نماز جمعہ کے بعد ظہر پڑھنا کیسا؟ مکمل شرعی رہنمائی
ماخوذ :فتاویٰ ارکان اسلام

جمعہ کی نماز کے بعد ظہر کی فرض نماز کا حکم

سوال:

اگر کوئی شخص نماز جمعہ ادا کر لے تو کیا اس کے بعد اس پر نماز ظہر پڑھنا بھی لازم ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی شخص نماز جمعہ ادا کر لیتا ہے تو اس پر ظہر کی نماز فرض نہیں رہتی، کیونکہ اس پر فرض نماز جمعہ ہی ہے۔ چنانچہ نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد نماز ظہر ادا کرنا بدعت شمار ہوتی ہے۔ اس لیے کہ نہ تو قرآن مجید میں اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اس عمل سے منع کرنا واجب ہے۔

یہاں تک کہ اگر کسی شہر یا علاقے میں متعدد مقامات پر جمعہ کی نمازیں ادا کی جائیں، تب بھی جمعہ کے بعد ظہر کی نماز پڑھنا مشروع نہیں، بلکہ بدعت اور منکر عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر وقت میں صرف ایک فرض نماز کو واجب قرار دیا ہے، لہٰذا جب جمعہ ادا کر لیا گیا تو ظہر کی نماز کی ادائیگی ساقط ہو گئی۔

بعض لوگوں کی دلیل اور اس کا ردّ

کچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ چونکہ ایک شہر میں متعدد مقامات پر جمعہ کی ادائیگی جائز نہیں، لہٰذا صرف اُس مسجد کا جمعہ درست ہے جہاں سب سے پہلے جمعہ ادا کیا گیا ہو۔ اگر یہ معلوم نہ ہو سکے کہ کون سی مسجد پہلی ہے، تو پھر ان کے نزدیک تمام جمعے باطل ہوں گے اور ظہر کی نماز پڑھنا واجب ہو گی۔

ان لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ یہ دلیل یا تعلیل کہاں سے لے آئے ہیں؟ کیا یہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ماخوذ ہے؟ یا کوئی صحیح عقلی دلیل ہے؟ یقینی طور پر اس کا جواب نفی میں ہو گا۔

شریعت کی روشنی میں صحیح مؤقف

اگر کسی شہر میں ضرورت اور حاجت کے باعث متعدد مقامات پر جمعہ کی ادائیگی کی جا رہی ہو، تو وہ سب درست ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم ﴾
(سورة التغابن: 16)
’’سو جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو۔‘‘

اگر کوئی شہر بہت وسیع ہو جائے یا مساجد چھوٹی ہوں اور لوگوں کی کثرت کی وجہ سے الگ الگ جمعے ناگزیر ہوں، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ اپنی استطاعت کے مطابق اللہ سے ڈر گئے اور واجب کو ادا کر دیا۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ ان کا عمل باطل ہے یا انہیں جمعہ کے ساتھ ساتھ ظہر کی نماز بھی ادا کرنی چاہیے۔

خلاف سنت عمل اور اس کی ذمہ داری

اگر کسی حاجت کے بغیر ایک ہی شہر میں کئی جگہ جمعے ادا کیے جا رہے ہوں تو بلاشبہ یہ خلاف سنت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے طریقے کے خلاف ہے۔

اکثر اہل علم کے نزدیک اس عمل کی ممانعت آئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ کہنا کہ ایسے جمعے کی نماز ادا کرنا درست نہیں یا وہ نماز فاسد ہے، یہ عوام پر الزام نہیں بلکہ ذمہ داری ان حکمرانوں اور منتظمین پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے حاجت کے بغیر متعدد جمعوں کی اجازت دی۔

لہٰذا حکام پر لازم ہے کہ بغیر ضرورت کے متعدد جمعوں کی اجازت نہ دیں، کیونکہ شارع کا مقصود یہ ہے کہ تمام مسلمان اجتماعی طور پر عبادت انجام دیں، تاکہ ان میں محبت و الفت پیدا ہو اور وہ لوگ جو دینی مسائل سے ناواقف ہیں، وہ دین کے احکام سے روشناس ہو سکیں۔

شرعی اجتماعات کی اقسام

شرعی اجتماعات کی تین اقسام ہیں:

یومیہ اجتماع:

ہر محلے کی مسجد میں روزانہ پانچ نمازوں کے لیے اجتماع۔

شارع نے مشقت کے پیش نظر اسے ہر محلے میں منعقد کرنے کی اجازت دی۔

ہفتہ وار اجتماع:

جمعہ کے دن پورے شہر کا اجتماع ایک ہی جگہ پر ہونا سنت ہے۔

ایک جگہ اجتماع کی بڑی مصلحت یہ ہے کہ سب لوگ ایک ہی امام و خطیب کے پیچھے نماز ادا کریں اور ایک جیسی نصیحت حاصل کریں۔

سالانہ اجتماع:

عیدین کے مواقع پر ہوتا ہے۔

جیسے کہ جمعہ کی نماز کا اجتماع ایک جگہ ہونا چاہیے، اسی طرح عید کا اجتماع بھی ایک ہی جگہ ہونا چاہیے، الا یہ کہ کوئی شرعی ضرورت یا مجبوری ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1