نماز جنازہ میں سلام پھیرنے کا مسنون طریقہ
تحریر: ابو ظفیر محمد ندیم ظہیر

الحمد لله رب العالمين والصلوٰة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد:
نماز جنازہ میں سلام پھیرنے سے متعلق دو موقف ہمارے ہاں معروف و عام ہیں:
● عام نماز کی طرح دونوں طرف سلام پھیرنا۔
● صرف دائیں جانب ایک سلام پھیرنا۔
ہم اپنے اس مضمون میں طرفین کے دلائل کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ جو موقف ہمارے نزدیک راجح ہے اس کی نشاندہی بھی کریں گے۔ ان شاء اللہ

① دونوں طرف سلام پھیرنا اور اس کے دلائل

⟐ پہلی روایت

نماز جنازہ میں دونوں طرف سلام پھیرنے والے اپنے تیئں ایک ہی روایت کو حجت سمجھتے ہیں اور اس مسئلے پہ بطور دلیل اسی روایت کو پیش بھی کرتے ہیں اور وہ درج ذیل ہے:
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
«ثلاث خصال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعلهن تركهن الناس، إحداهن التسليم على الجنازة مثل التسليم فى الصلاة»
(المعجم الکبیر للطبرانی 10/100 ح 10022، السنن الکبری للبیہقی 4/43 واللفظ لہ)
اس روایت پر اصول محدثین کی روشنی میں چند اعتراضات وارد ہوتے ہیں جنہیں ترتیب وار ذکر کیا جاتا ہے۔
حماد بن ابی سلیمان مختلط ہیں:
➊ امام احمد رحمہ اللہ ہ نے حماد کو مختلط قرار دیا ہے (سوالات ابی داؤد: 338، سوالات ابی بکر الاثرم ص 120)۔
➋ امام ابن سعد رحمہ اللہ نے بھی انہیں مختلط کہا۔ (الطبقات الکبری 8/452)
➌ امام ابو داؤد رحمہ اللہ بھی حماد کو مختلط ہی سمجھتے تھے، جیسا کہ ان کے سوال سے واضح ہے: «قلت: هشام كيف سماعه؟ قال: قديم» یعنی ہشام کا حماد سے سماع کیسا ہے؟ تو امام احمد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قدیم ہے۔ (سوالات ابی داؤد ص 119)
➍ امام ابو بکر الاثرم رضی اللہ عنہ کے سوال سے بھی یہی مترشح ہے کہ وہ حماد بن ابی سلیمان کو مختلط سمجھتے تھے ۔ (سوالات ابی بکر الاثرم ص 120)
➎ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے فرمایا: لا يقبل من حديث حماد إلا ما رواه عنه القدماء شعبه وسفيان الثوري والدستوائي وما عدا هؤلاء رواه عنه بعد الإختلاط یعنی حماد سے وہی حدیث قبول کی جائے گی جو ان کے پہلے شاگرد: شعبہ، سفیان ثوری اور (ہشام) دستوائی بیان کریں اور جو ان کے علاوہ ہیں انہوں نے ان سے اختلاط کے بعد روایت کیا ہے ۔ (مجمع الزوائد 1/116)
ہماری زیر بحث روایت بھی حماد کے بعد از اختلاط ہے اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ زید بن ابی انیسہ نے حماد سے قبل از اختلاط سنا ہو۔ ہمارے بعض احباب نے جمع تفریق کر کے ابن ابی انیسہ کو قدیم تلامذہ میں شمار کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اس فن میں دلیل کے بغیر جمع تفریق کا کوئی فائدہ نہیں، لہذا ضروری ہے کہ محدثین کی جماعت سے ثابت کیا جائے کہ زید بن ابن انیسہ نے حماد بن ابی سلیمان سے ان کے اختلاط سے پہلے سنا، إذ ليس فليس.
➏ امام شعبہ رحمہ اللہ نے فرمایا: «قال لي حماد بن أبى سليمان يا شعبه لا توقفني على إبراهيم فإن العهد قد طال، وأخاف أن أنسي أو أكون قد نسيت» حماد بن ابی سلیمان نے مجھ سے کہا: اے شعبہ! مجھے ابراہیم پر موقوف نہ کرو، کیونکہ زمانہ طویل گزر چکا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ میں بھول جاؤں یا بھول ہی چکا ہوں۔ (تقدمة الجرح والتعديل ص 165 وسندہ صحیح)
علامہ عبدالرحمن معلمی رحمہ اللہ اس قول کی وضاحت یوں فرماتے ہیں: إذا قلت: قال إبراهيم أو نحو ذلك، فلا تسألني: أسمعه من إبراهيم أم لا؟ فيتبين بهذا أنه قد كان يقول: قال إبراهيم ونحوه فيما لا يتحقق أنه سمعت من إبرهيم یعنی جب میں کہوں ابراہیم نے کہا، یا اس طرح کا کلام تو سوال کر کے مجھے ٹوکنا نہ کرو کہ آیا تو نے ابراہیم سے سنا بھی ہے یا نہیں؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حماد بن ابی سلیمان بعض اوقات وہاں بھی قال إبراهيم وغیرہ کہہ دیتے جہاں انہیں سماع متحقق نہ ہوتا۔ (التنکیل 2/31)
حماد بن ابی سلیمان کے اپنے کلام اور علامہ معلمی رحمہ اللہ کی توضیح سے حماد کی تخلیط و تدلیس عیاں ہے۔
مذکورہ دلائل کے مقابلے میں بعض احباب یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اختلاط سے مراد حماد کی جنون اور مرگی کی بیماری تھی۔ (بغیة أہل الحاجة ص 35، 36)
قطع نظر اس کے کہ مغیرہ اور معمر کے اقوال کی استنادی حیثیت کیا ہے، یہ تاثر درست نہیں ورنہ لازم آئے گا کہ امام احمد رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر جمہور محدثین اختلاط اور عام بیماری میں فرق کرنے سے قاصر رہے جو کہ بالکل غلط ہے۔ علاوہ ازیں مرگی کی بیماری اور اختلاط دو علیحدہ علیحدہ امر ہیں انہیں ایک سمجھنا خلط مبحث کے علاوہ کچھ نہیں۔ نیز امام ذہبی رحمہ اللہ نے محض اقوال ذکر کیے ہیں نہ تقابل کیا اور نہ کوئی توضیح بیان فرمائی ہے۔ باقی یہ کہنا کہ ”ان کی روایتوں میں تخلیط ان سے روایت کرنے والے رواۃ کے سوء حفظ کی بنا پر ہے۔“ (بغیة أہل الحاجة ص 38)
تو یہ بھی محل نظر ہے، کیونکہ اہل علم کی ایک جماعت خود حماد بن ابی سلیمان کو سوء حفظ سمجھتی ہے، چنانچہ فضیلة الشیخ ابو اسحاق الحوینی حفظہ اللہ نے بھی حماد بن ابی سلیمان کو مختلط اور سیء الحفظ قرار دیا ہے۔ (بذل الاحسان 1/193)
محدث ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے تو واضح لکھا: ”امام صاحب کی حماد سے یہاں روایت میں سند اور راوی کے نام میں اختلاف حماد کے اختلاط کا نتیجہ ہے“ (مقالات 3/131)
امام ابن ابی حاتم رضی اللہ عنہ نے بھی حماد کو سوء حفظ قرار دیا ہے۔ (الجرح والتعديل 3/147)
مذکورہ بالا اقوال کی رو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تخلیط حماد سے روایت کرنے والے رواۃ کی بنا پر نہیں بلکہ خود ان کے سیء الحفظ ہونے کی وجہ سے ہے۔
حماد عن ابراہیم پر اہل علم کی خاص جرح
➊ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: «حدثنا عثمان بن عثمان، قال أخبرنا البتي قال: كان حماد إذا قال برأيه أصاب، وإذا قال قال إبراهيم، أخطأ» یعنی حماد جب اپنی رائے سے کہیں تو درست اور جب قال إبراهيم کہیں تو غلطی کرتے ہیں۔ (العلل ومعرفة الرجال 1/404 ت 1953 وسندہ صحیح، مسائل حرب الکرمانی 3/1312)
عثمان بن عثمان کی طرح حماد بن سلمہ نے بھی عثمان بن مسلم البتی سے یہی نقل کیا کہ كان حماد بن أبى سليمان إذا قال برأيه أصاب وإذا حدث عن إبراهيم أخطأ (کتاب الضعفاء للعقیلی 2/150 وسندہ حسن)۔
یہ الفاظ اسی طرح درج ذیل کتب میں بھی موجود ہیں:
● المعرفة والتاریخ للفسوی (2/293)
● التاریخ الکبیر للبخاری (6/243)
● تہذیب الکمال للمزی (7/276)
● المنتخب من علل الخلال لابن قدامة المقدسی (244)
● شرح علل الترمذی لابن رجب (2/835) وغیرہ
محدث ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
امام بیہقی نے ”حماد عن إبراہیم“ کے واسطہ سے ان کا فتویٰ جو کتاب الآثار میں ہے، نقل کر کے اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حماد إذا قال برأيه أصاب، وإذا قال: قال إبراهيم أخطأ یعنی حماد جب اپنی رائے سے کہیں تو درست ہوتا ہے اور جب ابراہیم رحمہ اللہ سے قول بیان کریں تو غلطی کرتے ہیں۔ یہی بات امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے۔ (مقالات 139/3)
اس خاص جرح کی تائید خود حماد بن ابی سلیمان کے اپنے قول سے بھی ہوتی ہے جو ہم سابقہ سطور میں مقدمة الجرح والتعديل ص 195 کے حوالے سے نقل کر چکے ہیں، لہذا ہماری زیر بحث روایت اس خاص جرح کی وجہ سے بھی ضعیف ہی ٹھہرتی ہے۔ شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: واضح ہو محدثین عظام رحمہم اللہ نے حماد بن ابی سلیمان پر خاص طور پر اس کی ابراہیم نخعی سے روایت بیان کرنے میں کلام کیا ہے۔ (مقالات راشدیہ 3/406، 407)
اہم تنبیہ
طبقات ابن سعد (8/452) کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: وكان حماد إذا قال برأيه أصاب وإذا قال عن غير إبراهيم أخطأ
اس روایت کو بنیاد بنا کر ہمارے ایک بھائی نے لکھا: ”اگر حماد کے اختلاط کو تسلیم بھی کیا جائے تو اس کو ابراہیم کے علاوہ دیگر کی روایات پر محمول کیا جائے گا۔ “
پیارے بھائی! یہ اسی صورت میں ممکن تھا جب طبقات ابن سعد کی روایت درست ہوتی، جبکہ یہ شاذ یا سہو پر مبنی ہے۔ جمہور اہل علم اسے ”غیر“ کے بغیر ہی بیان کر رہے ہیں، علاوہ ازیں سالم ابی المنذر اپنے سے اوثق حماد بن سلمہ اور عثمان بن عثمان دو راویوں کی بھی مخالفت کر رہا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں ”غیر“ کا اضافہ درست نہیں اور یہ روایت شاذ ہے جو لائق حجت واستدلال نہیں۔
نیز لکھتے ہیں:” شاید اسی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ابراہیم کی روایت جو حماد بیان کرے محفوظ کہا ہے۔ “
امام بخاری رحمہ اللہ کم از کم اس وجہ سے تو محفوظ نہیں کہہ سکتے، کیونکہ انہوں نے خود اپنی کتاب التاریخ الکبیر میں یہی قول نقل فرمایا ہے کہ كان حماد إذا قال برأيه أصاب وإذا قال عن إبراهيم أخطأ (6/234)
یہ بھی یاد رہے کہ کسی محدث کا حدیث کو محض صحیح یا حسن کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس میں موجود علت قادحہ غیر قادحہ بن جاتی ہے، کیونکہ اس کی کئی وجوہ ہیں:
● بعض اوقات علت قادحہ محدث سے اوجھل بھی رہ سکتی ہے۔
● محدث کے پیش نظر کوئی اور صحیح یا حسن لذاتہ حدیث بھی ہوتی ہے۔
● یہ بھی ممکن ہے کہ جو جمہور محدثین کے نزدیک علت قادحہ ہو وہ اس ایک محدث کے نزدیک نہ ہو، وغیرہ۔
ہمارے بھائی نے العلل الکبیر (404) سے ایک روایت نقل کی جس کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف منسوب قول: أرجو أن يكون محفوظا مذکور ہے اور اسی سے انہوں نے اپنے خود ساختہ موقف کو سہارا دینے کی کوشش کی ہے۔
اس سے قطع نظر کہ العلل الکبیر کی نسبت امام ترمذی رحمہ اللہ کی طرف درست ہے یا نہیں، اگر ہمارے بھائی متصل بعد والی روایت بھی پڑھ لیتے تو انہیں أرجو أن يكون محفوظا کا پس منظر بھی معلوم ہو جاتا، چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وسألت محمدا عنه، يعني حديث الحسن عن على بن أبى طالب رفع القلم الحديث فقال: الحسن قد أدرك عليا وعندي حديث حسن (العلل الکبیر: 405)
اس مذکورہ تفصیل سے معلوم ہو جاتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کو محفوظ ”حماد عن إبراہیم“ طریق کو درست تسلیم کر کے نہیں کہا، بلکہ حدیث علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی وجہ سے کہا ہے جو ان کے نزدیک حسن درجے کی ہے۔ واللہ اعلم۔
موصوف مزید لکھتے ہیں: ”اسی طرح امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک میں حماد کی روایات عن ابراہیم کو ذکر فرما کے صحیح قرار دیا اور ذہبی نے موافقت کی ہے۔ “
تو عرض ہے کہ یہ کوئی اصولی بات نہیں، یہی وجہ ہے کہ اہل علم ایسی صورت میں نقد کرتے آئے ہیں، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک روایت پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا: وغفل ابن حبان والحاكم عن علته فصححاه یعنی ابن حبان اور حاکم اس کی علت سے غافل رہے تو ان دونوں نے اسے صحیح قرار دے دیا۔ (نتائج الافکار 1/102)
علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: في إسناده محمد بن إسحاق وهو مدلس وقد رواه عن عبدالرحمن بن الأسود معنعنا فكيف يكون إسناده حسنا أو صحيحا وتساهل الترمذي والحاكم مشهور (ابکار المنن فی تنقید آثار السنن ص 495)
یعنی علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے علت قادحہ کے مقابلے میں حاکم کی تصحیح اور امام ترمذی کی تحسین رد کر دی، ہماری زیر بحث روایت میں بھی خاص جرح کے مقابلے میں عام صحیح لائق التفات نہیں۔
موصوف نے حماد کی روایت کو اختلاط سے پاک کرنے کے لیے ایک عذر یہ پیش کیا کہ ”ابراہیم کی روایات کو یاد رکھنے کی وجہ شاید یہی ہے کہ حماد ان کی روایات کو لکھتا تھا، اور اختلاط یسیر والا راوی اس عارضہ سے قبل جب روایات لکھتا ہو غلطی کا احتمال جاتا رہ گیا۔ “
عرض ہے کہ آپ کی مذکورہ بات کو قدرے حیثیت اسی صورت میں مل سکتی تھی جب حماد، ابراہیم سے صرف وہی روایات بیان کرتا جو تحریر شدہ تھیں، لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے لکھی ہوئی تو درکنار حماد، ابراہیم سے وہ روایات بھی بیان کرتا تھا جو سرے سے اس نے سنی ہی نہیں ہوتی تھیں۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ ملاحظہ فرمائیں: امام شعبہ رحمہ اللہ کا بیان ہے، مجھے حماد نے ابراہیم سے ایک روایت بیان کی تو میں نے پوچھا: من أخبرك؟ سمعت هذا من إبراهيم؟ آپ سے کس نے بیان کی؟ کیا آپ نے یہ ابراہیم سے خود سنی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: (پھر) آپ سے کس نے بیان کی؟ (حماد نے) کہا: مجھے منصور نے بیان کی ہے۔ (شعبہ نے) کہا: تو میں نے منصور کے پاس آکر کہا: مجھے حماد نے آپ کے ذریعے سے ابراہیم کی روایت بیان کی ہے، کیا آپ نے ابراہیم سے سنی ہے؟ (منصور نے) کہا نہیں، مجھے تو مغیرہ نے ابراہیم سے بیان کی ہے، پھر میں مغیرہ سے ملا، میں نے کہا: آپ نے ابراہیم سے یہ اور یہ بیان کیا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، میں نے کہا: آپ نے ان سے سنا ہے؟ کہا نہیں، مجھے تو حماد نے بیان کی (امام شعبہ رحمہ اللہ نے) کہا: میری بڑی خواہش تھی کہ میں یہ جان سکوں، سب سے پہلے یہ روایت بیان کرنے والا کون ہے؟ لیکن میرے لیے یہ ممکن نہ ہو سکا۔ (آداب الشافعی ومناقبہ لابن أبی حاتم ص 167، 168 وسندہ صحیح)۔
اس ایک واقعہ سے حماد عن ابراہیم کی حقیقت منکشف ہو جاتی ہے۔ موصوف نے شاید لاعلمی میں کمزور بنیاد پر عمارت کھڑی کرنے کا سوچ لیا ہے۔
ہمارے محترم بھائی نے ایک عذر مزید کشید کرنے کی کوشش فرمائی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: ”حماد کا ابراہیم کے حوالے پختہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ابراہیم کی وفات کے بعد لوگ ابراہیم سے صادر شدہ فتاوی جات ان ہی سے پوچھتے تھے۔ “
یہ بھی طفل تسلی سے بڑھ کر کچھ نہیں، کیونکہ روایت بیان کرنے اور فقہی احکام و مسائل بیان کرنے میں فرق ہے۔
حماد بن ابی سلیمان کے بارے میں تو بعض محدثین خود تفریق کر کے انہیں فقہ میں ثابت اور روایت میں غیر ثابت قرار دے چکے ہیں، چنانچہ امام ابو حاتم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: هو صدوق ولا يحتج بحديثه وهو مستقيم فى الفقه وإذا جاء الآثار شوش یعنی صدوق ہے، حدیث میں حجت نہیں، البتہ فقہ میں مستقیم ہے اور جب روایت بیان کرتا ہے تو گڈ مڈ کر دیتا ہے۔ (الجرح والتعديل 3/147، 148)
شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”لیث کا استاد حماد بن ابی سلیمان ہے وہ بھی ضعیف و مجروح راوی ہے، ابو حاتم رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ صدوق ہے اس کی حدیث قابل حجت نہیں وہ فقہی روایات کو بیان کرنے میں مستقیم ہے ۔“(مقالات راشدیہ 3/406)
موصوف نے اس سلسلے کا آخری عذر یہ تراشا کہ ”حماد کا ابراہیم سے اس روایت میں پختہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ابراہیم خود بھی دو طرف سلام پھیرتا تھا۔ “
محدث ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں: مگر اس رائے کے برعکس علامہ ابن الصلاح رضی اللہ عنہ نے کہا: عمل العالم أو فتياه على وفق حديث ليس حكما منه بصحة ذلك الحديث ”عالم کا عمل یا اس کا حدیث کے مطابق فتویٰ اس کی طرف سے حدیث پر صحت کا حکم نہیں ہے۔“ سیدھی سی بات ہے کہ جب کسی عالم و مجتہد کا صحیح حدیث کے خلاف قول و عمل اس کو مستلزم نہیں کہ وہ حدیث اس کے نزدیک ضعیف ہو تو اس کا عمل اس کی صحت کی دلیل کیونکر بن سکتا ہے؟ کیونکہ اس بات کا احتمال ہے کہ اس حدیث کے علاوہ بھی کوئی خارجی دلیل اس کی موید ہو جیسے یہ کہ اجماع یا قیاس اس کا موید ہو۔ اس بنا پر مجتہد نے اس حدیث پر عمل کیا ہو یا اس سے استدلال کیا ہو، بلکہ بعض ائمہ کرام وہ بھی ہیں جو ضعیف حدیث کو قیاس سے مقدم جانتے ہیں، جیسا کہ امام احمد رضی اللہ عنہ وغیرہ نے فرمایا ہے۔ (اعلاء السنن فی المیزان ص 49)
ابراہیم نخعی سے جنازے میں ایک سلام پھیرنا بھی ثابت ہے
علاوہ ازیں موصوف یہ بھی یاد رکھیں کہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے جنازے میں ایک سلام پھیرنا بھی ثابت ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/11496500 وسندہ صحیح)
اب کیا خیال ہے اس خود ساختہ دلیل کے بارے میں؟
حماد بن ابی سلیمان مدلس ہیں
اس روایت پر ایک اعتراض یہ بھی وارد ہوتا ہے کہ حماد مدلس ہیں اور سماع کی صراحت نہیں۔ اس کے جواب میں بعض حضرات کا کہنا ہے، چونکہ یہ طبقہ ثانیہ کے مدلس ہیں، لہذا ان کا عنعنہ مضر نہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جواب درست نہیں، کیونکہ طبقات کی یہ تقسیم کسی بھی دور میں حتمی یا حرف آخر نہیں سمجھی گئی۔ مثلاً: حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ سفیان الثوری کو طبقہ ثانیہ کا مدلس قرار دیتے ہیں، جبکہ حافظ ابن حج رحمہ اللہ سے صدیوں پہلے گزرنے والے محدث امام عثمان بن سعید الدانی رحمہ اللہ (متوفی 444ھ) نے انہیں طبقہ ثالثہ میں قرار دیا۔ (کتاب بیان المسند والمرسل ص 95/96)
خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی اسے حرف آخر نہیں سمجھتے تھے۔ یحییٰ بن ابی کثیر کو طبقات المدلسین میں طبقہ ثانیہ میں درج کیا اور اسی بنا پر ان کی روایت پر کلام بھی کیا، چنانچہ محدث محب اللہ شاہ الراشدی رحمہ اللہ شکوہ کناں ہیں:” متقدمین کو تو چھوڑیں، لیکن متاخرین میں حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں گھوڑے کی حلت والا مسئلہ بیان کرتے وقت ایک روایت میں یہ علت پیش کی ہے کہ اس میں یحییٰ بن ابی کثیر جو مدلس ہے۔ حالانکہ یحییٰ بن ابی کثیر دوسرے درجے کا مدلس ہے۔ “ نیز لکھتے ہیں: اسی طرح تلخیص الحبیر میں حافظ ابن حجر حدیث العینہ کے بارے میں جس کو طبرانی اعمش کے طریق سے لائے ہیں۔ اس طرح الاعمش عن عطاء عن ابن عمر کہتے ہیں، گو کہ اس حدیث کو ابن القطان نے ذکر کیا ہے اور اس کی تصحیح کی ہے تاہم یہ حدیث معلول ہے، کیونکہ لأنه لا يلزم من كونه رجاله ثقات أن يكون صحيحا لأن الأعمش مدلس ولم يذكر سماعه من عطاء یعنی کسی حدیث میں سب رجال کا ثقہ ہونا اس حدیث کے صحیح ہونے کو مستلزم نہیں ہے، کیونکہ اس کی سند میں اعمش ہے اور انہوں نے عطاء سے سماع کی تصریح نہیں کی ہے یعنی عن سے روایت کی ہے۔ حافظ کے طبقات المدلسین سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمش بھی دوسرے درجے کا مدلس ہے (مقالات راشدیہ 9/51)
اسی طرح ابن جریج کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کثیر التدلیس کی وجہ سے طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے، جبکہ فتح الباری (5/8، 416) میں ربما دلس قرار دیا ہے۔
اگر یہ طبقاتی تقسیم حتمی یا حرف آخر ہوتی تو اہل علم کبھی اس کی مخالفت نہ کرتے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان طبقات کے برعکس بھی علماء نے فیصلے صادر فرمائے ہیں، مثلاً: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام زہری رحمہ اللہ کو تیسرے طبقے میں ذکر کیا ہے، لیکن معاصرین کی ایک جماعت انہیں طبقہ ثالثہ میں ماننے کو تیار ہی نہیں۔ درج ذیل سطور میں بعض ان معروف اہل علم کا ذکر کیا جاتا ہے جنہوں نے حافظ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ عنہ کی طبقاتی تقسیم سے اختلاف کیا ہے:
● حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سفیان الثوری رحمہ اللہ کو طبقہ ثانیہ میں ذکر کیاہے، جبکہ علامہ محمد بشیر سہسوانی رحمہ اللہ ایک روایت کی علت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وأيضا فيها سفيان الثوري وهو مدلس وقد عنعنه (صیانة الإنسان عن وسوسة الشیخ دحلان 3001)
● حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ نے اعمش کو طبقہ ثانیہ میں ذکر کیا ہے، جبکہ محدث العصر حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس میں اعمش ہے جو مدلس ہے اور عمن سے روایت کرتا ہے جو ناقابل استدلال ہے۔ (دوام حدیث ص 517)
● حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ نے ابراہیم نخعی کو طبقہ ثانیہ میں ذکر کیا ہے، جبکہ شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ایک روایت کی علت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تیسری یہ ہے کہ ابراہیم بھی مدلس ہے (كما لا يخفي على الماهر بالأصول) (مقالات راشدیہ 3/81)
اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں، ورنہ ان مذکورہ مثالوں کے علاوہ بیسیوں مثالیں محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اپنے مقالات (4/168) میں بیان کر چکے ہیں۔ واللہ الحمد
جب سرے سے یہ طبقاتی تقسیم ہی مختلف فیہ ہے تو طبقہ ثانیہ کے مدلسین کے عنعنہ کو ”اتفاقیہ“ قبولیت کا درجہ دینا چہ معنی دارد؟
ہم اپنا موقف کسی پر مسلط نہیں کر سکتے، لیکن جسے حق سمجھتے ہیں اس کا اظہار کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتے، چنانچہ ہمارے نزدیک اس سلسلے میں سب سے محتاط رائے امام شافعی رحمہ اللہ کی ہے کہ ومن عرفناه دلس مرة فقد أبان لنا عورته فى روايته جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہو گیا کہ اس نے ایک مرتبہ تدلیس کی ہے تو اس نے اپنی پوشیدہ بات ہمارے سامنے ظاہر کر دی۔ (الرسالة: 1033)
نیز امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: لا نقبل من مدلس حديثا حتي يقول فيه: حدثني أو سمعت ہم کسی مدلس سے کوئی حدیث قبول نہیں کرتے حتی کہ وہ حدثني یا سمعت کہہ دے۔ (الرسالة: 1035)
یہی موقف جمہور محدثین کا ہے، جیسا کہ محدث ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے فرمایا: چوتھا موقف یہ ہے کہ ثقہ مدلس ہو اس کی جب تک تحدیث ثابت نہ ہو اس وقت تک اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے۔ یہ موقف امام شافعی اور خطیب بغدادی رحمہ اللہ علیہ کا ہے اور اکثر اسی کو قبول کرتے ہیں۔ (ضوابط الجرح والتعديل ص 84)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وقد اتفقوا على أن المدلس لا يحتج بعنعنته یعنی اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ مدلس کا عنعنہ حجت نہیں۔ (شرح النووی علی مسلم 5/58)
یہاں سر دست یہ بتانا مقصود ہے کہ جس نے بھی حماد بن ابی سلیمان کے عنعنہ کو بطور علت بیان کیا ہے اس نے کوئی جرم نہیں کیا بلکہ علماء ومحدثین کا اسلوب ہی اختیار کیا ہے اور ہم واضح کر چکے ہیں کہ طبقہ ثانیہ کے مدلسین کے عنعنہ پر بھی کلام کیا گیا ہے۔ راقم الحروف مسئلہ تدلیس پر مفصل لکھ رہا ہے، اللہ تعالیٰ اپنی خاص رحمت و نصرت سے تکمیل کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔ اس موضوع کی مزید تفصیل وہیں ملاحظہ کی جا سکے گی۔ ان شاء اللہ۔
غلط فہمی:
ہمارے ایک بھائی نے لکھا: امام بخاری رحمہ اللہ علیہ بھی حماد کی عنعنہ قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری باب قراءة القرآن بعد الحدیث وغیرہ میں ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ کا فرمان ذکر فرمایا: قال حماد عن إبراهيم یعنی امام بخاری حماد کی ”عن“ کے باوجود اس اثر کو قال کے ساتھ ذکر کر رہے ہیں قیل نہیں کہا گویا عند البخاری حماد کا عن مقبول ہے۔
ازالہ:
اصول حدیث میں خود ساختہ استدلال سے بچنے میں ہی عافیت ہے ورنہ کسی مسلم اصول کا انکار لازم آئے گا۔ اگر اس بھائی کے استدلال کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر ماننا پڑے گا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے ہاں مسئلہ تدلیس کوئی شے نہیں اور آپ طبقہ ثانیہ کے علاوہ بھی تدلیس قبول کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: قال ابن جريج عن ابن شهاب (صحیح البخاری: 5309)
نیز فرمایا: قال ابن جريج قال ابن شهاب (حوالہ مذکورہ)
اسی طرح آپ نے فرمایا: وقال مغيرة عن إبراهيم (صحیح البخاری قبل حدیث 2511)
مغیرہ بن مقسم اور ابن جریج طبقہ ثالثہ کے ہیں اور انہیں کثیر التدلیس سمجھا جاتا ہے۔ اب کیا خیال ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ ان حضرات کے عنعنہ کو بھی قبول فرماتے تھے؟ إذ ليس فليس.
حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک اگر کوئی معتبر متابعت موجود ہوتی یا کسی دوسری جگہ سماع کی صراحت ہوتی تو آپ قال وغیرہ کے ذریعے سے بھی روایت بیان کر دیتے تھے لیکن اس سے یہ اخذ کرنا کہ آپ کے نزدیک سرے سے وہ علت ہی ختم ہو جاتی تھی یا اسے علت ہی نہیں سمجھتے تھے بالکل غلط ہے۔
غلط فہمی:
ایک غلط فہمی ہمارے بھائی کو یہ ہوئی کہ حماد عن ابراہیم کی روایت کو امام حاکم نے صحیح کہا اور حافظ ذہبی نے موافقت کی ہے، علاوہ ازیں امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے، لہذا ان سب کے نزد حماد وابراہیم کا عنعنہ مقبول ہے۔
ازالہ:
ہم اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے محدث العصر سید محب اللہ شاہ الراشدی رحمہ اللہ کے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں جس سے امید واثق ہے کہ غلط فہمی جاتی رہے گی، ان شاء اللہ۔
راشدی صاحب لکھتے ہیں: تیسرے درجے کے مدلس راوی کی روایت کے بارے میں عدم تصریح کی صورت میں اس طرح کہنا کہ یہ امام بخاری کی شرط پر ہے (کیونکہ شیخین میں امام بخاری رحمہ اللہ بھی آجاتے ہیں) اس سے زیادہ غلط بات کوئی نہیں ہو سکتی اور حاکم تو اس سے بھی زیادہ ضعیف احادیث کے بارے میں مستدرک میں لکھ گئے ہیں کہ صحيح على شرط الشيخين یعنی یہ حدیث صحیح اور شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر ہے۔
نیز لکھتے ہیں: حافظ ذہبی نے اپنی تلخیص میں تدلیس والی علت کو کسی بھی جگہ ذکر نہیں کیا صرف رواۃ کی جرح پر ہی اکتفا کیا ہے وہ بھی ان رواۃ پر جو صحاح ستہ کی روایات کے ہیں۔
دراصل حافظ ذہبی کے صنیع سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کی اس روایت پر تنقید کی ہے جن میں کوئی راوی مجروح ہے یا بلفاظ دیگر حافظ صاحب کا یہ مقصد معلوم ہوا کہ جب کئی مقامات پر حاکم مستدرک میں وضاع راویوں کی روایات کی تصحیح بھی کر گئے ہیں، لہذا ان مجروحین کی نشاندہی کی جائے۔ بس۔ ورنہ تدلیس خواہ انقطاع وغیرہ علتیں ہیں جو محدث حدیث کی تضعیف کے لیے بطور دلیل پیش کرتے رہے ہیں اور یقیناً حافظ ذہبی سے زیادہ کون محدثین کے مسلک سے واقف ہوگا۔ (مقالات راشدیہ 9/44، 45)
بعد ازاں مذکورہ حوالے میں شاہ صاحب حفظہ اللہ نے کئی مثالیں بھی پیش کی ہیں، تفصیل کا طالب وہاں ملاحظہ کر سکتا ہے۔
تصحیح حدیث اور علل کے اعتبار سے ہم گزشتہ صفحات میں بھی مدلل وضاحت کر چکے ہیں، مزید براں راشدی رحمہ اللہ کا اقتباس پیش خدمت ہے۔ چنانچہ محدث محب اللہ شاہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: حافظ صاحب والی مثال سے آپ اندازہ لگائیں کہ اگر ابن القطان ایک حدیث کی تصحیح کرتے ہیں اگرچہ ابن القطان کو متشد لکھا جاتا ہے تاہم متاخرین میں سے حافظ ابن حجر اس کی تصحیح پر کلام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حدیث صحیح نہیں ہے بلکہ معلول ہے کیونکہ اس میں مدلس راوی ہے۔ انہوں نے اپنے شیخ سے سماع کی تصریح نہیں کی مطلب کہ ابن القطان سے اس وقت اس علت سے ذہول ہو گیا جس پر تنبیہ کرنے کی توفیق اللہ رب العالمین نے پھر حافظ صاحب کو دی آخر اس میں قباحت و شناعت کون سی ہے؟
نیز لکھتے ہیں: ابن حبان اس روایت کو اپنی صحیح میں لائے ہیں ناظرین کرام غور فرمائیں کہ جس صورت میں یہ روایت ضعیف ہے اور ضعف کی علتیں نمایاں ہیں تو اس صورت میں ابن حبان کا اس روایت کو اپنی صحیح میں لانا اس کا صحیح ہونا اہل علم کے نزدیک ہرگز حجت نہیں ہو سکتا۔ صحیح ابن حبان کی کئی روایات پر ائمہ حدیث نے کلام کیا ہے اور ان کو معلول یا ضعیف قرار دیا ہے۔ (مقالات راشدیہ 9/52، 53)
صحیح ابن خزیمہ کی روایت بھی علل کی صورت میں اسی کیفیت سے دوچار ہوگی۔
ہمارے بھائی کا مذکورہ استدلال غلط فہمی یا علمی سہو سے بڑھ کر کچھ نہیں، لہذا یقیناً وہ اہل علم کی توضیح و توجیہ سے دور ہو چکا ہوگا۔ ان شاء اللہ۔
غلط فہمی:
ہمارے محترم لکھتے ہیں: اسی طرح امام ابن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ نے کہا: سألت أبا زرعة عن حديث حماد عن إبراهيم عن أبى سعيد الخدري عن النبى صلى الله عليه وسلم رواه الثوري عن حماد عن إبراهيم عن أبى سعيد موقوفا قال أبو زرعة: الصحيح موقوف عن أبى سعيد لان الثوري احفظ (العلل لابن أبی حاتم 1118) یہاں ابو زرعہ رحمہ اللہ نے حماد کی عنعنہ کے باوجود اس کے موقوف ہونے کو صحیح کہا ہے اور ظاہر بات ہے علل حدیث کے بارے میں بات ہو رہی ہے اگر آج کے دور کی وضع کردہ یہ علت قادحہ ہوتی تو ابو زرعہ یہاں ضرور وضاحت کرتے۔
ازالہ:
یہاں بھی ہمارے بھائی نے بغیر سوچے سمجھے استدلال کر ڈالا اور غصے کا اظہار بھی فرما دیا۔ عرض یہ کہ آپ کا استدلال ناقص ہے، کیونکہ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ امام موصوف کے پیش نظر دیگر شواہد و قرائن ہوں گے تبھی محض صحیح قرار دیا، اگر نہیں تو پھر یہ سہو ہے۔
امام ابو حاتم رحمہ اللہ سمیت جمہور محدثین کے نزدیک یہ طریق غیر ثابت ہی ہے، چنانچہ امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے فرمایا: لم يلق إبراهيم النخعي أحدا من أصحاب النبى ما إلا عائشة ولم يسمع منها شيئا (کتاب المراسیل لابن أبی حاتم ص 9، رقم: 21)
اور مذکورہ روایت إبراہیم عن أبی سعید ہے۔ اگر موصوف کا استدلال صحیح مانا جائے تو پھر ابراہیم کی سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ملاقات و سماع بھی ماننا پڑے گا، جبکہ امام ابو زرعہ رحمہ اللہ سمیت کسی بھی محدث سے اس کا اشارہ بھی نہیں ملتا، بلکہ سب کا فیصلہ اس کے برعکس ہی ہے۔ جب إبراهيم عن أبى سعيد درست نہیں تو حماد عن إبراهيم کو کیونکر درست تسلیم کیا جا سکتا ہے؟
باقی رہا موصوف کا یہ کہنا کہ ”اگر آج کے دور کی وضع کردہ یہ علت قادحہ ہوتی تو ابو زرعہ یہاں ضرور وضاحت کرتے۔“ تو عرض ہے کہ امام شافعی، خطیب بغدادی، حافظ ابن حبان وغیرہ جمهور محدثین آپ کو آج کے دور کے لگتے ہیں؟ یہ مت بھولیے کہ آپ کی پھبتی کی زد میں شیخ العرب والعجم بھی آجاتے ہیں جن کے نام سے آپ نے ”بدیع العلوم“ بنا رکھا ہے، کیونکہ ابراہیم نخعی کے عنعنہ کو انہوں نے بھی بطور علت پیش کیا ہے، کما تقدم۔
غلط فہمی:
موصوف لکھتے ہیں: امام ابن حجر وغیرہ نے جو اس کے مدلس ہونے کے لیے مثال پیش کی ہے اس میں حماد نے مغیرہ بن مقسم کو تدلیس کرتے ہوئے گرا دیا ہے اور مغیرہ ثقہ امام ہے یعنی وہ کبھی تدلیس بھی کرتا تھا تو ثقات سے کرتا تھا۔
ازالہ:
سبحان اللہ! ذہانت و فطانت کے کیا کہنے، جو مسئلہ ائمہ محدثین سے حل نہ ہو سکا ہمارے بھائی نے ایک ہی چٹکی میں کر دیا۔
امام شعبہ رحمہ اللہ نے تو فرمایا: ”میری بڑی خواہش تھی کہ میں یہ جان سکوں، سب سے پہلے یہ روایت بیان کرنے والا کون ہے؟ لیکن میرے لیے یہ ممکن نہ ہو سکا۔“ (آداب الشافعی ومناقبہ لابن أبی حاتم ص 168)
جبکہ موصوف نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا!!!
گزارش ہے کہ ہم یہ واقعہ سابقہ صفحات میں بیان کر چکے ہیں اسے دوبارہ پڑھیے اور بار بار پڑھیے، پھر بتائیں کہ جو آپ نے لکھا اس میں کتنی صداقت ہے؟
غلط فہمی:
محترم لکھتے ہیں: معترضین سے سوال: جیسا کہ آپ کا خیال ہے کہ حماد کی عنعنہ ہر وقت مردود ہے تو جن محدثین نے اس سے اختلاط سے پہلے سنا ہے جیسا کہ سفیان رحمہ اللہ وغیرہ اور سفیان کی روایت حماد سے جس کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی صحیح کہا ہے، وہ ساری روایات پیش کریں اور ان میں کوئی ایک بتائیں جس میں تصریح سماع ہو حماد کا ابراہیم سے؟
ازالہ:
یہ بالکل طفلانہ سوال ہے۔ عام طالب علم بھی جانتا ہے کہ یہاں صرف عدم تخلیط کی بات ہو رہی ہے اور تدلیس کی علت برقرار ہے، کیونکہ حماد کی بہت سی روایات ابراہیم کے علاوہ بھی ہیں جنہیں سفیان الثوری، حماد سے بیان کرتے ہیں اور سماع کی صراحت بھی موجود ہے۔ آپ خواہ مخواہ ابراہیم کے ساتھ حماد کو لازم و ملزوم نہ کریں۔ آپ کا یہ سوال خلط مبحث کے سوا کچھ بھی نہیں اور یہ تو آپ بھی جانتے ہوں گے کہ اختلاط اور تدلیس میں فرق ہے۔
ابراہیم نخعی مدلس ہیں
ابراہیم نخعی مدلس ہیں اور اس روایت میں انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی، لہذا یہ روایت ان کے عنعنہ کی وجہ سے بھی ضعیف ہے۔
اعمش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: إذا حدثتني عن عبدالله، فأسند قال: إذا قلت: قال عبدالله فقد سمعه من غير واحد من أصحابه وإذا قلت: حدثني فلان فحدثني فلان جب آپ مجھے عبداللہ سے حدیث بیان کرو تو مسند (متصل) کرو۔ انہوں نے کہا: جب میں قال عبدالله کہوں تو وہ میں نے ان کے کئی اصحاب سے سنا ہوتا ہے اور جب میں حدثني فلان فحدثني فلان کہوں (تو وہی سماع متحقق ہوتا ہے)۔ (الطبقات لإبن سعد 6/272 وسندہ حسن)
حدثني فلان مطلق ہے اور امام موصوف نے یہ فرما کر خود وضاحت کر دی کہ میں سماع کی صراحت کروں تو سماع محقق ہوگا، بصورت دیگر نہیں۔
شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے ایک روایت کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا: تیسری یہ ہے کہ ابراہیم نخعی مدلس ہے۔ (كما لا يخفي على الماهر بالأصول) (مقالات راشدیہ 3/81)
مذکورہ بالا عمل کی بنا پر زیر بحث روایت کو ضعیف قرار دیا جاتا ہے جنہیں ہم ترتیب وار باحوالہ بیان کر چکے ہیں۔ والحمد للہ۔
اب اگر ان علل کی موجودگی میں اہل علم میں سے کوئی اس روایت کی تصحیح یا تحسین کرے تو وہ مقبول نہیں ہوگی، جیسا کہ ہم گذشتہ صفحات میں اس سلسلے کی کئی مثالیں بھی لکھ چکے ہیں۔
⟐ دوسری روایت
عن أبى موسي قال: صلينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على جنازة فسلم عن يمينه وعن شماله (المعجم الأوسط للطبرانی: 4470)
اس روایت کی سند میں ایک راوی خالد بن نافع الاشعری ضعیف ہے۔
➊ امام ابو زرعہ الرازی (متوفی 264ھ) نے کہا: ضعيف الحديث (الجرح والتعديل 3/355)۔
➋ امام نسائی رحمہ اللہ (متوفی 303ھ) نے کہا: ضعيف (الضعفاء والمتروکون: 169)۔
➌ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (233ھ) نے کہا: ليس بشيء (تاریخ ابن معین روایة ابن محرز 1/61)۔
➍ امام عبداللہ بن نمیر رحمہ اللہ (متوفی 115ھ) نے کہا: ضعيف الحديث (تاریخ ابن معین روایة ابن محرز 2/227)۔
➎ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (متوفی 277ھ) نے کہا: شيخ، ليس بقوي يكتب حديثه (الجرح والتعديل 3/355)۔
➏ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (متوفی 597ھ) نے اسے الضعفاء والمتروكون (1092) میں ذکر کیا ہے۔
➐ حافظ ذہبی رحمہ اللہ (متوفی 748ھ) نے المغني فى الضعفاء (1885) اور ديوان الضعفاء (128) میں ذکر کیا ہے۔
امام ابن عدی رضی اللہ عنہ (متوفی 365ھ) کے نزدیک (الکامل 4/290) اور امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ (متوفی 463ھ) کے نزدیک بھی (تاریخ بغداد 9/234) یہ ضعیف ہی ہے۔
علاوہ ازیں حافظ ابن القيسرانی (متوفی 507ھ) ذخيرة الحفاظ (2/708)، حافظ ابن حجر (متوفی 852ھ) لسان المیزان (2/388)، احمد بن علی، تقی الدین المقریزی (متوفی 845ھ) مختصر الکامل فی الضعفاء (588)، علامہ مقبل بن ہادی (متوفی 1422ھ) رجال الحاکم فی المستدرک (698)، الشیخ ابو اسحاق الحوینی (نثل النبال بمعجم الرجال 1/545) اور علامہ ناصر الدین البانی (متوفی 1420ھ) سلسلہ ضعیفہ (14/412) کے نزدیک بھی ضعیف ہی ہے۔
امام ابن نمیر رحمہ اللہ نے تو اس کے حفظ پر بھی کلام کیا ہے۔ (تاریخ ابن معین 2/227)
ایسا ضعیف راوی تو ضعیف + ضعیف والوں کے ہاں بھی متابعت کے لائق نہیں، اور امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ایک روایت کے بارے میں کیا خوب فرمایا: ليته يصحح نفسه، فكيف يصحح غيره یعنی کاش وہ بذات خود صحیح ہوتی، پھر (جو خود ضعیف ہو وہ) کسی دوسری کی تصحیح کا باعث کیسے بن سکتی ہے؟ (سؤالات یزید بن الہیثم بن طہمان: 58)
تیسری حدیث:
ابراہیم الہجری نے کہا: سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کے جنازے پر ہماری امامت کرائی تو چار تکبریں کہیں، پھر کچھ دیر ٹھہرے رہے حتی کہ ہمیں محسوس ہوا کہ آپ پانچویں تکبیر بھی کہیں گے۔ بعد ازاں دائیں اور بائیں طرف سلام پھیر دیا۔ جب فارغ ہوئے تو ہم نے عرض کیا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا اس پر کچھ بھی اضافہ نہیں کیا، یا کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا۔ (السنن الکبری للبیہقی: 6988)
یہ روایت بھی درج ذیل وجوہ کی وجہ سے ضعیف ہے:
➊ محمد بن مسلمہ الواسطی:
یہ متكلم فيه ہے۔ اس پر شدید جروح کے لیے ملاحظہ کریں علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی تصنیف لطیف سلسلۃ الأحادیث الضعیفة (2/243) وغیرہ۔
➋ شریک بن عبداللہ القاضی:
اگرچہ صدوق حسن الحدیث ہیں لیکن مدلس اور مختلط بھی ہیں۔ یزید بن ہارون کا سماع شریک سے قبل از اختلاط ہے، البتہ مذکورہ روایت میں شریک نے سماع کی صراحت نہیں کی اور معلوم شد کہ مدلس کی ”عن“ والی روایت ضعیف ہوتی ہے، جیسا کہ تفصیلی بحث گزر چکی ہے۔
❀ امام ابن حزم رحمہ اللہ (متوفی 456ھ) نے شریک القاضی کو مشهور بتدليس المنكرات إلى الثقات قرار دیا (المحلی بالآثار 4/48)۔
❀ امام ابن القطان الفاسی رحمہ اللہ (متوفی 628ھ) نے کہا: شريك مع ذلك مشهور بالتدليس وهو لم يذكر السماع فيه (بیان الوہم والإیہام 3/534 رقم: 1314)
❀ محدث ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ایک روایت پر حکم بایں الفاظ لگاتے ہیں: إسناده ضعيف، لأن شريك القاضي مدلس كما فى التهذيب (ج 4 ص 337) وقد عنعنه (مسند السراج: 1025)
اور ہماری زیر بحث روایت میں بھی شریک القاضی نے سماع کی صراحت نہیں کی اور روایت عن سے ہے، لہذا یہ روایت شریک القاضی کے عنعنہ کی وجہ سے بھی ضعیف ہے۔
➌ ابراہیم الہجری:
یہ ایسا راوی ہے کہ اس کے ضعیف ہونے پر تقریباً تمام محدثین متفق ہیں۔ تفصیل کے لیے کتب اسماء الرجال ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
➍ اس روایت کی چوتھی علت جاننے کے لیے دیکھیے: فتاوی علمیہ (1/543) از محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ علیہ ۔

② ایک طرف سلام پھیرنا اور اس کے دلائل

درج ذیل سطور میں نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنے والوں کے دلائل بیان کیے جائیں گے اور اس سلسلے میں جو اعتراضات و شبہات وارد ہوتے ہیں ان کا ازالہ بھی کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ
سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ السنة فى الصلاة على الجنازة أن تكبر ثم تقرأ بأم القرآن ثم تصلي على النبى صلى الله عليه وسلم ثم تخلص الدعاء للميت ولا تقرأ إلا فى التكبيرة الأولي ثم تسلم فى نفسه عن يمينه یعنی نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ تو تکبیر کہے، پھر سورہ فاتحہ پڑھے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے اور (فاتحہ کی) قراءت صرف پہلی تکبیر میں ہی کرے، پھر اپنی دائیں طرف خفیہ (آہستہ سے) سلام پھیر دے۔ اسے امام ابن الجارود نے المنتقي (540) میں بیان کیا اور اس کی سند صحیح ہے۔
نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنے سے متعلق صحیح یا حسن لذاتہ اسناد کی روایات درج ذیل کتب میں بھی ہیں:
● فضل الصلاة على النبى صلى الله عليه وسلم للإمام إسماعيل بن إسحاق (94)
● مسند الشاميين للطبراني (4/160 ح 3000)
●شرح معاني الآثار للطحاوي (1/500 ح 2868)
●المستدرك للحاكم (1/360 – 1331) امام حاکم رحمہ اللہ اس حدیث کے بعد لکھتے ہیں: نماز جنازہ میں ایک سلام کے متعلق اس سے زیادہ صحیح حدیث کوئی نہیں ہے۔
تنبیہ: ابو امامہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ صحابی صغیر ہیں اور ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ صحابی صغیر ہو یا کبیر مراسیل صحابہ حجت ہیں۔
اگر پھر بھی کوئی بند ہو کہ صحابی صغیر کی مرسل حجت نہیں یا سرے سے وہ ابو امامہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کی صحابیت ہی کا منکر ہو تو عرض ہے کہ بعض روایات میں اس بات کی صراحت بھی موجود ہے کہ ابو امامہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے رجل يا رجال من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم سے بھی یہ روایت بیان کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
المستدرك للحاكم (1/360) الأوسط لابن المنذر (5/492) ،شرح معانی الآثار للطحاوی (500/1) ، السنن الکبری للبیہقی (4/40) وغیرہ۔
اصول حدیث میں یہ مسلم ہے کہ جب ثقہ تابعی رجل من أصحاب رسول سے بیان کرے گا تو وہ حدیث مقبول و حجت ہو گی، جبکہ ہماری زیر بحث حدیث میں تو ابو امامہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ ہیں جنہیں شرف صحابیت حاصل ہے۔
نماز جنازہ میں ایک سلام اور ہمارے اسلاف
❀ نافع کا بیان ہے، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز جنازہ پڑھتے تو رفع یدین کرتے، پھر تکبیر کہتے۔ جب (تکبیرات وغیرہ سے) فارغ ہوتے تو اپنی دائیں جانب ایک سلام پھیرتے تھے۔ (مصنف ابن أبی شیبہ 3/307 ح 11491 وسندہ صحیح)
❀ امام مکحول رحمہ اللہ بھی نماز جنازہ میں ایک ہی سلام پھیرتے تھے۔ (مصنف ابن أبی شیبہ 3/308 – 11506 وسندہ صحیح)۔
❀ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے بھی جنازے میں ایک سلام پھیرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ (مصنف ابن أبی شیبہ 3/307 ح 11496 وسندہ صحیح)
❀ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص نماز جنازہ میں دو سلام پھیرتا ہے وہ جاہل ہے، وہ جاہل ہے۔ (مسائل أبی داؤد ص 154 وسندہ صحیح)
❀ امام ابو عبداللہ محمد بن نصر المروزی رحمہ اللہ (متوفی 294ھ) نے فرمایا: وقال ابن المبارك وعامة أهل الحديث: تسليمة واحدة یعنی امام عبداللہ بن مبارک اور عام اہل حدیث اسی کے قائل ہیں کہ جنازے میں صرف ایک ہی سلام ہے۔ (اختلاف العلماء ص 64)
امام مروزی رحمہ اللہ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں تقریباً عام اہل حدیث کا اتفاق رہا ہے کہ جنازے میں ایک ہی سلام ہے۔
اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ جنازے میں دو سلام پھیرنے سے متعلق نہ تو کوئی مرفوع حدیث صحیح ہے اور نہ کسی صحابی کا ہی عمل ہے، بلکہ تابعین میں سے بھی ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے علاوہ کسی تابعی سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا: ابو امامہ (سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ) کی حدیث کی بنا پر مجھے ایک طرف ہی سلام پھیرنا پسند ہے، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسی پر (عمل پیرا) ہیں، اور وہ دوسروں سے زیادہ سنت کا علم رکھتے ہیں، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں حاضر رہے اور انہوں نے آپ سے (طریقہ نماز) یاد کیا، ان میں سے جن سے بھی ہم نے روایت کی، وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ بلاشبہ (جنازے میں) ایک ہی سلام ہے اور اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک سلام پھیرنے سے وہ نماز سے فارغ ہو جائے گا۔ (الأوسط لابن المنذر 5/493، 494)
گویا امام ابن منذر رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ میں ایک سلام پر اہل علم کا اجماع نقل کیا۔
الشيخ نوح عالم بن عبدالستار البخاری المدنی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ”تمام ائمہ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ نماز جنازہ میں ایک سلام کا پھیرنا واجب اور ضروری ہے، بغیر اس کے نماز نہیں ہوتی، لیکن اختلاف صرف دو سلام کے جواز و استحباب میں ہے۔“ (بغیة أہل الحاجة ص 20)
ہماری تمام ان اہل علم سے گزارش ہے جن کے نزدیک جنازے میں ایک سلام پھیرنا ثابت ہے کہ وہ اس سنت کے احیا کے لیے اقدام کریں، کیونکہ یہ سنت بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں مفقود ہو چکی ہے، نہ کہ اس سنت ثابتہ کے خلاف مناظرے و مجادلے کیے جائیں۔ یاد رہے سنت کے احیا سے فتنے ختم ہوتے ہیں نہ کہ وجود میں آتے ہیں۔
تنبیہ: بعض لوگ خاص دلائل کے مقابلے میں عام دلائل سے استدلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ اصول فقہ کا مسلم اصول ہے کہ خاص کے مقابلے میں عام سے استدلال جائز نہیں۔
راجح موقف:
قارئین کرام! ہم نے دونوں طرف کے دلائل ذکر کیے ہیں، لیکن ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ جنازے میں ایک ہی سلام پھیرا جائے کیونکہ مرفوع احادیث، عمل صحابہ و تابعین اور جمہور اہل علم کا اتفاق، اسی بات کی دلیل ہے اور اس کے برعکس غیر ثابت روایات ہیں جو قابل حجت و استدلال نہیں۔ واللہ اعلم

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے