرو۔“
(المعجم الكبير للطبراني، مسند النساء، باب الألف أسماء بنت يزيد بن السكن الأنصارية، رقم الحديث : 413)

◈ اوکاڑوی صاحب کی غلط فہمی

جناب اوکاڑوی صاحب لکھتے ہیں:
اس کی سند میں معلی بن حمران ہے جس کا ثقہ ہونا ثابت نہیں، پس حدیث ضعیف ہے۔ ( مجموعہ رسائل : 274/1 )
حالانکہ اس روایت کی کسی بھی سند میں معلی بن حمران نامی کوئی راوی موجود نہیں۔ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ یا ان کے کسی کاتب نے غلطی سے محمد بن حمران کو معلی بن حمران کر دیا جیسا کہ محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قوله : معلى يبدو أنه تحرف على الهيثمي، فإن الراوي فى الطبراني محمد، وهو معروف مترجم فى الجرح والتعديل، والتهذيب، وغيرهما، وهو الراوي لهذا الحديث عن مرزوق .
معلوم ہوتا ہے کہ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کا معلیٰ کہنا ان کا وہم ہے۔ کیونکہ طبرانی میں محمد نامی راوی موجود ہے اور وہ معروف ہے، الجرح والتعدیل، تہذیب وغیرہما میں اس کا ترجمہ موجود ہے اور وہی مرزوق سے اس حدیث کو بیان کرتا ہے۔(سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة : 1093/14)
یوں اوکاڑوی صاحب کا اس کی سند پر کیا گیا اعتراض خود ان کی کم علمی ہے۔ اور اس حدیث کی دونوں مذکورہ سندوں کے سارے راوی ثقہ و صدوق ہیں۔ پہلی سند کے پہلے راوی معلی بن اسد ثقہ ثبت ہیں ۔ دوسرے راوی محمد بن حمران جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں۔ تیسرے راوی ابو عبد اللہ شامی صدوق ہیں۔ چوتھے راوی ابو جعفر سے مراد حماد بن جعفر بصری ہے جیسا کہ امام طبرانی رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے۔ اس کی ثقاہت کے بارے میں باب اول کی فصل چہارم میں تفصیلی بات ہو چکی ہے۔ پانچویں راوی شہر بن حوشب بھی جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں۔ ان کے بارے میں بھی باب اول کی فصل چہارم ملاحظہ فرمائیں۔
دوسری سند کے پہلے راوی امام طبرانی کے استاذ علی بن عبد العزیز بغوی صدوق ہیں۔ دوسرے راوی وہی مذکورہ سند والے معلی بن اسد ہیں جو کہ ”ثقہ ثبت“ تھے ۔ اس سے آگے سند بالکل وہی ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے۔
یوں یہ حدیث بذات خود صحیح ہے۔ اگر بالفرض اس کی سندوں میں کچھ کمزوری پائی بھی جاتی ہو تو احناف کے مسلم اصول کے مطابق بھی یہ دونوں مل کر قابل حجت بن جاتی ہیں۔ یوں نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کا حکم دینا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باعتراف احناف ثابت ہو گیا۔
اپنے اصولوں کے مطابق صحیح ثابت ہو جانے کے بعد بھی اکثر دیو بندی بھائی حق بات تسلیم کرنے سے انکاری ہو جاتے ہیں،اس کی وجہ انہی کے بہت بڑے عالم کی زبانی سنیے۔
علامہ انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب فرماتے ہیں:
وقد بلوتهم أنهم يسوون القواعد للنقيضين، ف أى رجاء منها بعده، فإذا رأى أحدهم حديثا ضعيفا وافق مذهبه؛ يسوي له ضابطة، ويقول : إن الضعيف ينجبر بتعدد الطرق، وإن رأى حديثا صحيحا خالف مذهبه، يسوي له ضابطة أيضا، ويقول : إنه شاذ، وهكذا جربتهم فى مواضع يفعلون القواعد حسب مرادهم من الطرفين
میں نے مقلدین کو آزمایا ہے، یہ لوگ باہم متضاد قاعدے بنا لیتے ہیں، پھر ان قواعد سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟ کوئی مقلد کسی ضعیف حدیث کو اپنے مذہب کے موافق دیکھتا ہے تو اس کے لیے قاعدہ بناتا ہے کہ ضعیف حدیث کثرت طرق سے قوی ہو جاتی ہے، لیکن جب کسی صحیح حدیث کو اپنے مذہب کے مخالف پاتا ہے تو اس کے لیے بھی ضابطہ گھڑتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تو شاذ ہے۔ میں نے مقلدین کو بہت سے مواقع پر یہ حرکت کرتے دیکھا ہے۔ یہ لوگ اپنی خواہش کے مطابق باہم متضاد قاعدے بناتے ہیں۔
(فيض الباري على صحيح البخاري : 348/2)
اب ان کے پاس یہ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ دلائل شرعیہ سے ہمیں کوئی واسطہ نہیں بلکہ ہم تو مقلد ہیں اور ہمیں صرف امام ابو حنیفہ کی تقلید سے سروکار ہے، جیسا کہ ان کے شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی صاحب ( 1339ھ) نے ایک جگہ اس بات کا برملا اعتراف کیا ہے، کہتے ہیں:
الحق والإنصاف أن الترجيح للشافعي فى هذه المسألة، ونحن مقلدون، يجب علينا تقليد إمامنا أبى حنيفة
حق وانصاف کی بات تو یہ ہے کہ اس مسئلہ میں (دلائل کے اعتبار سے) امام شافعی کے مذہب کو ترجیح حاصل ہے، لیکن ہم مقلد ہیں، ہم پر اپنے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید واجب ہے۔
(تفـسير الترمذي، ص: 36 ، وفي نسخة، ص:84)
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کو قبول کرنے کی ہمت عطا فرمائے، یہی حق وانصاف کا تقاضا ہے۔

تقلید کی شرعی حیثیت اور جنازہ میں فاتحہ

مقلدین بھائیوں کا کہنا ہے کہ ہر شخص پر چار ائمہ یعنی امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ میں سے کسی نہ کسی کی تقلید واجب ہے۔ حق ان چاروں مذاہب میں منحصر ہے۔ ان چاروں ائمہ کا مذہب برحق ہے۔ اگر کوئی ان چاروں میں سے کسی بھی امام کے بتائے ہوئے شرعی مسئلے پر عمل کر لے تو وہ حق بجانب ہوگا۔
علامہ ابن نجیم مصری ابوحنیفہ ثانی (970ھ) لکھتے ہیں:
وما خالف الأئمة الأربعة، مخالف للإجماع .
ائمہ اربعہ کے خلاف فیصلہ اجماع کے خلاف فیصلہ ہے۔
(الأشباه والنظائر ، ص : 92)
ملا جیون حنفی (1130 ھ ) لکھتے ہیں:
والإنصاف أن انحصار المذاهب فى الأربعة واتباعهم فضل إلهي وقبولية من عند الله .
انصاف کی بات یہ ہے کہ برحق مذاہب صرف چار ہیں اور انہی چار مذاہب کی اتباع کرنا فضل الہی اور من جانب اللہ قبولیت ہے۔
(تفسیرات احمدیہ، ص : 346)
یعنی احناف کے نزدیک ائمہ اربعہ میں سے ہر ایک کی ہر بات برحق ہے اور اس پرعمل کرنے والے اہل حق ہیں۔
قارئین کرام باب اول کی فصل ششم میں ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ ان ائمہ کرام میں سے امام ابوحنیفہ اور امام مالک سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے یا نہ پڑھنے کے بارے میں باسند صحیح کچھ ثابت نہیں، جبکہ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ دونوں نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے قائل و فاعل تھے۔ قارئین کے لیے ہم ایک بار پھر ان کا فتویٰ اور عمل پیش کر رہے ہیں:

◈ امام شافعی رحمہ اللہ (204ھ ) کا فتویٰ

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فلذلك نقول : يكبر أربعا على الجنائز؛ يقرأ فى الأولى بأم القرآن، ثم يصلي على النبى صلى الله عليه وسلم، ويدعو للميت، وقال بعض الناس : لا يقرأ فى الصلاة على الجنازة، إنا صلينا على الجنازة، وعلم نا كيف سنة الصلاة فيها لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا وجدنا لرسول الله صلى الله عليه وسلم سنة، اتبعناها .
اسی (دلائل شرعیہ کی موجودگی) کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہی جائیں۔ پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ کی قراءت کی جائے۔ پھر (دوسری تکبیر کے بعد ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا جائے اور ( تیسری تکبیر کے بعد ) میت کے لیے دعا کی جائے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نماز جنازہ میں قراءت نہ کی جائے لیکن ہم نے نماز جنازہ ادا کی ہے اور اسے پڑھنے کا محمدی طریقہ ہمارے علم میں آگیا ہے۔ ہمارا وطیرہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ کی کوئی سنت ہمارے علم میں آتی ہے تو ہم (اس میں تاویلات کرنے کے بجائے ) اس کی پیروی کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
(كتاب الأم :270/1)

◈ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (240 ھ ) کا عمل

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بیٹے ابو الفضل صالح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
وكان يكبر على الجنازة أربعا، ويرفع يديه مع كل تكبيرة، ويقرأ فاتحة الكتاب فى أول تكبيرة، ثم يسلم تسليمة واحدة .
”میرے والد محترم نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہتے ، ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرتے، پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ کی قراءت کرتے، پھر (چوتھی تکبیر کے بعد ) ایک سلام پھیرتے تھے۔“
(سيرة الإمام أحمد لأبي الفضل صالح بن أحمد، ص : 40)
اگر حنفی حضرات اپنے اس دعوے میں صادق ہیں کہ چاروں ائمہ اور ان کے فتاوی برحق ہیں تو انہیں چاہیے کہ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت ثابت ہو جانے کے بعد جنازہ میں قراءت کو ممنوع کہنے سے باز آ جائیں اور خود عمل نہیں کرنا چاہتے تو مقلد ہونے کے ناطے کم از کم اسے جائز تو سمجھیں، اسے ناجائز یا مکروہ کہہ کر اپنے ہی اصولی موقف کو پامال نہ کریں۔

◈ آخری گزارش

قارئین کرام، اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ کتاب وسنت کے دلائل بھی ملاحظہ فرما چکے ہیں اور فقہاء واسلاف امت کی آراء سے بھی واقف ہو چکے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ احناف کے دلائل کا بھی گہرائی سے مطالعہ کر چکے ہیں اور جان چکے ہیں کہ ان میں کتنا وزن ہے۔
ہمیں افسوس ہے کہ دلائل میں اس قدر تہی دامن ہونے کے باوجود بعض لوگ اہل حق پر طعن و تشنیع کے نشتر چلاتے اور زبان طعن دراز کرتے ہیں۔ ہم پوری کتاب میں انتہائی ضبط سے کام لیتے ہوئے اپنے قلم کو درشتی سے بچا کر نکل گئے ہیں، الحمد للہ لیکن آخر میں بطور شکوہ ایک دو مثالیں پیش کرتے ہیں۔
جناب امین اوکاڑوی صاحب لکھتے ہیں:
سنو، میں تمہیں ببانگ دہل کہتا ہوں۔ عورتوں کی طرح نقاب میں نہ چھپ جانا، گوہ کی طرح بل میں نہ گھس جانا، بچھو کی طرح عقب میں نہ سمٹ بیٹھنا۔
( مجموعہ رسائل :268/1)
نیز لکھتے ہیں:
ہاں، دیکھنا شیطان کی طرح یہ پرو پیگنڈہ نہ کرنا۔۔۔
( مجموعہ رسائل: 269/1)
ہم دیو بندی بھائیوں سے صرف یہ سوال کریں گے کہ کون سا طرز عمل مناسب ہے، جو ہم نے اپنایا یا جو ہمارے ناقدین اختیار کرتے ہیں؟

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے