نماز جمعہ سے پہلے مخصوص رکعات کے بارے میں 9 ضعیف و من گھڑت روایات
یہ اقتباس شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری کی کتاب غیر مسنون نفلی نمازیں سے ماخوذ ہے۔

نماز جمعہ سے پہلے مخصوص رکعات

نماز جمعہ سے پہلے رکعات کا تعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ اس بارے میں روایات کی تحقیق ملاحظہ ہو:

پہلی روایت:

1۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
كان النبى صلى الله عليه وسلم يركع قبل الجمعة أربعا،زاد الطبراني: وبعدها أربعا، لا يفصل فى شيء منهن.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے قبل اور بعد ایک سلام کے ساتھ چار رکعت پڑھتے۔
(سنن ابن ماجه: 1129؛ المُعجم الكبير للطبراني: 101/12، ح: 12674)

اس روایت کی اسنادی حیثیت:

سند سخت ضعیف ہے۔
➊ مبشر بن عبید ضعیف و متروک ہے۔
اسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (العلل ومعرفة الرجال: 329/2-380) اور امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ (سوالات البرذعي: 322/2) نے جھوٹا قرار دیا ہے۔ امام دارقطنی (الضعفاء والمتروكون، ص 356) امام بخارى (التاريخ الكبير: 11/8) اور امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 343/8) نے منکر الحديث کہا ہے۔
➋ حجاج بن ارطاۃ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف و مدلس ہے۔
➌ عطیہ عوفی جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔
➍ بقیہ بن ولید تدلیس التسویہ کا مرتکب ہے۔ سماع بالتسلسل نہیں کیا۔
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هو حديث باطل، اجتمع فيه هؤلاء الأربعة، وهم ضعفاء، ومبشر وضاع، صاحب أباطيل.
یہ روایت باطل ہے، اس میں چار ضعیف راوی جمع ہیں۔ مبشر وضاع ہے اور جھوٹی روایات بیان کرتا ہے۔
(خلاصة الأحكام: 813/2)
❀ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا الحديث فيه عدة بلايا.
اس روایت میں کئی مصیبتیں ہیں۔
(زاد المعاد: 170/1)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إسناده ضعيف جدا.
سند سخت ضعیف ہے۔
(التلخيص الحبير: 74/2)
❀ علامہ زیلعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سنده واه جدا، فمبشر بن عبيد معدود فى الوضاعين، وحجاج وعطية ضعيفان.
سند سخت ضعیف ہے۔ مبشر بن عبید کا شمار وضاعین میں ہے، حجاج اور عطیہ دونوں ضعیف ہیں۔
(نصب الراية: 206/2)
❀ علامہ ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب نے لکھا ہے:
كلام الهيتمي مشعر بأن ليس فى سند الطبراني أحد غيرهما ليس متكلم فيه.
علامہ ہیثمی کے کلام سے پتا چلتا ہے کہ طبرانی کی سند میں ان دونوں (حجاج بن ارطاۃ اور عطیہ عوفی) کے علاوہ کوئی متکلم فیہ راوی نہیں۔
(إعلاء السنن: 1862)
جبکہ واضح ہے کہ طبرانی کی سند میں مبشر بن عبید متروک اور وضاع موجود ہے۔ لہذا اس کی سند کو حسن کہنا درست نہیں۔

دوسری روایت:

2۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قبل الجمعة أربعا وبعدها أربعا، يجعل التسليم فى آخرهن ركعة.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے قبل اور بعد چار رکعت پڑھتے اور سلام آخری رکعت میں پھیرتے۔
(المعجم الأوسط للطبراني: 368/2، ح: 1640؛ المعجم لابن الأعرابي: 873)

اس روایت کی اسنادی حیثیت:

سند ضعیف ہے۔
➊ ابواسحاق سبیعی مدلس و مختلط ہیں۔
➋ محمد بن عبد الرحمن سہمی متکلم فیہ ہے۔
❀ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يتابع عليه.
حدیث میں اس کی متابعت نہیں کی گئی۔
(التاريخ الكبير: 162/1)
❀ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بمشهور.
مشہور نہیں تھا۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 326/7)
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے۔
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فيه محمد بن عبد الرحمن السهمي، وهو ضعيف عند البخاري وغيره، وقال الأثرم: إنه حديث واه.
اس سند میں محمد بن عبد الرحمن سہمی امام بخاری وغیرہ کے نزدیک ضعیف ہے، امام اثرم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
(فتح الباري: 548/2)

تیسری روایت

3۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من كان مصليا، فليصل قبل الجمعة أربعا، وبعدها أربعا.
جمعہ کے دن نفل ادا کرنے کا ارادہ ہے، تو نماز سے قبل اور نماز کے بعد چار چار رکعت ادا کریں۔
(شرح مشكل الآثار للطحاوي: 4108، مصنفات ابن البختري: 111)

اس روایت کی اسنادی حیثیت:

سند ضعیف ہے، ابیض بن ابان ثقفی قوی نہیں۔
❀ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس عندنا بالقوي، يكتب حديثه، وهو.
ہمارے نزدیک یہ مضبوط نہیں ہے، البتہ اس کی روایت لکھی جائے گی۔ یہ شیخ ہے۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 312/2)
امام دار قطنی رحمہ اللہ نے الضعفاء والمتروكون (ص:157) میں ذکر کیا ہے۔
اسے صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے الثقات: 86/6 میں ذکر کیا ہے۔ نیز یہ روایت منکر بھی ہے، کیونکہ ابیض بن ابان نے اسے بیان کرنے میں ثقہ راویوں کی مخالفت کی ہے۔

چوتھی روایت:

4۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
إنه كان يصلي قبل الجمعة ركعتين، وبعدها ركعتين.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے قبل اور جمعہ کے بعد دو دو رکعت پڑھتے تھے۔
(تاريخ بغداد للخطيب: 362/6)

اس روایت کی اسنادی حیثیت:

سند سخت ضعیف ہے:
➊ حسن بن قتیبہ خزاعی کو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے متروک الحدیث کہا ہے۔
(العِلَل: 347/5)
ضعیف بھی کہا ہے۔
(سنن الدار قطني: 78/1، العلل: 129/7)
❀ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بقوي الحديث، ضعيف الحديث.
یہ حدیث میں غیر قوی اور ضعیف ہے۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 33/3)
حافظ عقیلی رحمہ اللہ نے کثیر الوہم کہا ہے۔
(الضعفاء: 241/1)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بالک کہا ہے۔
(میزان الاعتدال: 519/1)
➋ سفیان ثوری کا عنعنہ ہے۔
➌ اسحاق بن سلیمان بغدادی کی توثیق نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
في إسناده ضعف.
اس سند میں کمزوری ہے۔
(فتح الباري: 548/2)
منکر بھی ہے، کہ ضعیف راوی نے ثقہ راویوں کی مخالفت کی ہے۔

پانچویں روایت:

5۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
كان رسول الله عليه وسلم يصلي قبل الجمعة وبعدها أربعا.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے قبل اور جمعہ کے بعد چار چار رکعت پڑھتے تھے۔
(المعجم الأوسط للطَّبَرَاني: 3971)

اس روایت کی اسنادی حیثیت:

ضعیف و منقطع ہے۔
➊ ابوعبیدہ کا اپنے والد سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے۔
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الراجح أنه لا يصح سماعه من أبيه.
اس کا اپنے باپ سے کوئی سماع نہیں، یہی راجح ہے۔
❀ نیز فرماتے ہیں:
إنه عند الأكثر لم يسمع من أبيه.
جمہور کے مطابق ابو عبیدہ نے اپنے والد سے نہیں سنا۔
(تقريب التهذيب: 8231)
❀ مزید فرماتے ہیں:
في إسناده ضعف والقطع.
اس کی سند میں کمزوری اور انقطاع ہے۔
(فتح الباري: 548/2)
➋ سلیمان بن عمر بن خالد رقی کی توثیق نہیں۔

چھٹی روایت:

6۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
إن النبى صلى الله عليه وسلم كان يصلي قبل الجمعة ركعتين فى أهله.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے قبل گھر میں دو رکعت پڑھتے تھے۔
(جزء القاسم بن موسى: 22)

اس روایت کی اسنادی حیثیت:

موضوع (من گھڑت) ہے۔
اسحاق بن ادریس اسواری کو امام یحیی بن معین نے کذاب کہا ہے۔
(تاريخ يحيى بن معين برواية الدوري: 24/2)
❀ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تركه الناس.
محدثین کرام نے متروک قرار دیا ہے۔
(التاريخ الكبير: 382/1)
❀ امام نسائی رحمہ اللہ نے متروک الحدیث کہا ہے۔
(الضعفاء والمتروكون، ص 53)

ساتویں روایت:

7۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے:
كان يصلي قبل الجمعة أربعا.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے پہلے چار رکعات ادا کرتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 131/2)

اس روایت کی اسنادی حیثیت:

سند ضعیف ہے، ابو عبیدہ کا اپنے والد عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔ مصنف عبدالرزاق (5524) میں قتادہ نے ابوعبیدہ کی متابعت کی ہے، یہ بھی ضعیف ہے، کیونکہ قتادہ کا سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔

آٹھویں روایت:

8۔ ابو اسحاق رحمہ اللہ سے مروی ہے:
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمعہ سے قبل اور جمعہ کے بعد چار رکعت ادا کرتے تھے۔
(مصنف عبد الرزّاق: 5524، المعجم الكبير للطبراني: 310/9)

اس روایت کی اسنادی حیثیت:

ضعیف ہے، عبدالرزاق اور ابو اسحاق کا عنعنہ ہے۔

نویں روایت:

9۔ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے مروی ہے:
كانوا يصلون قبلها أربعا.
(صحابہ وتابعین) جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 131/2)

اس روایت کی اسنادی حیثیت:

سند ضعیف ہے حفص بن غیاث اور اعمش کا عنعنہ ہے۔

فائدہ

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ہے:
إنه كان يصلي قبل الجمعة أربعا، لا يفصل بينهن بسلام، ثم بعد الجمعة ركعتين، ثم أربعا.
آپ جمعہ سے پہلے چار رکعت ایک ہی سلام کے ساتھ ادا کرتے تھے، جمعہ کے بعد دو رکعت اور پھر چار رکعت ادا کرتے۔
(شرح معاني الآثار للطحاوي: 335/1، وسنده صحيح)

الحاصل:

جمعہ سے پہلے جتنی چاہے رکعات ادا کرے، البتہ چار رکعت کو سنت مؤکدہ قرار دینا غیر ثابت اور بے حقیقت ہے، اس بارے میں مروی ساری کی ساری روایات ضعیف ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے