نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت پر حدیث ابو امامہ بن سہل ؓ
یہ اقتباس ڈاکٹر حافظ ابو یحییٰ نورپوری کی کتاب نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ فرض*مستحب* یا مکروہ تحریمی* سے ماخوذ ہے۔

نبوی تعلیم
حدیث ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ

امام محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن شہاب زہری نے بیان کرتے ہیں :
سمعت أبا أمامة بن سهل بن حنيف يحدث ابن المسيب، قال : السنة فى الصلاة على الجنائز أن يكبر ، ثم يقرأ بأم القرآن، ثم يصلي على النبى صلى الله عليه وسلم، ثم يخلص الدعاء للميت، ولا يقرأ إلا فى التكبيرة الأولى، ثم يسلم فى نفسه عن يمينه
میں نے سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو سنا کہ وہ امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ کو حدیث سنا رہے تھے۔ انہوں نے فرمایا : نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ آدمی ( پہلی) تکبیر کہے، پھر سورۂ فاتحہ کی قراءت کرے، پھر (دوسری تکبیر کے بعد) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے، پھر ( تیسری تکبیر کے بعد) میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دُعا کرے، قراء ت صرف پہلی تکبیر کے بعد کرے، پھر اپنی دائیں جانب خاموشی سے سلام پھیر دے۔
(مصنف عبد الرزاق : 489/3 ، مصنف ابن أبي شيبة : 296/3، 298، فضل الصلاة على النبي للامام إسماعيل القاضي : 94، سنن النسائي : 1989 ، المنتقى لابن الجارود : 540 مسند الشاميين للطبراني : 160/4 ، رقم الحديث : 3000 ، وسنده صحيح)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
(فتح الباري : 204/3)
✿ یہاں سورۃ فاتحہ کو نماز جنازہ میں سنت قرار دینے والے سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے صحابی ہونے کے بارے میں اگر چہ اختلاف ہے لیکن راجح بات یہ ہے کہ اگر چہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث نہیں سنی لیکن وہ صحابی رسول ضرور ہیں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف انہیں حاصل ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
وأبو أمامة هذا صحابي .
یہ ابوامامہ صحابی رسول ہیں۔
(خلاصة الأحكام في مهمات السنن وقواعد الإسلام : 975/2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے خود بھی اس کی صراحت کی ہے اور دیگر کئی محدثین کرام سے بھی یہی بات نقل کی ہے کہ ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو زیارت نبوی کا شرف حاصل ہے۔
(تقريب التهذيب : 402 ، تهذيب التهذيب : 264/1)
بعض محدثین کرام کا ان کے بارے میں صحبت کی نفی کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ صحابی رسول نہیں، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں کچھ عرصہ گزارنے کا موقع نہیں ملا۔ یہ بات ہم نے محض انکل بچوں سے نہیں کی۔

اثبات صحابیت کے بارے میں ایک عمدہ قاعدہ

ہمیں کتب رجال کے مطالعہ سے اس بارے میں ایک عمدہ قاعدہ معلوم ہوا ہے کہ جب بعض محدثین کسی شخص کو صحابی قرار دیں اور ان کے لیے رؤیت کا اثبات کریں لیکن بعض ان کی صحبت کی نفی کریں تو ان کی مراد لغوی صحبت ہوتی ہے، نہ کہ اصطلاحی، یعنی بتانا یہ مقصود ہوتا ہے کہ اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تفصیلی ملاقات نہیں کی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث روایت نہیں کی۔ اس قاعدے کی ایک دلیل ملاحظہ فرمائیں کہ سیدنا طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ کو بھی محدثین کرام نے صحابی قرار دیا ہے:
امام ابو زرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
طارق بن شهاب رأى النبى صلى الله عليه وسلم
طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے۔
(المراسيل لابن أبي حاتم: ص 98)
امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
طارق بن شهاب قد رأى النبى صلى الله عليه وسلم ولم يسمع منه شيئا
طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث نہیں سنی۔
(سنن أبي داود، تحت الحديث: 1067)
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وطارق بن شهاب ممن يعد فى الصحابة
طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں، جن کا شمار صحابہ کرام میں ہوتا ہے۔
(المستدرك على الصحيحين: 288/1)
علامہ ذہبی رحمہ اللہ بھی لکھتے ہیں:
رأى النبى صلى الله عليه وسلم
انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے۔
(سیر أعلام النبلاء: 488/3)
کسی ایک محدث نے بھی ان کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہونے کا انکار نہیں کیا۔ البتہ امام ابو حاتم رحمہ اللہ ان کے لیے زیارت نبوی کا اثبات کرتے ہوئے یہ بھی فرماتے ہیں:
طارق بن شهاب له رؤية وليست له صحبة
آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تھی لیکن صحبت حاصل نہیں ہوئی۔
(المراسيل لابن أبي حاتم، ص: 98)
یہ بات ہمارے بیان کیے گئے قاعدے کی ناقابل تردید دلیل ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور دلیل ہم فصل ششم میں ذکر کریں گے۔ إن شاء الله
یہی معاملہ سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کا ہے کہ محدثین کرام نے ان کے لیے زیارت نبوی سے مشرف ہونے کا اثبات کیا ہے، کسی محدث سے اس کی نفی ثابت نہیں۔ رہا بعض محدثین کرام کا ان کے لیے صحبت کی نفی کرنا تو اس سے مراد یہ ہے کہ بچپن کی وجہ سے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تفصیلی ملاقات کا موقع نہیں ملا جیسا کہ کتب رجال سے عیاں ہے۔
✿ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اگر بالفرض کوئی شخص سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کو صحابی تسلیم نہ کرے تو بھی یہ حدیث منقطع یا مرسل نہیں بنتی، کیونکہ:
امام طحاوی رحمہ اللہ نے امام زہری رحمہ اللہ کے یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں:
أخبرني أبو أمامة بن سهل بن حنيف وكان من كبراء الأنصار وعلمائهم وأبناء الذين شهدوا بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم أن رجلا من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم أخبره أن السنة فى الصلاة على الجنازة أن يكبر الامام ثم يقرا بفاتحه الكتاب سرا فى نفسي ثم يختم الصلاة فى التكبيرات الثلاث
مجھے ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی ۔ ابو امامہ رضی اللہ عنہ انصار کے بزرگ ترین لوگوں اور علمائے کرام میں سے تھے، نیز غزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اولاد میں سے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے ان کو یہ بیان کیا : نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر کہے، پھر خاموشی سے سورہ فاتحہ کی قراءت کرے، پھر ( پہلی تکبیر کے بعد ) تین تکبیروں میں نماز ختم کرے۔
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 500/1، وسنده صحيح)
اس روایت میں سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ نے یہ صراحت کر دی ہے کہ انہوں نے یہ بات ایک صحابی رسول سے سنی ہے۔ اس صحابی رسول نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کوسنت نبوی قرار دیا ہے۔
اس بحث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے علاوہ ایک اور صحابی بھی ہیں جو نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کو سنت قرار دیتے ہیں ۔
والحمد لله الذى هدانا لهذا .

نماز جنازہ میں ایک سلام

یہاں بطور فائدہ قارئین کرام یہ بات بھی نوٹ فرمالیں کہ اس صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز جنانیہ میں صرف ایک طرف سلام پھیرنا سنت ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وليس فى التسليمة الواحدة على الجنازة أصح منه
نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنے کے بارے میں یہ صحیح ترین حدیث ہے۔
(المستدرك على الصحيحين : 513/1)
یہ بھی یاد رہے کہ نماز جنازہ میں دو طرف سلام پھیرنے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ثابت نہیں ، جبکہ ایک سلام پھیرنے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قارئین کرام نے ملاحظہ فرمالی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بھی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ سے بھی نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنا ثابت ہے۔ کسی ایک صحابی سے بھی نماز جنازہ میں دو طرف سلام پھیرنا صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں۔
اسی طرح تابعین کرام میں سے امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ ، امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ ، امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام مکحول رحمہ اللہ سے صحیح سند کے ساتھ نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنے کا ذکر ملتا ہے۔
یہ سارے آثار ملاحظہ فرمائیں : (مصنف ابن أبي شيبة : 307/3 ، وسند الكلّ صحيح)
امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل و فاعل تھے۔
(سيرة الإمام أحمد لأبي الفضل، ص : 40)

حدیث ابو امامہ رضی اللہ عنہ پر اعتراضات کا منصفانہ تجزیہ

قارئین کرام ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ والی مذکورہ حدیث کئی کتب حدیث میں موجود ہے۔ فن حدیث کا مبتدی طالب علم بھی اس بات سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ ایک حدیث کی سندیں جب مختلف ہوتی ہیں تو اس کے الفاظ بھی مختلف ہو جاتے ہیں اور اسلوب بھی۔ ایک راوی اسے مکمل ذکر کرتا ہے تو دوسرا مختصر کوئی راوی اس میں سے ایک مضمون بیان کرتا ہے اور کوئی دوسرا مضمون۔ روایت حدیث کا یہ ایک عمومی انداز ہے۔

روایت کے مختلف الفاظ اور ان کی تطبیق

سابقہ سطور میں بیان کیے گئے انداز کے مطابق یہ حدیث بھی مختلف الفاظ اور اسلوب سے بیان ہوئی ہے۔ متدرک حاکم والی روایت میں سورہ فاتحہ کا ذکر نہیں ہے۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب (1394ھ) لکھتے ہیں :
وفي التلخيص الحبير : فى المستدرك من طريق الزهري عن أبى أمامة بن سهل بن حنيف : أنه أخبره رجال من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم : أن السنة فى الصلاة على الجنازة أن يكبر الإمام، ثم يصلي على النبى صلى الله عليه وسلم، ويخلص الدعاء فى التكبيرات الثلاث، ثم يسلم تسليما خفيا، والسنة أن يفعل من ورائه مثل ما فعل إمامه ، قال الزهري : سمعه ابن المسيب منه، فلم ينكره – اه ، فهذا حديث واحد وسياقه مختلف
(حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب) ”التلخيص الحبير “میں ہے:” المستدرك“ میں امام زہری رحمہ اللہ کی سند سے یہ روایت یوں ہے کہ ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے ان کو بتایا : نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر کہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے اور میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دُعا کرے۔ ( یہ کام ) تین تکبیروں میں کرے، پھر آہستہ سے سلام پھیرے۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ مقتدی بھی وہی طریقہ اختیار کریں جو ان کا امام اختیار کرتا ہے۔ امام زہری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے یہ بات سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے سنی لیکن کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یہ ایک ہی حدیث ہے لیکن انداز مختلف ہے۔
مولانا موصوف مزید لکھتے ہیں :
وإذا صح الطريقان يجمع بينهما بأن السنة فى الصلاة على الجنازة أن يكبر الإمام، ويثني على الله عز وجل، سواء كان بفاتحة الكتاب أو غيرها، ولذا ذكر الصحابي مرة وحذفها أخرى، وهذا هو مذهب الحنفية فى الباب .
جب یہ دونوں سندیں صحیح ہیں تو ان میں تطبیق یہ ہوگی کہ نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر کہے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرے، یہ حمد و ثناء خواہ سورۂ فاتحہ کے ساتھ ہو یا کسی اور دُعا کے ساتھ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابی نے ایک دفعہ سورہ فاتحہ کا ذکر کیا ہے اور دوسری دفعہ اسے حذف کر دیا ہے۔ اس مسئلہ میں احناف کا مذہب بھی یہی ہے۔
(اعلاء السنن : 2564/6)
تجزيه
● جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں، یہ حدیث مختلف انداز سے بیان ہوئی ہے۔ مستدرک حاکم والی روایت میں سورہ فاتحہ کا ذکر نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ کے سنت طریقے میں سورہ فاتحہ کا ذکر نہیں کیا۔ یہ مسلم اصول ہے کہ عدم ذکر بعدم وجود کی دلیل نہیں بن سکتا۔ تھانوی صاحب کا یہ کہنا درست نہیں کہ صحابی نے ایک دفعہ اس کا ذکر کیا ہے،ایک دفعہ چھوڑا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کا ذکر امام زہری رحمہ اللہ سے بیان کرنے والے راوی نے اختصار کی وجہ سے چھوڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی محدث نے اس حدیث کی عدم ذکر فاتحہ والی روایت کو نماز جنازہ میں قراءت فاتحہ کی ممانعت یا اس کے غیر ضروری ہونے کی دلیل نہیں بنایا۔
پھر امام بیہقی رحمہ اللہ کے اسلوب سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اس حدیث میں سورہ فاتحہ کا ذکر سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ نے نہیں چھوڑا، بلکہ اس روایت میں راوی کا مقصود صرف نماز جنازہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کی مشروعیت بتانا تھا۔ اسی لیے امام بیہقی رحمہ اللہ نے سورہ فاتحہ کے ذکر والی روایت کو نماز جنازہ میں قراءت کے باب میں ذکر کیا ہے اور عدم ذکر والی روایت کو نماز جنازہ میں درود پڑھنے کے باب میں بیان کیا ہے۔ اتنی سی بات تھانوی صاحب کی سمجھ میں نہیں آئی۔

احناف نماز جنازہ میں درود بھی چھوڑ دیں گے؟

● مولانا ظفر احمد تھانوی صاحب اگر امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ روایت ہی دیکھ لیتے تو شاید یہ اعتراض نہ کر پاتے، کیونکہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے اسی حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے:
إن السنة فى الصلاة على الجنازة أن يكبر الإمام، ثم يقرأ بفاتحة الكتاب سرا فى نفسه، ثم يختم الصلاة فى التكبيرات الثلاث
نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر کہے، پھر خاموشی سے سورہ فاتحہ کی قراءت کرے، پھر ( پہلی تکبیر کے بعد ) تین تکبیروں میں نماز ختم کرے۔
(شرح معاني الآثار للطحاوي :500/1، وسنده صحيح)
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا ذکر نہیں ہے۔ یہاں یہ قطعاً نہیں کہا جا سکتا کہ ایک دفعہ صحابی رسول سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ میں درود پڑھنے کا ذکر کیا تھا اور دوسری مرتبہ خود ہی چھوڑ دیا۔
حنفی بھائیوں کو چاہیے تھا کہ وہجس طرح ایک روایت میں عدمِ ذکر کی وجہ سے سورہ فاتحہ کو چھوڑنا چاہتے ہیں، اسی طرح اس روایت میں عدم ذکر کی وجہ سے درود کو بھی چھوڑ دیں، کیونکہ اس کی سند کے صحیح ہونے کا اعتراف خود تھانوی صاحب نے کر لیا ہے، پھر بعض احادیث میں نماز جنازہ کے بیان میں صرف دُعاؤں کا ذکر ہے، ان کو چاہیے کہ وہ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف دُعاؤں پر اکتفا کر لیں اور کہہ دیں کہ باقی سب چیزوں کو چھوڑا جا سکتا ہے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے برعکس فقہ حنفی کی معتبر کتاب ”ہدایہ“ میں نماز جنازہ کا طریقہ یوں بیان ہوا ہے:
والصلاه أن يكبر تكبيرة يحمد الله عقيبها ، ثم يكبر تكبيرة لي فيها على النبى عليه الصلاة والسلام، ثم يكبر تكبيرة يدعو فيها لنفسه والميت وللمسلمين، ثم يكبر الرابعة ويسلم.
نماز جنازہ کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی ایک تکبیر کہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد کرے، پھر دوسری تکبیر کہے، اس کے بعد نبی علیہ السلام پر درود پڑھے، پھر تیسری تکبیر کہے، اس کے بعد اپنے لیے ، میت کے لیے اور مسلمانوں کے دُعا کرے، پھر چوتھی تکبیر کہے اور سلام پھیر دے۔
(الهداية للمرغيناني، فصل في الصلاة على الميت : 90/1)

سورہ فاتحہ کے ذکر والی اسانید قوی ہیں

● صحیح اسانید کے ساتھ اس حدیث کو سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے صرف محمد بن سوید رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں اور ان سے صرف امام زہری رحمہ اللہ یہ واقعہ روایت کرتے ہیں۔ پھر امام زہری رحمہ اللہ سے بیان کرنے والے کئی شاگرد ہیں۔ ان میں سے :
معمر بن راشد (مصنف ابن أبي شيبة : 296/3 ، مصنف عبد الرزاق : 489/3، المنتقى لابن الجارود : 540)
الليث بن سعد (سنن النسائي الصغرى: 1999 ، سنن النسائي الكبرى : 2116 ، العلل للدار قطني : 2:19/12)
شعیب بن ابی حمزہ (مسند الشاميين للطبراني : 10/4 ، رقم الحديث : 3000 شرح معاني الآثار للطحاوي : 500/1)
وغيرهم (العلل للدار قطني : 259/12) نے امام زہری رحمہ اللہ سے بیان کرتے وقت اس حدیث میں سورہ فاتحہ کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ صرف ایک شاگرد یونس بن یزید الایلی (المستدرك على الصحيحين للحاكم : 513/1 ، السنن الكبرى للبيهقي : 39/4 ) نے امام زہری رحمہ اللہ سے بیان کرتے وقت سورہ فاتحہ کا ذکر نہیں کیا۔
اب امام زہری رحمہ اللہ سے سورہ فاتحہ کو بیان کرنے والے شاگرد کئی ہیں اور سورۂ فاتحہ کا ذکر چھوڑنے والے شاگرد یونس بن یزید الایلی اکیلے ہیں۔ پھر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ امام زہری رحمہ اللہ سے بیان کرتے وقت سورہ فاتحہ کا ذکر کرنے والے راوی حفظ و اتقان میں بھی یونس بن یزید الایلی سے بہت بلند ہیں، جیسا کہ ان کے بارے میں محدثین کرام کے فیصلے سے عیاں ہے۔
ہم اختصار کی خاطر صرف ابن حجر رحمہ اللہ کا فیصلہ ذکر کیے دیتے ہیں :

سورہ فاتحہ کا ذکر کرنے والے راوی

معمر بن راشد ثقة, ثبت، فاضل
الليث بن سعد ثقة ، ثبت، فقيه
شعیب بن ابی حمزه ثقة، عابد

سورہ فاتحہ کا ذکر نہ کرنے والے راوی

یونس بن يزيد الایلی ثقة
یعنی تین ایسے راوی سورہ فاتحہ کا ذکر کر رہے ہیں، جو فاتحہ کا ذکر نہ کرنے والے اکلوتے راوی سے نقل حدیث میں بدرجہا معتبر بھی ہیں۔
یہ تو ان راویوں کا عمومی تقابل تھا۔ ایک استاذ کے شاگرد ہونے کے ناطے بھی سورۃ فاتحہ کا ذکر کرنے والے راوی امام زہری رحمہ اللہ سے بیان کرنے میں یونس بن یزید کے مقابلے میں اعلیٰ درجے کے ہیں، جیسا کہ شعیب بن ابی حمزہ کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
شعيب بن أبى حمزة أصح حديثا عن الزهري من يونس
شعیب بن ابی حمزہ امام زہری رحمہ اللہ سے بیان کرنے میں یونس سے زیادہ راست رو ہیں۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 344/4، وسنده حسن)
پھر یونس بن یزید کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں:
إن فى روايته عن الزهري وهما قليلا
ان کو امام زہری رحمہ اللہ سے بیان کرنے میں کچھ وہم ہو جاتا ہے۔
(تقريب التهذيب : 7919)
اب قارئین کرام نے ملاحظہ فرما ہی لیا ہے کہ سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں سورہ فاتحہ کا ذکر کرنے والے راوی یونس بن یزید کے مقابلے میں عموماً بھی اعلیٰ درجے کے ہیں اور وہ اپنے استاذ زہری رحمہ اللہ سے بیان کرنے میں خصوصاً بھی زیادہ پختہ کار ہیں لیکن مولانا ظفر احمد تھانوی صاحب اور دیگر حنفی احباب نے پھر بھی یونس بن یزید کی بات کو لے کر سورہ فاتحہ کو چھوڑ دیا ہے۔ اگر احناف اس حدیث میں اختصار کی وجہ سے سورہ فاتحہ رہ جانے کے قول پر مطمئن نہیں تھے تو انہیں چاہیے تھا کہ وہ زیادہ تعداد، زیادہ ثقہ اور زیادہ پختہ کار راویوں کی بات پر اعتماد کرتے۔

مولانا تھانوی صاحب کا دوہرا معیار

● خود مولانا ظفر احمد تھانوی صاحب نے پگڑی پر مسح سے انکار کرتے ہوئے اس بارے میں موجود صحیح و صریح احادیث کا یہ جواب دیا تھا:
ظن الراوي أن المسح على الناصية معلوم، والمهم هو التكميل على العمامة، فاقتصر على ذكر مسحها
راوی نے سمجھا کہ پیشانی پر مسح تو سب کو معلوم ہے۔ اہم بات تو پگڑی پر مسح کو مکمل کرنا تھا، لہذا اس نے صرف پگڑی کے مسح کو ذکر کیا۔
ويؤيد ذلك أن الاختصار فى الرواية والاقتصار على ذكر المهم لم يزل من دأب الرواة قديما وحديثا
اس بات کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ روایت میں اختصار اور اہم بات کے ذکر پر اکتفا کرنا قدیم وجدید زمانے میں راویوں کی عادت رہی ہے۔
(إعلاء السنن : 54/1-61، ملخصا)
تھانوی صاحب کہنا یہ چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشانی اور پگڑی دونوں پر مسح کیا تھا، راوی نے پیشانی کا ذکر اختصار کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے تھانوی صاحب کی اس بات کو سنت رسول، اقوال و افعال صحابہ اور آراء محدثین سے غلط ثابت کیا تھا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: ماہنامہ ضرب حق ، سرگودها، جلد نمبر 1، شمارہ نمبر 10)
عرض ہے کہ پگڑی پر مسح کے بارے میں تو محدثین وفقہائے کرام کی تصریحات کے خلاف بھی یہ قانون تھانوی صاحب نے پورے زور وشور سے پیش کیا تھا لیکن کیا وجہ ہے کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کے مسئلہ میں وہ اسے بھول گئے ہیں، حالانکہ یہاں ایسا کہنا سنت رسول فہم صحابہ اور عمل سلف کے موافق بھی ہے؟
اس مسئلہ میں یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ راوی یونس بن یزید نے اختصار کی وجہ سے سورہ فاتحہ کا ذکر چھوڑ دیا ہے، کیونکہ اس کے دوسرے تمام ساتھی سورہ فاتحہ کا ذکر کر رہے ہیں، مگر تھانوی صاحب نے اس پر غور نہیں کیا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے