نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے پر فقہاء و اسلاف امت کا اجماعی موقف
یہ اقتباس ڈاکٹر حافظ ابو یحییٰ نورپوری کی کتاب نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ فرض*مستحب* یا مکروہ تحریمی* سے ماخوذ ہے۔

فقہاء و اسلاف امت اور جنازہ میں فاتحہ

تقلید پر گامزن افراد کی طرف سے اہل حدیث کے بارے میں عمومی تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ (معاذ اللہ) خود سر ہیں، فقہاء و اسلاف امت کو خاطر میں نہیں لاتے۔
اس باب کو پڑھنے کے بعد آپ کو بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ اہل حدیث مسلک کتاب و سنت کے ساتھ ساتھ فقہائے کرام کی فقہی آراء اور اسلاف امت کے فتاوی کا بہترین گلدستہ بھی اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور
نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ

➊ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا عمل

امام طلحہ بن عبد اللہ بن عوف تابعی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:
صليت خلف ابن عباس رضي الله عنهما على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب قال ليعلموا أنها سنة.
میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اقتدا میں ایک نماز جنازہ ادا کی۔ آپ نے سورۂ فاتحہ کی قراءت کی۔ (جب پوچھا گیا کہ ایسا کیوں کیا ہے تو) فرمایا: ”اس لیے تاکہ لوگ جان لیں کہ یہ سنت (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ) ہے۔“
(صحيح البخاري: 1335)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کیا کرتے تھے اور اس کو سنت نبوی قرار دیتے تھے۔
باب اول کی فصل دوم میں اس پر تفصیلی بات ہو چکی ہے۔

➋ سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کا فتویٰ

امام محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن شہاب زہری نے بیان کرتے ہیں:
سمعت أبا أمامة بن سهل بن حنيف يحدث ابن المسيب قال السنة فى الصلاة على الجنائز أن يكبر ثم يقرأ بأم القرآن ثم يصلي على النبى صلى الله عليه وسلم ثم يخلص الدعاء للميت ولا يقرأ إلا فى التكبيرة الأولى ثم يسلم فى نفسه عن يمينه.
میں نے سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو سنا کہ وہ امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ کو حدیث سنا رہے تھے۔ انہوں نے فرمایا: نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ آدمی (پہلی) تکبیر کہے، پھر سورۂ فاتحہ کی قراءت کرے، پھر (دوسری تکبیر کے بعد) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے، پھر (تیسری تکبیر کے بعد) میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرے، قراءت صرف پہلی
تکبیر کے بعد کرے، پھر اپنی دائیں جانب آہستہ سے سلام پھیر دے۔
(مصنف عبد الرزاق: 489/3، مصنف ابن أبي شيبة: 296/3، 298، فضل الصلاة على النبي للامام إسماعيل القاضي: 94، سنن النسائي: 1989، المنتقى لابن الجارود: 540 مسند الشاميين للطبراني: 160/4، رقم الحديث: 3000، وسنده صحيح)
چونکہ اس روایت پر مفصل بات فصل سوم میں ہو چکی ہے، لہذا شائقین تفصیل کے لیے فصل سوم کی طرف رجوع کریں۔

➌ ایک اور صحابی کا فتویٰ

امام طحاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کے یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں:
أخبرني أبو أمامة بن سهل بن حنيف وكان من كبراء الأنصار وعلمائهم وأبناء الذين شهدوا بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم أن رجلا من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم أخبره أن السنة فى الصلاة على الجنازة أن يكر الإمام ثم يقرا بفاتحة الكتاب سرا فى نفسه ثم يختم الصلاة فى التكبيرات الثلاث.
مجھے ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی۔ ابو امامہ انصار کے بزرگ ترین لوگوں اور علمائے کرام میں سے تھے، نیز غزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہونے والے صحابہ کرام کی اولاد میں سے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے ان کو یہ بیان کیا: نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر کہے، پھر خاموشی سے فاتحہ کی قراءت کرے، پھر (پہلی تکبیر کے بعد) تین تکبیروں میں نماز ختم کرے۔
(شرح معاني الآثار للطحاوي: 500/1، وسنده صحيح)
اس روایت میں سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ نے یہ صراحت کر دی ہے کہ انہوں نے یہ بات ایک صحابی رسول سے سنی ہے۔ معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے علاوہ ایک اور صحابی بھی ہیں جو نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کو سنت قرار دیتے تھے۔

➍ سیدنا حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کا عمل

امام زہری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی رسول سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے یہ بیان کیا ہے کہ وہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کو سنت نبوی قرار دیتے تھے۔ اس کا ذکر گزشتہ سطور میں ہو چکا لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی تھی۔ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے یہ بات سننے کے بعد محمد بن سوید فہری سے ذکر کی محمد بن سوید فہری نے سنتے ہی فرمایا: میں نے سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ سے سنا تھا، وہ سیدنا حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے نماز جنازہ ادا کرنے کا طریقہ بالکل اُسی طرح بیان کر رہے تھے جس طرح سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا تھا۔ امام طبرانی، امام حاکم، امام طحاوی حنفی اور امام بہیقی رحمۃ اللہ علیہم نے امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ یوں نقل فرمائے ہیں:
فذكرت الذى أخبرني أبو أمامة من السنة فى الصلاة على الميت لمحمد ابن سويد قال وأنا سمعت الصحاك بن قيس يحدث عن حبيب بن مسلمة فى صلاة صلاها على الميت مثل الذى حدثنا أبو أمامة.
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ کا جو مسنون طریقہ بیان کیا تھا، میں نے وہ محمد بن سوید سے ذکر کیا۔ انہوں نے فرمایا: میں نے سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ سے سنا تھا، وہ حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے نماز جنازہ کی ادائیگی کا وہی طریقہ بیان کرتے تھے جو سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں بیان کیا تھا۔
(مسند الشاميين للطبراني: 160/4، المستدرك على الصحيحين للحاكم: 512/1 واللفظ له، شرح معاني الآثار للطحاوي: 500/1، السنن الكبرى للبيهقي: 40/4، وسنده صحيح)

◈ضحاک بن قیس اور حبیب بن مسلمہ، دونوں صحابی ہیں

اس روایت میں سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ اور سیدنا حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا ہے، یہ دونوں صحابی ہیں۔
امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
سألت رجلا من ولد الصحاك بن قيس بدمشق عن الضحاك ابن قيس هل له صحبة فقال مات النبى صلى الله عليه وسلم وهو ابن سبع سنين.
میں نے سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ایک شخص کو اُن کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ صحابی تھے؟ اس نے جواب دیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ان کی عمر سات برس تھی۔ (المراسيل لابن أبي حاتم: 94)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
بابي صغير.
یہ چھوٹے صحابی تھے۔ (تقریب التهذيب: 2976)
معلوم ہوا کہ ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ صحابی ہیں۔ البتہ انہوں نے صغرسنی کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث کا سماع نہیں کیا تھا۔ جن محدثین کرام نے ان کی صحبت کی نفی کی ہے، ان کی مراد یہی ہے، جیسا کہ حافظ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
وينفون سماعة من النبى صلى الله عليه وسلم
محدثین کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے سماع کی نفی کرتے ہیں۔
(الاستيعاب في معرفة الأصحاب: 224/1)
یہ بات بھی ہمارے اس قاعدے کی دلیل ہے کہ اگر بعض محدثین کرام کسی شخص کو صحابی قرار دیں، کوئی محدث اس کے رویت نبوی سے مشرف ہونے کا انکار نہ کرے تو جو محدثین کرام اس کی صحبت کی نفی کرتے ہیں، ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس شخص کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تفصیلی ملاقات نہیں ہے، نیز انہوں نے کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی۔ ہم فصل سوم میں اس کا تفصیلاً بیان کر چکے ہیں۔
سیدنا حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
مختلف فى صحبته والراجع نبوتها لكنه كان صغيرا
” ان کی صحبت میں اختلاف ہے۔ راجح بات یہ ہے کہ ان کا صحابی ہونا ثابت ہے، البتہ وہ اس وقت کم سن تھے۔ “(تقریب التهذيب: 1106)

➎ سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کا عمل

عبید بن سباق تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
صلى بنا سهل بن حنيف على جنازة فلما كبر تكبيرة الأولى قرأ بأم القرآن حتى أسمع من خلفه.
سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے ایک نماز جنازہ میں ہماری امامت کی۔ جب آپ نے پہلی تکبیر کہی تو سورہ فاتحہ کی اتنی اونچی آواز سے قراءت کی کہ مقتدیوں کو آواز سنائی دے رہی تھی۔
(سنن الدارقطني: 73/2، مصنف ابن أبي شيبة: 297/3، السنن الكبرى للبيهقي: 39/4، واللفظ له، وسنده حسن)

◈آثار صحابہ پر ایک عمومی اعتراض …… فاتحه بطور دعا

علامہ ابن ترکمانی حنفی (750ھ) علامہ عینی حنفی (855ھ) امام طحاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہم سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لعل قرائة من قرأ الفاتحة من الصحابة كان على وجه الدعاء لا على وجه التلاوة.
شاید کہ جن صحابہ کرام نے (نماز جنازہ میں) سورہ فاتحہ کی قراءت کی ہے، ان کی قراءت دعا کے طور پر ہو، تلاوت کے طور پر نہ ہو۔
(الجوهر النقي لابن التركماني: 39/4، عمدة القاري للعيني، كتاب الجنائز، باب قراءة فاتحة الكتاب على الجنازة: 141/8)
تجزیہ
● صحابہ کرام نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت اپنی طرف سے نہیں کی تھی، بلکہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر پڑھا تھا اور لوگوں کو بتایا بھی تھا کہ ہم نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ صرف اس لیے پڑھ رہے ہیں کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور بس۔ اس کے علاوہ اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کچھ ثابت نہیں۔ جب نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے انکار کا کوئی اور حیلہ کارگر نہیں ہوا تو بعض لوگوں نے بغیر دلیل کے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ بطور دعا تھا، بطور قراءت نہیں تھا۔ اگر صحابہ کرام نے یہ بتایا ہے تو اس کا حوالہ ہمیں بھی دے دیا جائے، ورنہ سوائے حیلہ انکار کے اس کاوش کو کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔

◈حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کی سخت تردید

علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ اس اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں:
فقول من قال لعلهم فرؤوها على أنها دعاء كذب بحت
جس شخص نے یہ کہا ہے کہ صحابہ کرام نے سورہ فاتحہ کو دعا کے طور پر پڑھا تھا، اس کی بات سفید جھوٹ ہے۔ (المحلی: 131/5)

◈دیگر ائمہ دین کا فہم

● ہم گذشتہ فصول میں صحابہ کرام کے اس عمل پر محدثین کرام اور فقہائے دین کی آراء پیش کر چکے ہیں۔ امام بخاری، امام ترمذی، امام احمد بن حنبل، امام شافعی، امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہم اور دیگر کبار ائمہ دین اور فقہائے اسلام جو کہ خیر القرون میں ہونے کی وجہ سے امام طحاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت صحابہ کرام کے بہت قریب تھے، انہوں نے صحابہ کرام کے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کو قراءت قرار دیا ہے۔ خیر القرون کے کسی بھی محدث یا فقیہ نے سورہ فاتحہ کو نماز جنازہ کی دعاؤں میں شمار نہیں کیا۔ گمان یہ ہے کہ سب سے پہلے یہ سوچ امام طحاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کو ہی آئی تھی۔ کیا ان سے پہلے صدیوں تک تمام مسلمان اس ”فقہ“ سے جاہل ہی رہے تھے؟
● خود امام طحاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں شاید کا وجود اس بات پر شاہد ہے کہ خود اُن کو بھی اس بات میں شک و شبہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح و صریح سنتوں کو ایسے شک و شبہ کی بھینٹ چڑھا کر چھوڑنا بھلا کسی متبع سنت مسلمان کے لیے کسی بھی صورت جائز ہو سکتا ہے؟

تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم اور
نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ

➊ امام سعید بن مس رحمہ یب رحمہ اللہ (بعد 90ھ) کی رضامندی

سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کو سنت نبوی قرار دیا تو اس وقت مشہور مفتی تابعی امام سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سن رہے تھے۔ انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ تفصیل کے لیے فصل سوم کی طرف رجوع کریں۔

➋ امام حسن بصری رحمہ اللہ (110ھ) کا عمل

عبد اللہ بن عون تابعی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں:
كان الحسن يقرأ بفاتحة الكتاب فى كل تكبيرة على الجنازة
امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نماز جنازہ میں ہر تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ کی قراءت کرتے تھے۔ (مصنف ابن أبي شيبة: 492/2، وسنده صحيح)

➌ امام مکحول شامی رحمہ اللہ (بعد 110ھ) کا عمل

برد بن سنان رحمہ اللہ امام مکحول شامی رحمہ اللہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
إنه كان يقرأ فى التكبيرتين الأوليين فى الصلاة على الميت بفاتحة الكتاب.
آپ رحمۃ اللہ علیہ نماز جنازہ میں پہلی دونوں تکبیروں کے بعد سورۂ فاتحہ کی قراءت کرتے تھے۔ (مصنف ابن أبي شيبة: 492/2، وسنده صحيح)

➍ امام ضحاک بن مزاحم رحمہ اللہ (بعد 100ھ) کا فرمان

سلمہ بن نبیط بیان کرتے ہیں کہ امام ضحاک بن مزاحم تابعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
اقرأ فى كل التكبيرتين الأوليين فى الصلاة على الميت بفاتحة الكتاب.
نماز جنازہ کی ہر پہلی دو تکبیروں میں سورہ فاتحہ کی قراءت کرو۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 492/2، الرقم: 11396، وسنده حسن)
نوٹ
اگر چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف نماز جنازہ میں صرف پہلی تکبیر کے بعد سورۂ فاتحہ کی قراءت ثابت ہے، بلکہ اس بارے میں سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے:
من السنة فى الصلاة على الجنازة أن تقرأ بفاتحة الكتاب ولا تقرأ إلا مرة واحدة.
نماز جنازہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ ہے کہ آپ (پہلی تکبیر کے بعد) سورۃ فاتحہ کی قراءت کریں… اور صرف ایک ہی دفعہ قراءت کریں۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 296/3، وسنده صحيح)
لیکن امام حسن بصری، امام ضحاک بن مزاحم، امام مکحول وغیرہ رحمۃ اللہ علیہم کے اس عمل سے اتنا ضرور ثابت ہو جاتا ہے کہ تابعین عظام کے دور میں نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت ہوتی تھی۔ جن چاروں تابعین کا ہم نے ذکر کیا ہے، وہ جلیل القدر ائمہ اور اپنے دور کے مشہور مفتی تھے۔ اس کے علاوہ بہت سے تابعین جنہوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اقتدا میں نماز جنازہ ادا کی تھی اور ان کو سورۃ فاتحہ کی قراءت کرتے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بتاتے سنا تھا، اُن کے بارے میں سوائے اس کے اور کوئی گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بھی پوری زندگی اس کے قائل و فاعل رہے ہوں گے۔ اب دیو بندی بھائی خود ہی فیصلہ کریں کہ جناب اوکاڑوی صاحب کا خیر القرون کے بارے میں درج ذیل فرمان سچا تھا؟
سب جنازے بغیر فاتحہ کے پڑھے جاتے تھے۔ (مجموعہ رسائل: 255/1)

فقہاء و ائمہ دین کی
آراء و فتاوی

بہت سے ائمہ دین بھی احادیث صحیحہ کی روشنی میں نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کرنے کے قائل و فاعل تھے۔ ان میں سے چند ایک کا تذکرہ ہم کیے دیتے ہیں:

➊ امام شافعی رحمہ اللہ (204ھ) کا فتویٰ

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فلذلك نقول يكبر أربعا على الجنائز يقرأ فى الأولى بأم القرآن ثم يصلى على النبى صلى الله عليه وسلم ويدعو للميت وقال بعض الناس لا يقرأ فى الصلاة على الجنازة إنا صلينا على الجنازة وعلمنا كيف سنة الصلاة فيها لرسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا وجدنا لرسول الله صلى الله عليه وسلم سنة اتبعناها.
اے (دلائل شرعیہ) کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہی جائیں۔ پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ کی قراءت کی جائے۔ پھر (دوسری تکبیر کے بعد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا جائے اور (تیسری تکبیر کے بعد) میت کے لیے دعا کی جائے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نماز جنازہ میں قراءت نہ کی جائے لیکن ہم نے نماز جنازہ ادا کی ہے اور اس کو پڑھنے کا محمدی طریقہ ہمارے علم میں آگیا ہے۔ ہمارا وطیرہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت ہمارے علم میں آتی ہے تو ہم (اس میں تاویلات کرنے کے بجائے) اس کی پیروی کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
(كتـــــــــاب الأم: 270/1)

➋ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (240ھ) کا عمل

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے ابو الفضل صالح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
وكان يكبر على الجنازة أربعا ويرفع يديه مع كل تكبيرة ويقرأ فاتحة الكتاب فى أول تكبيرة ثم يسلم تسليمة واحدة
میرے والد محترم نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہتے، ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرتے، پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ کی قراءت کرتے، پھر (چوتھی تکبیر کے بعد) ایک سلام پھیرتے تھے۔
(سيرة الإمام أحمد لأبي الفضل صالح بن أحمد: ص 40)

➌ امام اسحاق بن راہویہ (238ھ) کا فتویٰ

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد سورۂ فاتحہ کی قراءت کرنا ہی مختار مذہب ہے۔
(جامع الترمذي، تحت الحديث: 1027)

➍ امام ابن منذر رحمہ اللہ (319ھ) کا فتویٰ

امام ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
يقرأ بعد التكبيرة الأولى بفاتحة الكتاب وإن قرأ بفاتحة الكتاب وسورة قصيرة فحسن.
(نماز جنازہ ادا کرنے والا) پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ کی قراءت کرے۔ اگر کوئی سورہ فاتحہ کے ساتھ ایک چھوٹی سورت کی بھی قراءت کرے تو اچھا ہے۔
(الأوسط في السنن والاجماع والاختلاف: 436/5-440)

➎ امام دارقطنی رحمہ اللہ (385ھ) کا فتویٰ

التسليم فى الجنازة واحد والتكبير أربعا وخمسا وقرائة الفاتحة.
اس چیز کا بیان کہ نماز جنازہ میں سلام ایک ہے، تکبیریں چار اور پانچ ہیں، نیز سورہ فاتحہ کی قراءت بھی ہے۔
(سنن الدارقطني: 72/2)

➏ امام بیہقی رحمہ اللہ (458) کا فتوئی

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قراءة الفاتحة فريضة فى صلاة الجنازة
نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت فرض ہے۔
(الخلافات بين الامامين الشافعي وأبي حنيفة وأصحابه: 236/4)

➐ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ (456ھ) کا فتویٰ

فإذا كبر الأولى قرأ أم القرآن ولا بد.
(نماز جنازہ پڑھنے والا) جب پہلی تکبیر کہے تو سورہ فاتحہ کی قراءت کرے، یہ فرض ہے۔ (المحلى: 129/5)

➑ شیخ عبد القادر، جیلانی رحمہ اللہ (560ھ) کا فتویٰ

يقرأ فى الأولى الفاتحة.
(نماز جنازہ پڑھنے والا) پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ پڑھے۔
(الغنية لطالبي طريق الحق: 224/2)

➒ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (597ھ) کا فتویٰ

علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
تجب قرائة الفاتحة فى صلاة الجنازة.
نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت واجب ہے۔
(التحقیق فی احادیث الخلاف : 14/2)

➓ حافظ نووی رحمۃ اللہ علیہ (676ھ) کا فتویٰ

علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فقرائة الفاتحة فرض فى صلاة الجنازة بلا خلاف عندنا
نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت فرض ہے۔ اس بارے میں ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ (المجموع شرح المهذب: 233/5)

◈امام ابو حنیفہ کا مذہب۔۔ احناف میں اختلاف

چونکہ امام ابو حنیفہ سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں صحیح سند کے ساتھ کچھ ثابت نہیں۔ اس لیے حنفی مذہب میں نماز جنازہ میں قراءت کے جواز یا کراہت کے بارے میں خود حنفی علماء سخت تضادات کا شکار ہیں۔ بعض نے اسے مقاصد جنازہ کے خلاف قرار دیا ہے اور نماز جنازہ میں اس سے منع کیا ہے جیسا کہ علامہ کا سانی حنفی (587ھ) لکھتے ہیں:
ولا يقرأ فى الصلاة على الجنازة بشيء من القرآن.
نماز جنازہ میں قرآن کریم سے کچھ بھی قراءت نہ کی جائے۔
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع للكاساني: 314,313/1)
بعض نے کہا ہے کہ حنفی مذہب میں نماز جنازہ میں قراءت نہ واجب ہے نہ مکروہ بلکہ جائز ہے جیسا کہ علامہ ابن ترکمانی حنفی (750ھ)، قدوری حنفی (428ھ) سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ومذهب الحنفية أن القرائة فى صلاة الجنازة لا تجب ولا تكره ذكره القدوري فى التجريد.
احناف کا مذہب یہ ہے کہ نماز جنازہ میں قرآنِ کریم کی قراءت نہ واجب ہے نہ مکروہ۔ اس بات کو قدوری نے اپنی کتاب التجرید میں ذکر کیا ہے۔
(الجوهر النقي لابن التركماني: 39/4)
اور پھر سب احناف نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے دلائل سے پریشان ہو کر ایک عجیب بات بھی کی ہے، وہ یہ کہ کسی حیلے سے نماز جنازہ میں قراءت کی بھی جا سکتی ہے، وہ حیلہ کسی کے نزدیک یہ ہے کہ بطور قراءت نہ پڑھا جائے بلکہ بطور دعا پڑھ لیا جائے۔ (البحر الرائق لابن نجيم الحنفي: 197/2)
بعض نے یہ کہا ہے کہ بطور ثنا پڑھنے کا حیلہ کارگر ہوگا اور بعض کے نزدیک دونوں خیلے جائز ہیں۔ (بدائع الصنائع للكاساني: 314,313/1)
علامہ عبدالحئی لکھنوی (1304ھ) لکھتے ہیں:
قوله لا قرائة — إلى آخره أقول يحتمل أن يكون نفيا للمشروعية المطلقة فيكون إشارة إلى الكراهة وبه صرح كثير من أصحابنا المتأخرين حيث قالوا يكره قرائة الفاتحة فى صلاة الجنازة وقالوا لو قرأ بنية الدعاء لا بأس به ويحتمل أن يكون نفيا للزومه فلا يكون فيه نفي الجواز
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ کہنا کہ نماز جنازہ میں قراءت نہیں۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد مطلق مشروعیت کی نفی ہو، اس صورت میں یہ کراہت کی طرف اشارہ ہو گا، اسی کی ہمارے اکثر متاخرین احناف نے یہ کہہ کر صراحت کی ہے کہ نماز جنازہ میں قراءت مکروہ ہے، البتہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی دعا کی نیت سے پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ امام ابو حنفیہ کی مراد وجوب کی نفی ہو، اس صورت میں امام صاحب کے فرمان میں جواز کی نفی نہیں۔ (التعليق الممجّد على مؤطا محمد: 112/2)
صحیح احادیث پر غیر مشروط عمل کا منہج ہی مسلمان کو ہر قسم سے قلبی خلجان سے بچا سکتا ہے، ورنہ ساری زندگی طرح طرح کی تاویلات میں گزر جاتی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں احادیث نبویہ میں باطل تاویلات کے بجائے ان پر من وعن عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے