نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرا جائے گا یا دو طرف؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرا جائے گا یا دو طرف؟

جواب:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز جنازہ میں صرف ایک طرف سلام پھیرنا ثابت ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت پر نماز جنازہ پڑھائی، اس پر چار تکبیریں کہیں اور پھر ایک ہی سلام پھیرا۔
(سنن الدارقطني: 2/171، ح: 1799، المستدرك للحاكم: 1/360، السنن الكبرى للبيهقي: 4/43، وسندہ حسن)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ہے:
كان يرفع يديه في كل تكبيرة ثم يسلم تسليمة واحدة الى جانبه الايمن
آپ جب نماز جنازہ پڑھتے تو ہر تکبیر پر رفع الیدین کرتے، پھر جب فارغ ہوتے تو اپنے دائیں جانب ایک سلام پھیرتے۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 3/307، وسندہ صحيح)
عمرو بن مہاجر دمشقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رايت واثلة بن الاسقع يكبر على الجنازة اربعا ويسلم تسليمة واحدة
میں نے سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ نے طاعون سے مرنے والے مردوں اور عورتوں کے جنازوں پر چار تکبیریں کہیں اور ایک سلام پھیرا۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 3/207، وسندہ صحيح)
سعید بن جبیر رحمہ اللہ ایک سلام پھیرتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 3/307، وسندہ صحيح)
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ ایک سلام پھیرتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 3/307، وسندہ صحيح)
امام حسن بصری رحمہ اللہ ایک سلام پھیرتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 3/307، وسندہ صحيح)
امام مکحول رحمہ اللہ ایک سلام پھیرتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 3/307، وسندہ صحيح)
امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من سلم على الجنازة بتسليمتين فهو جاهل جاهل
جس نے نماز جنازہ پر دو سلام پھیرے، وہ جاہل ہے، جاہل ہے۔
(مسائل أحمد لأبي داود: 154، وسندہ صحيح)
❀ ابوالفضل صالح بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ ( 265ھ) اپنے والد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بارے میں بتاتے ہیں:
كان يكبر على الجنازة اربعا يرفع يديه مع كل تكبيرة ويقرا بالفاتحة بعد التكبيرة الاولى ثم يسلم تسليمة واحدة
آپ جنازے پر چار تکبیریں کہتے، ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرتے، پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ پڑھتے، پھر ایک ہی سلام پھیر دیتے۔
(سيرة الإمام أحمد لأبي الفضل صالح بن أحمد، ص 40)
دونوں طرف سلام پھیرنے کے دلائل کا جائزہ:
نماز جنازہ میں دونوں طرف سلام پھیرنے کے متعلق کوئی روایت باسند صحیح ثابت نہیں۔
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے ایک جنازے پر دائیں بائیں سلام پھیرا اور فرمایا:
رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعل ذلك
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے دیکھا ہے۔
(السنن الكبرى للبيهقي: 4/43)
سند ضعیف ہے، کیونکہ ابراہیم بن مسلم ہجری جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:
ثلاثة اشياء كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعلهن تركهن الناس منها التسليم في الجنازة كالتسليم في الصلاة
تین کام ایسے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے، لیکن لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا، ان میں سے ایک جنازے میں عام نماز کی طرح سلام پھیرنا ہے۔
(السنن الكبرى للبيهقي: 4/43)
روایت ضعیف ہے، کیونکہ ابراہیم نخعی مدلس ہیں اور انہوں نے سماع کی صراحت نہیں کی۔
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:
صلينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على جنازة فسلم يمينا وشمالا
ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے ساتھ ایک میت پر نماز پڑھی، آپ نے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا۔
(المعجم الأوسط للطبراني: 4334)
روایت ضعیف ہے، کیونکہ خالد بن نافع الاشعری ضعیف ہے۔
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نماز جنازہ میں دائیں بائیں سلام پھیرتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 3/307، وسندہ حسن)
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا یہ فعل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ اور جمہور ائمہ کے خلاف ہے، لہذا قبول نہیں۔
❀ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں:
ان السھو والجنازة سواء
سہو اور جنازہ کا سلام ایک ہی ہے۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 3/306، وسندہ صحيح)
فرض نماز میں ایک سلام کے متعلق تمام مرفوع روایات ضعیف ہیں، البتہ بعض آثار صحابہ میں ایک سلام کا ذکر ہے۔ اولیٰ یہ ہے کہ فعل نبوی کے مطابق فرض نماز میں سلام دونوں طرف پھیرا جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے آثار سے فرض نماز میں ایک طرف سلام پر اکتفا کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ محدثین کرام سے اس کی مخالفت ثابت نہیں، لہذا جب فرض نماز میں ایک طرف سلام پھیرنا جائز ہے، تو نماز جنازہ میں بالاولیٰ جائز ہے، اور اس پر نص بھی موجود ہے۔
حاصل کلام یہ کہ نماز جنازہ میں صرف ایک سلام ہے۔ دونوں طرف سلام پھیرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی سے باسند صحیح ثابت نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے