نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امر
حدیث ام شریک رضی اللہ عنہا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحابیہ سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا کا بیان ہے:
امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نقرأ على الجنازة بفاتحة الكتاب .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کا حکم فرمایا۔
(سنن ابن ماجہ: 1496، التاريخ الكبير للبخاري: 3/22، وسندہ حسن)
علامہ بوصیری نے اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ (مصباح الزجاجہ: 1/267)
جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب (1394ھ) نے بھی اس کی سند کو حسن تسلیم کیا ہے۔ (إعلاء السنن: 6/2567)
اس حدیث کو امام ترمذی، امام ابن ماجہ، حافظ ابن الجوزی، حافظ نووی، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہم نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ البتہ بعض علمائے کرام نے اس حدیث کی صحت میں کچھ شک بھی کیا ہے۔ اس کا تفصیلی تجزیہ ہم ابھی کرتے ہیں:
حماد بن جعفر اور شہر بن حوشب پر اعتراض
درج ذیل دو راویوں کی وجہ سے بعض محدثین کرام نے اس حدیث پر کچھ کلام کیا ہے:
➊ حماد بن جعفر اور ➋ شہر بن حوشب
آئیے دونوں کے حالات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں:
حماد بن جعفر کی توثیق
حماد بن جعفر کے بارے میں:
✿ امام یحیی بن معین رحمہ اللہ (158-233ھ) فرماتے ہیں:
حماد بن جعفر بصري ثقة .
”حماد بن جعفر بصرہ کے باشندے اور ثقہ راوی ہیں۔“ (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 3/134، وسندہ صحيح)
✿ امام ابن شاہین رحمہ اللہ (297-385ھ) نے بھی ثقاہت کا فیصلہ دیا ہے۔ (تاريخ أسماء الثقات: 244)
امام ابن حبان رحمہ اللہ (م 354ھ) کا بھی یہی خیال ہے۔ (كتاب الثقات: 6/221)
حماد بن جعفر پر جرح کی حقیقت
رہا ابو الفتح الازدی کا یہ کہنا کہ:
نسب إلى الضعف .
”اس کی نسبت کمزوری کی طرف کی گئی ہے۔“( تهذيب التهذيب لابن حجر: 3/6)
تو اولاً یہ بات بے سند ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ابو الفتح الازدی خود مجروح راوی ہے۔
(تاريخ بغداد للخطيب: 2/243-244، تاريخ الإسلام للذهبي: 26/564، تهذيب التهذيب لابن حجر: 5/139)
کسی دوسرے راوی کو جرح یا تعدیل کے میزان میں رکھنے والے کا خود جرح سے پاک ہونا ضروری ہے۔
ابو الفتح الازدی خود مجروح ہے
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایک راوی پر ابو الفتح الازدی کی جرح نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وقال أبو الفتح الأزدي منكر الحديث غير مرضي قلت لم يلتفت أحد إلى هذا القول بل الأزدي غير مرضي .
”ابو الفتح الازدی کا کہنا ہے کہ (احمد بن شبیب) منکر الحدیث اور ناپسندیدہ شخصیت ہے۔ میں (ابن حجر) کہتا ہوں کہ کسی محدث نے (ابو الفتح الازدی کی) اس بات کو قابل التفات نہیں سمجھا، بلکہ (محدثین کے نزدیک) الازدی خود ناپسندیدہ شخصیت ہے۔“
(تهذيب التهذيب: 1/32)
تیسری بات یہ ہے کہ ابو الفتح الازدی کا ”اس کی نسبت ضعف کی طرف کی گئی ہے“ کہنا بہت مبہم ہے۔ نہ جانے ابو الفتح الازدی کے علم میں وہ کون سے لوگ تھے جنہوں نے اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ کا ایک شبہہ !
اور رہی یہ بات کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے حماد بن جعفر کے بارے میں فرمایا ہے:
حماد بن جعفر أظنه بصريا منكر الحديث .
”حماد بن جعفر جو کہ میرے خیال میں بصری ہیں، منکر الحدیث ہیں۔“
(الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 2/239)
تو یہ ایک شبہ کی بنا پر ہے۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ کے الفاظ یہ بتا رہے ہیں کہ وہ جس حماد بن جعفر کو منکر الحدیث قرار دے رہے ہیں، اس کے بارے میں انہیں یقین نہیں کہ وہ ہے کون؟ دراصل حماد بن جعفر نامی راوی دو تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حماد بن جعفر پر امام ابن عدی رحمہ اللہ کی جرح ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وفرق أبو حاتم بينه وبين حماد بن جعفر الرازي .
”امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے اس (حماد بن جعفر بصری) اور حماد بن جعفر رازی کو دو الگ الگ شخصیات قرار دیا ہے۔“ (تهذيب التهذيب: 3/6)
کچھ بعید نہیں کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ کی جرح کا مستحق حماد بن جعفر بصری کے بجائے حماد بن جعفر رازی ہو۔ انہوں نے دونوں کو ایک سمجھ لیا ہو، اس لیے جو جرح رازی پر کی جانی تھی وہ بصری پر کر دی۔ شک والے الفاظ اس بات پر واضح دلیل ہیں۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی حماد بن جعفر نامی دو راوی ذکر کیے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ کی اس جرح کا مصداق بالیقین حماد بن جعفر بصری کو نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ صفحات اس بات پر گواہ ہیں کہ امام یحیی بن معین، امام ابن شاہین رحمہ اللہ نے حماد بن جعفر کو بلا شک و تردد ثقہ قرار دیا ہے۔
اب بات ان لوگوں کی مانی جائے گی جو اس بارے میں بالیقین فیصلہ دے رہے ہیں یا ان کی جو خود اس حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کر رہے ہیں؟
شہر بن حوشب کی توثیق
شہر بن حوشب راوی جمہور محدثین کرام کے نزدیک حسن الحدیث ہیں۔ انہیں امام احمد بن حنبل (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/383، وسندہ صحيح)، امام یحیی بن معین (أيضا، وسندہ صحيح)، امام ابو زرعہ (أيضا، وسندہ صحيح)، امام عجلی (معرفة الثقات: 741)، امام بخاری (جامع الترمذي، تحت الحديث: 2121، 2697)، امام ابو حاتم رازی (الجرح والتعديل: 4/383)، امام ترمذی (جامع الترمذي، تحت الحديث: 3871) وغیرہم رحمہ اللہ نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے۔
شہر بن حوشب پر جرح کی حقیقت
ان پر جتنی بھی جروح ہیں، وہ غیر مؤثر ہیں۔
حافظ ابن القطان فاسی رحمہ اللہ (628ھ) اس پر جرح کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
ولم أسمع لمضعفيه حجة وما ذكروه كله إما لا يصح وإما خارج على مخرج لا يضره .
”میں نے اسے ضعیف قرار دینے والوں سے کوئی دلیل نہیں سنی۔ جو باتیں انہوں نے ذکر کی ہیں وہ یا تو ثابت ہی نہیں یا پھر وہ ایسی ہیں کہ اس (کی ثقاہت) کو نقصان نہیں دیتیں۔“
(بيان الوهم والإيهام: 3/321)
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وقد جرحه جماعة لكن وثقه الأكثرون وبينوا أن الجرح كان مستيدا إلى ما ليس بجارح .
”اس پر محدثین کی ایک جماعت نے جرح کی ہے، لیکن زیادہ محدثین کرام نے اسے ثقہ ہی قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ (شہر بن حوشب پر) جرح کی بنیاد ایسی چیز ہے جو موجب جرح نہیں۔“
(المجموع شرح المهذب: 1/370)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) نے اس کے ترجمہ کے شروع میں ”صح“ لکھا ہے، اس کا مطلب ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک اس پر جرح مردود ہے اور توثیق راجح ہے، جیسا کہ حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وهو إشارة منه إلى أن العمل على توثيق ذلك الرجل .
”یہ (صح) ان (حافظ ذہبی رحمہ اللہ) کی طرف سے اس بات کا اشارہ ہے کہ عمل اس آدمی کی توثیق پر ہی ہوگا۔“
(البدر المنير: 1/608)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ:
الرجل غير مدفوع من صدق علم والاحتجاج به مترجح .
”اس راوی کا صدق و علم ثابت ہے، اس کا قابل حجت ہونا ہی راجح ہے۔“
(سير أعلام النبلاء: 4/378)
حافظ بوصیری رحمہ اللہ (807ھ) اس کے بارے میں کہتے ہیں:
وحديثه حسن .
”اس کی حدیث حسن ہوتی ہے۔“
(مجمع الزوائد: 10/108)
نیز فرماتے ہیں:
والصحيح أنهما ثقتان ولا يقدح الكلام فيهما .
”صحیح بات یہ ہے کہ (عبد الحميد بن بہرام اور شہر بن حوشب) دونوں ثقہ ہیں، ان کے بارے میں جرحی کلام موجب قدغن نہیں۔“
(مجمع الزوائد: 1/222)
یوں یہ حدیث سند کے اعتبار سے بالکل بے غبار ہے۔ اس کی سند بلا شک و شبہ حسن ہے۔ مولانا ظفر احمد تھانوی صاحب کی طرف سے اس حدیث کے حسن ہونے کا اعتراف گزشتہ صفحات میں بیان ہو چکا ہے۔ لیکن اس حدیث کو حسن ماننے کے باوجود تھانوی صاحب اور دیگر دیوبندی علماء نے اس پر اعتراضات بھی کیے ہیں۔
آئیے ان کا تجزیہ کرتے ہیں:
حدیث ام شریک رضی اللہ عنہا پر اعتراضات کا منصفانہ تجزیہ
➊ نامعلوم عورت کی روایت کیسے قبول ہو؟
مولانا ظفر احمد تھانوی صاحب (1394ھ) لکھتے ہیں:
واختلف فى تعيينها اختلافا كثيرا كما يظهر من الإصابة وجهالة الصحابة وإن كانت لا تضر ولكن يبعد أن يخفى أمر النبى صلى الله عليه وسلم لا سيما أمره فى صلاة الجنازة التى حالها أكشف للرجال من النساء على أحلة الصحابة وتعرفه هذه المجهولة إن ذلك لعجيب .
”اس (سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا) کی تعیین میں بہت زیادہ اختلاف ہے جیسا کہ (حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب) ”الإصابة “کے مطالعہ سے واضح ہے۔ اگرچہ صحابہ کے حالات معلوم نہ ہونا مضر نہیں لیکن یہ بات بعید ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخفی رہ جائے اور اس نامعلوم صحابیہ کو اس کا علم ہو جائے، خصوصاً جب وہ حکم نماز جنازہ سے متعلق ہو جس کا معاملہ عورتوں کی نسبت مردوں پر زیادہ عیاں ہوتا ہے۔ یہ بہت عجیب ہے۔“ (إعلاء السنن: 6/2567)
تجزیہ
● جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تو کیا کسی ایک ادنیٰ صحابی سے بھی یہ بات ثابت نہیں کہ وہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کو چھوڑتا ہو یا اس سے منع کرتا ہو۔ اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جو آثار پیش کیے جاتے ہیں، ان کا بیان باب دوم میں آئے گا۔ ان شاء الله!
● سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سمیت کئی ایک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کرتے تھے اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی قرار دیتے تھے، جیسا کہ اگلی فصل میں تفصیل سے بیان کیا جائے گا۔ کیا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما جلیل القدر صحابی نہیں ہیں؟
● جب مولانا تھانوی صاحب نے اس کی سند کو حسن تسلیم کر لیا ہے تو گویا انہوں نے اعلان کیا ہے کہ واقعی سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کا حکم سنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالی شان کو سن لینے اور اس کی سند کو حسن تسلیم کر لینے کے بعد بھی اس طرح کے اشکالات پیش کرنا کسی متبع سنت مسلمان کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اتباع سنت کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین!
● سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا نے وہی بات بیان کی ہے جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے بیان کی ہے۔ گزشتہ اوراق میں تفصیلاً بیان ہو چکا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کو سنت نبوی قرار دیا ہے، نیز سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بیان کیا ہے کہ ”سورہ فاتحہ کی قراءت کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔“ اور اس حدیث میں سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کا حکم فرمایا۔“
اب ہم فیصلے کا اختیار منصف مزاج قارئین کے ہاتھ میں دیتے ہوئے ان سے سوال کرتے ہیں کہ سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا نے جو بات بیان کی ہے، وہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بات کے موافق ہے یا مخالف؟
➋ اصولیوں کی بے اصولی: حکم نبوی پر عمل ضروری نہیں!
مولانا ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب اس حدیث پر ایک اور اعتراض وارد کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
وأيضا فقول الصحابي أمرنا النبى صلى الله عليه وسلم بكذا قد اختلف فى دلالته على الوجوب فإن الوجوب مختص بصيغة افعل دون لفظ الأمر كما ذكره الأصوليون مفصلا .
”پھر یہ بات بھی ہے کہ کسی صحابی کا یہ بیان کرنا کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں حکم دیا، وجوب پر دلیل بنتا ہے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے، کیونکہ وجوب صرف افعل (کرو) کے لفظ کے ساتھ ہوتا ہے، لفظ حکم کے ساتھ نہیں ہوتا جیسا کہ اصولیوں نے تفصیلاً بیان کیا ہے۔“ (إعلاء السنن: 6/2567)
تجزیہ
● قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مبارک آجانے کے بعد اس سے جان چھڑانے کے لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ واجب نہیں۔ یہ انتہائی غلط روش ہے۔ کیا کسی مسلمان کو ایسا زیب دیتا ہے؟
ذرا تصور کریں۔۔
ہمارے دیوبندی بھائی اللہ کے لیے کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کریں، خیالات کی دنیا میں مدینہ پہنچیں، اپنے آپ کو کچھ دیر کے لیے محفل نبوی میں لے جائیں، جہاں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ جاں نثار موجود ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت میں اس قدر غرق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا ایک قطرہ بھی زمین پر نہیں گرنے دے رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو اس انہماک سے سن رہے ہیں کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، فداکاری کا یہ عالم ہے کہ آقا اگر حکم دیں تو وہ پہاڑوں سے کود جائیں، سمندروں کے سینوں میں گھس جائیں اور سب کچھ ان کی خاطر لٹا کر یہ سمجھیں کہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ بارگاہ عزت مآب میں اپنی طرف سے جان تک کے نذرانے کو حقیر سمجھتے ہوئے یہ خواہش کریں کہ کاش ہمارے پاس ایسی ہزاروں جانیں ہوں اور ہم سب آقا کے قدموں پر نچھاور کرتے ہوئے عرض کریں کہ آقا! یہ حقیر سا ہدیہ اگر قبول ہو جائے تو آپ کی بڑی نوازش اور ہماری بڑی سعادت ہوگی۔
اب عالم خیالات سے عالم حقیقت کی طرف لوٹیں اور سوچیں کہ ان فداکاروں کو اگر کوئی یہ خبر سنائے کہ آقا نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کا حکم دیا ہے تو ان کا کیا طرز عمل ہوگا؟ کیا وہ یہ کہیں گے کہ اس سے وجوب ثابت نہیں ہوتا؟ ان ”اصولیوں“ کو اللہ سنبھالے کہ انہوں نے دین کو کیا گورکھ دھندا بنا دیا ہے! ہمارے لیے معیار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جذبہ اتباع ہے یا ”اصولیوں“ کی موشگافیاں؟
دیگر قرائن کا تقاضا
پھر خارجی قرائن بھی اس فرمان نبوی کے وجوب پر ہی دلالت کرتے ہیں۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”کوئی نماز سورہ فاتحہ کی قراءت کے بغیر قابل قبول نہیں۔“ اسی طرح قرآن کریم میں قراءت کا حکم ہے جس کی بنا پر فقہائے احناف نے بھی نماز میں مطلق قراءت کو فرض قرار دیا ہے۔ اس کا تفصیلی بیان باب چہارم کی فصل اول میں آ رہا ہے۔
جب جنازہ بھی نماز ہے تو اس میں بھی قراءت فرض ہے۔ اس لحاظ سے بھی سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ حدیث میں حکم نبوی سے مراد یہی ہے کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت فرض ہے۔
➌ اس کی سند میں کلام ہے!
مولانا ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب تیسرا اعتراض داغتے ہوئے لکھتے ہیں:
وأيضا ففي سنده كلام كما تقدم وأثر ابن عباس أقوى منه سندا وقد صرح بكون القرائة سنة فيحمل الأمر فى حديث أم شريك على الندب كي لا يعارض ما هو أقوى منه فيصير ساقط الاعتبار .
”پھر جیسا کہ بیان ہو چکا ہے، اس کی سند میں بھی کلام ہے، جبکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سند کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے۔ اس میں انہوں نے قراءت کے سنت ہونے کی صراحت کی ہے۔ لہذا سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا کی حدیث میں جو حکم موجود ہے اسے استحباب پر محمول کیا جائے گا تاکہ وہ اپنے سے زیادہ قوی روایت کے مخالف ہو کر غیر معتبر نہ ہو جائے۔“
(إعلاء السنن: 6/2567)
تجزیہ
● ضروری نہیں کہ جس سند میں کلام ہو، وہ ضعیف ہو جاتی ہے، بلکہ اس کلام کی نوعیت کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ حدیث پر جو کلام تھی، اس کی نوعیت اور حقیقت آپ نے ملاحظہ کی۔ خود تھانوی صاحب اسے ”حسن“ یعنی لائق حجت تسلیم کر چکے ہیں۔ اب اس کی سند میں کلام کا بہانہ محض اس حدیث پر عمل نہ کرنے کا عذر لنگ ہے۔
➋ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث پر تفصیلاً بات ہم فصل دوم میں بیان کر چکے ہیں جہاں یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ محدثین و فقہائے کرام نے اس حدیث سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کا وجوب ہی سمجھا ہے۔ نیز اس حدیث میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مقصود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ طریقہ مبارک بیان کرنا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ میں اختیار کرتے تھے۔ اس بیان کا مقصود نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی فرضیت کی نفی نہیں۔
پھر فصل سوم میں ہم سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کر چکے ہیں جس میں انہوں نے نماز جنازہ میں تکبیر، درود، دعا اور سلام کو بھی سنت قرار دیا ہے۔ اگر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سنت کہنے سے مراد فرضیت کی نفی ہے تو سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق نماز جنازہ میں تکبیر، درود، دعا اور سلام میں سے کوئی چیز بھی فرض نہیں رہی۔ اس حدیث کی روشنی میں حنفی بھائیوں کے نزدیک نماز جنازہ کی ترکیب نہ جانے کیا ہوگی؟
● بالفرض تھوڑی دیر کے لیے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کو فرض کے مقابلے میں سنت ہی مان لیا جائے تو کیا احناف اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟ ان کے مطابق تو نماز جنازہ میں قراءت اصلاً ممنوع ہے، جائز ہی نہیں جیسا کہ جناب انوار خورشید دیوبندی صاحب نے عنوان ہی یہ قائم کیا ہے کہ:
”نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ اور دوسری سورت بطور قراءت پڑھنا جائز نہیں۔“ (حدیث اور اہل حدیث، ص: 861)
معلوم ہوا کہ یہ تاویلات تو محض حدیث پر عمل سے بچنے کے بہانے ہیں۔
➎ یہ حکم عورتوں کے ساتھ خاص تھا
جناب امین اوکاڑوی دیوبندی صاحب اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:
”عجیب بات ہے کہ عورتیں جن پر جنازہ پڑھنا فرض نہیں، ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا لیکن مرد جن پر جنازہ پڑھنا فرض کفایہ ہے، ان کو ایک مرتبہ بھی فاتحہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔“ (مجموعہ رسائل: 1/263)
تجزیہ
● عجیب بات تو یہ ہے کہ اوکاڑوی صاحب کو اس حدیث سے وہ بات سوجھی جو خیر القرون سے لے کر آج تک کسی محدث و فقیہ نے نہیں کی۔ دیوبندی بھائیوں کی خدمت میں عرض ہے کہ امرنا (ہمیں حکم دیا) کے لفظ سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم مسلمانوں کو حکم دیا۔ اسے عورتوں کے ساتھ خاص قرار دے کر اعتراض کرنا محدثین و فقہائے کرام کے فہم کو لات مارنے کے مترادف ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو جن فقہائے دین نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے، وہ صراحت کرتے کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت عورتوں کے لیے ضروری ہے، مردوں کے لیے نہیں۔ لیکن ایسا کہیں بھی کسی سے بھی منقول نہیں۔
● سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نعق عن الجارية شاة وعن الغلام شاتين .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیں حکم فرمایا کہ ہم بچی کی طرف سے ایک بکری اور بچے کی طرف سے دو بکریوں کے ساتھ عقیقہ کریں۔“
(مسند الإمام أحمد: 6/158، جامع الترمذي: 1513، وقال: حسن صحيح، سنن ابن ماجه: 3163، وسندہ صحيح)
بعض لوگوں نے تو عقیقے کے اسلامی شعار کا مذاق اڑاتے ہوئے اسے مکروہ قرار دیا ہے، لیکن ہم ان لوگوں سے مخاطب ہیں جو اسے سنت سمجھتے ہیں۔ کیا ان کے نزدیک یہ حکم عورتوں کے ساتھ خاص ہے؟ کیا وہ اوکاڑوی صاحب کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس حدیث سے جان چھڑانے کے لیے یہ کہہ سکتے ہیں کہ: ”عجیب بات ہے کہ عورتیں جن پر روپیہ پیسہ کمانا فرض نہیں، ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقہ کرنے کا حکم دیا۔“
اگر اس حدیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد خاص عورتیں نہیں، بلکہ دیگر احادیث کی روشنی میں تمام مسلمان مراد ہیں تو سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا کی حدیث سے بھی دیگر احادیث کی روشنی میں تمام مسلمان مراد کیوں نہیں لیے جاتے؟
➎ حدیث ام شریک رضی اللہ عنہا پر دعوی نسخ
جناب امین اوکاڑوی اس حدیث پر ایک اور اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
دوسری بات یہ ہے کہ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ نهينا عن اتباع الجنائز کہ ہم عورتوں کو جنازہ پڑھنا تو کجا اس کے ساتھ جانے سے بھی روک دیا گیا۔ چنانچہ کسی حدیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ اس وقت عورتیں جنازہ گاہ میں جا کر نماز پڑھتی ہوں۔ پس یہ اس زمانہ کی حدیثیں ہیں جب عورتیں بھی جنازہ پڑھ لیا کرتی تھیں۔“ (مجموعہ رسائل: 1/263)
تجزیہ
● جناب اوکاڑوی صاحب نے اپنی تقلیدی ضرورت کے پیش نظر حدیث کے آدھے الفاظ ذکر کیے ہیں۔
حدیث کے پورے الفاظ
پوری حدیث یوں ہے:
نهينا عن اتباع الجنائز ولم يعزم علينا .
”ہمیں جنازے کے ساتھ جانے سے روکا گیا لیکن اس بارے میں سختی نہیں کی گئی۔“ (صحيح البخاري: 1278، صحيح مسلم: 938)
یعنی عورتوں کو منع تو کیا گیا ہے لیکن اگر وہ ایسا کریں تو ان پر حرام نہیں۔ لہذا اس حدیث سے سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا کی حدیث کو منسوخ قرار دینے کی کوشش کرنا نہایت ناعانصافی والی بات ہے۔
عورتوں کے لیے جنازہ پڑھنا منسوخ نہیں ہوا
● صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک عورت کے لیے جنازہ پڑھنا منسوخ نہیں ہوا۔ اس کی دلیل میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں درج ذیل روایت کافی ہے:
توفي عبد الرحمن بن أبى بكر فى منزل كان فيه فحملناه على ركابنا ستة أميال إلى مكة وعائشة غائبة فقدمت بعد ذلك فقالت أروني قبره فأروها فصلت عليه .
”عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما جس گھر میں رہائش پذیر تھے، اسی میں فوت ہوئے۔ ہم ان کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر مکہ سے چھ میل دور (قبرستان میں) لائے۔ ان دنوں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سفر پر تھیں۔ وہ کچھ دن بعد تشریف لائیں تو فرمایا: ’مجھے ان کی قبر دکھاؤ۔‘ لوگوں نے ان کو قبر دکھائی تو آپ رضی اللہ عنہا نے قبر پر نماز جنازہ ادا کی۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 3/41، الرقم: 11939، مصنف عبد الرزاق: 3/815، الرقم: 6539، وسندہ صحيح)
اگر عورتوں کے لیے نماز جنازہ پڑھنا ممنوع قرار دیا گیا ہوتا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس ممنوع کام کا ارتکاب کبھی نہ کرتیں۔
احناف کے گھر سے گواہی
● سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی جو حدیث پیش کر کے اوکاڑوی صاحب نے عورتوں کے لیے نماز جنازہ کی مطلق ممانعت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اسی حدیث کی شرح میں شارح بخاری علامہ بدر الدین عینی حنفی رحمہ اللہ (855ھ) لکھتے ہیں:
ولم يعزم علينا يفتضي أن يكون النهي نهي تنزيه وقد ورد فى هذا الباب أحاديث تدل على الجواز .
”(اور ہم پر اس بارے میں سختی نہیں کی گئی) والے الفاظ کا تقاضا ہے کہ یہاں ممانعت تنزیہی ہو (یعنی بچنا بہتر ہے، اگر کوئی ایسا کر لے تو جائز ہے)۔ اس بارے میں کئی احادیث بھی موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کام (عورتوں کے لیے جنازہ کے ساتھ جانا) جائز ہے۔“
(عمدة القاري شرح صحيح البخاري للعيني، كتاب الجنائز، باب اتباع النساء الجنائز، قبل الحديث: 8721)
اب دیوبندی بھائی خود ہی اندازہ کر لیں کہ اوکاڑوی صاحب کی بات کہاں تک درست ہے؟
دو رنگی خوب نہیں، یک رنگ ہو جا
● ہم تھوڑی دیر کے لیے اپنے دیوبندی بھائیوں کی توجہ اس طرف بھی چاہیں گے کہ ایک طرف تو مولانا ظفر احمد تھانوی صاحب نے أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا) کے واضح الفاظ کو بھی وجوب کی دلیل نہیں سمجھا حالانکہ اس فرمان نبوی کے واجب نہ ہونے پر کوئی دلیل بھی نہیں جیسا کہ ہم اسی حدیث کے ضمن میں بیان کر چکے ہیں لیکن دوسری طرف جناب اوکاڑوی صاحب نے نهينا (ہمیں منع کیا گیا) کے الفاظ کو ممانعت، بلکہ نسخ پر محمول کر لیا ہے، حالانکہ محدثین اور علمائے احناف کے نزدیک بھی کئی احادیث سے اس کا جواز ثابت ہے۔ کیا انصاف پسندی اسی روش کا نام ہے؟
➏ جنازہ میں فاتحہ کی قراءت کے نسخ کا دعویٰ
جناب امین اوکاڑوی صاحب حدیث ام شریک رضی اللہ عنہا کے خلاف اپنا آخری حربہ آزماتے ہوئے لکھتے ہیں:
”آخری زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز جنازہ میں فاتحہ پڑھنے کا نہ حکم دینا ثابت ہے نہ خود پڑھنا۔ اس لیے باوجود ضعیف ہونے کے ان احادیث میں منسوخ ہونے کا قوی شبہ ہے اور صحابہ، تابعین، تبع تابعین کے نماز جنازہ میں فاتحہ نہ پڑھنے سے تو ان ضعیف روایات کے منسوخ ہونے کا یقین ہو جاتا ہے۔“ (مجموعہ رسائل: 1/264)
تجزیہ
● جناب اوکاڑوی صاحب نے پہلے عورتوں کے لیے نماز جنازہ کی ادائیگی کے منسوخ ہونے کا بے دلیل دعویٰ کیا ہے اور اب بغیر دلیل کے مردوں کے لیے بھی نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کو منسوخ قرار دے دیا ہے۔
دعویٰ نسخ کے حوالے سے عادت شنیعہ
نسخ کا دعویٰ بہت آسان ہے، جس حدیث کو ماننے میں تقلید حائل ہوتی ہے، اس کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کر دیا جاتا ہے۔ اس بری روش کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (751ھ) فرماتے ہیں:
وقد اتخذ كثير من الناس دعوى النسخ والإجماع سلما إلى إبطال كثير من السنن الثابتة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وهذا ليس بهين ولا تترك لرسول الله سنة صحيحة أبدا بدعوى الإجماع ولا دعوى النسخ إلى أن يوجد ناسخ صحيح صريح متأخر نقلته الأئمة وحفظته إذ محال على الامه أن تضيع الناسخ الذى يلزمها حفظه وتحفظ المنسوخ الذى قد بطل العمل به ولم يبق من الدين وكثير من المولدة المتعصبين إذا رأوا حديثا يخالف مذهبهم يتلقونه بالتأويل وحمله على خلاف ظاهره ما وجدوا إليه سبيلا فإذا جائهم من ذلك ما يغلبهم فزعوا إلى دعوى الإجماع على خلافه فإن رأوا من الخلاف ما لا يمكنهم من دعوى الإجماع فزعوا إلى القول بأنه منسوخ وليست هذه طريق أئمة الإسلام بل أئمة الإسلام كلهم على خلاف هذا الطريق وأنهم إذا وجدوا لرسول الله صلى الله عليه وسلم سنة صحيحة صريحة لم يبطلوها بتأويل ولا دعوى إجماع ولا نسخ والشافعي وأحمد من أعظم الناس إنكارا لذلك .
”بہت سے لوگوں نے دعویٰ نسخ اور دعویٰ اجماع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی صحیح ثابت سنتوں کو بے عمل کرنے کا حیلہ بنایا ہوا ہے۔ یہ معاملہ اتنا معمولی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح سنت کو کبھی بھی کسی دعویٰ اجماع اور دعویٰ نسخ کی وجہ سے نہیں چھوڑا جائے گا حتیٰ کہ کوئی بعد کے زمانہ والی ایسی صحیح اور صریح ناسخ حدیث نہ مل جائے جسے ائمہ دین نے نقل کر کے اس کو محفوظ کیا ہو کیونکہ ممکن نہیں کہ امت مسلمہ ایسی ناسخ حدیث کو ضائع کر دے جس کی حفاظت اس کے ذمے ہے اور اس منسوخ حدیث کو سنبھالے رکھے جس پر عمل کرنا باطل ہو گیا ہو اور اس کا دین سے تعلق نہ رہا ہو۔ نئے دور کے بعض متعصب لوگوں کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ جب کسی حدیث کو دیکھتے ہیں جو ان کے مذہب کے خلاف ہو تو اس میں تاویل کرنے کو لپکتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہو اس کا وہ مطلب لیتے ہیں جو مقصودی معنی کے خلاف ہو۔ اگر کوئی ایسی دلیل آ جائے جو ان کو لاجواب کر دے تو اس کے خلاف دعویٰ اجماع کرنے کو دوڑتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا اختلاف دیکھیں جو ان کے دعویٰ اجماع کو بھی ناممکن بنا دے تو جلدی سے اسے منسوخ کہہ دیتے ہیں۔ یہ ائمہ اسلام کی روش نہیں۔ تمام ائمہ اسلام اس کے خلاف طریقہ اپناتے تھے۔ وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صحیحہ و صریحہ پر اطلاع پاتے ہیں تو اسے کسی تاویل، دعویٰ اجماع یا دعویٰ نسخ کے ذریعے نہیں چھوڑتے۔ امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ سب لوگوں سے بڑھ کر اس کی مخالفت کرتے تھے۔“ (الصلاة وأحكام تاركها: ص 142)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی صدیوں پہلے لکھی گئی یہ عبارت موجودہ دور کے بعض لوگوں پر کس طرح صادق آ رہی ہے!
عمل صحابہ کی موجودگی میں دعویٰ نسخ مردود
● اگر کسی حدیث پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل کرنا ثابت ہو تو اس کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کرنا بالکل بے بنیاد ہوتا ہے، کیونکہ اگر وہ حدیث منسوخ ہوتی تو اس کے نسخ کا علم سب سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہوتا۔
حنفی فقہاء کی گواہی
کوئی دیوبندی بھائی اس بات کو محض ہماری طرف سے سننے کی بنا پر نظر انداز نہ کرے، کیونکہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہدایہ میں لکھا ہے:
فلا يصح دعوى النسخ والحديث مشهور عملت به الصحابة رضي الله عنهم وبمثله يزاد على الكتاب .
”اس معاملے میں نسخ کا دعویٰ درست نہیں، کیونکہ یہ حدیث مشہور ہے، اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمل کیا ہے۔ اس طرح کے فعل صحابہ کے ذریعے کتاب اللہ پر زیادت کی جا سکتی ہے۔“
(الهداية شرح البداية للمرغيناني، فصل في الأسار وغيرها: 1/24)
نیز علامہ کاسانی حنفی رحمہ اللہ(587ھ) بھی یہی بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
يؤيد هذا ما ذكرنا من فتاوى نجباء الصحابة رضي الله عنهم فى زمان السد فيه باب الوحي مع أنهم كانوا أعرف الناس بالناسخ والمنسوخ فبطل دعوى النسخ .
اس (عدم نسخ) کی تائید جلیل القدر صحابہ کے فتاوی سے ہوتی ہے۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسے زمانہ میں یہ فتویٰ دیا تھا جب وحی بند ہو چکی تھی، نیز یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ناسخ و منسوخ کو سب لوگوں سے بڑھ کر جاننے والے تھے۔ لہذا نسخ کا دعویٰ باطل ہے۔“ (بدائع الصنائع، كتاب الطهارة، مبحث الماء المقيد: 1/16)
معلوم ہوا کہ حنفی اصولوں کے مطابق بھی اگر کسی حدیث پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل موجود ہو تو اس کے منسوخ ہونے کا دعویٰ غلط ہوتا ہے۔ فصل ششم میں آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے والی احادیث پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمل کیا ہے۔ کسی ایک بھی صحابی سے ایسا کرنے کی ممانعت ثابت نہیں۔ کتنی ناانصافی ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کو سنت نبوی قرار دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے بعد اس پر عمل کریں، ان کو تو اس کے نسخ کا علم نہ ہو اور کئی صدیوں بعد اس کے منسوخ ہونے کا بے دلیل دعویٰ کر دیا جائے!
تقلید ناسدید اور فہم شریعت!
ایک حیران کن بات یہ بھی ہے کہ قرآن و سنت کو نہ سمجھ سکنے کا بہانہ کر کے تقلید کا جواز، بلکہ وجوب ثابت کرنے والے صاحبان نے یہاں نسخ کیسے سمجھ لیا ہے حالانکہ خیر القرون کے دور اور بعد کے محدثین کرام، ائمہ دین اور فقہائے امت میں سے کسی نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی منسوخیت کا دعویٰ نہیں کیا؟
یہ بات بھی بہت عجیب ہے کہ احناف کے ایسے اصول بھی محض اپنی تقلید کو بچانے کے لیے ہوتے ہیں۔ جہاں چاہتے ہیں غیر ثابت عمل صحابہ کو دلیل بنا کر قرآن پر زیادت کر لیتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح و صریح احادیث کو بھی خبر واحد کے خود ساختہ اصول کی بھینٹ چڑھا کر چھوڑ دیتے ہیں اور علی الاعلان یہ کہتے ہیں کہ خبر واحد سے قرآن پر زیادت جائز نہیں۔ نہ جانے وہ کون سی آیت قرآنی یا حدیث نبوی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عمل صحابہ کے ذریعے قرآن پر زیادت جائز ہے اور خبر واحد حدیث نبوی کے ذریعے قرآن پر زیادت ناجائز ہے؟
ان کے ایسے خود ساختہ اصولوں اور موقع پرستیوں کے بارے میں ان کے اپنے علماء بھی بول اٹھے، چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب فرماتے ہیں:
وقد بلوتهم أنهم يسرون القواعد للنقيضين ف أى رجاء منها بعده فإذا رأى أحدهم حديثا ضعيفا وافق مذهبه يسوي له ضابطة ويقول إن الضعيف ينجبر بتعدد الطرق وإن رأى حديثا صحيحا خالف مذهبه يسوي له ضابطة أيضا ويقول إنه شاد وهكذا جربتهم فى مواضع يفعلون القواعد حسب مرادهم من الطرفين .
”میں نے مقلدین کو آزمایا ہے، یہ لوگ باہم متضاد قاعدے بنا لیتے ہیں، پھر ان قواعد سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟ کوئی مقلد کسی ضعیف حدیث کو اپنے مذہب کے موافق دیکھتا ہے تو اس کے لیے قاعدہ بناتا ہے کہ ضعیف حدیث کثرت طرق سے قوی ہو جاتی ہے، لیکن جب کسی صحیح حدیث کو اپنے مذہب کے مخالف پاتا ہے تو اس کے لیے بھی ضابطہ گھڑتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تو شاذ ہے۔ میں نے مقلدین کو بہت سے مواقع پر یہ حرکت کرتے دیکھا ہے۔ یہ لوگ اپنی خواہش کے مطابق باہم متضاد قاعدے بناتے ہیں۔“ (فيض الباري على صحيح البخاري: 2/348)
● اوکاڑوی صاحب جن روایات کے ضعف کی رٹ لگا رہے ہیں، ان میں سے صرف سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا والی روایت کو ہم بطور دلیل ذکر کرتے ہیں اور اس کے حسن ہونے کو ہم نے بادلائل ثابت کر دیا ہے۔ اس بات کا اعتراف مولانا ظفر احمد تھانوی صاحب کو بھی ہے۔ اب نہ جانے ہمارے حنفی بھائیوں کے نزدیک اوکاڑوی صاحب فن حدیث میں معتبر ہیں یا تھانوی صاحب؟ اور اس بارے میں دیوبندی بھائیوں کے ہاں تھانوی صاحب حق پر ہیں یا جناب اوکاڑوی صاحب؟
● رہا اوکاڑوی صاحب کا یہ کہنا کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین نماز جنازہ میں فاتحہ نہیں پڑھتے تھے تو یہ دعویٰ بھی دلیل کی قوت سے عاری ہے۔ اس بات کا تفصیلی جائزہ بتوفیق اللہ ہم آئندہ صفحات میں لینے والے ہیں۔