سوال
نمازِ تسبیح کا ثبوت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کیا اسے جماعت کے ساتھ پڑھایا جا سکتا ہے یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نمازِ تسبیح کے ثبوت کے بارے میں محدثین نے مختلف کتبِ حدیث میں روایات ذکر کی ہیں۔ یہ روایات مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہیں۔
روایاتِ حدیث کا ذکر
◄ جامع ترمذی میں حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے۔
◄ ابو داؤد، سنن ابن ماجہ، دعوات کبیر بیہقی، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے۔
◄ سنن ابو داؤد میں حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہما وغیرہ سے۔
علماء کے اقوال
امام عبدالرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قد وقع اختلاف اھل العلم فی ان حدیث صلوٰہ التسبیح ھل ھو صحیح ام حسن ام ضعف ام موضوع والظاھر عندی انه لا ینحط عن درجة الحسن۔
(تحفة الاحوذی: ص۳۵۱، ج۱)
"نماز تسبیح کی حدیث کے صحیح، حسن، ضعیف یا موضوع ہونے کے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے۔ لیکن میرے نزدیک ظاہر یہ ہے کہ یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔”
شیخ الاسلام ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ’’الخصال المکفرہ‘‘ میں اس کے حسن ہونے کی طرف رجحان ظاہر کیا ہے۔
(تحفۃ: ص۳۵۰، ج۱)
حافظ عبدالعظیم منذری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَقد رُوِيَ هَذَا الحَدِيث من طرق كَثِيرَة وَعَن جمَاعَة من الصَّحَابَة وأمثلها حَدِيث عِكْرِمَة هَذَا وَقد صَححهُ جمَاعَة مِنْهُم الْحَافِظ أَبُو بكر الْآجُرِيّ وَشَيخنَا أَبُو مُحَمَّد عبد الرَّحِيم الْمصْرِيّ وَشَيخنَا الْحَافِظ أَبُو الْحسن الْمَقْدِسِي رَحِمهم الله تَعَالَى وَقَالَ أَبُو بكر بن أبي دَاوُد سَمِعت أبي يَقُول لَيْسَ فِي صَلَاة التَّسْبِيح حَدِيث صَحِيح غير هَذَا وَقَالَ مُسلم بن الْحجَّاج رَحمَه الله تَعَالَى لَا يرْوى فِي هَذَا الحَدِيث إِسْنَاد أحسن من هَذَا وَقَالَ الْحَاكِم قد صحت الرِّوَايَة عَن ابْن عمر أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم علم ابْن عَمه هَذِه الصَّلَاة۔
(الترغیب والترھیب: ص۴۶۸، ج۱)
یعنی:
◄ یہ حدیث بہت سے طرق سے اور متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے۔
◄ سب سے عمدہ روایت عکرمہ کی ہے۔
◄ کئی محدثین نے اسے صحیح قرار دیا ہے، جیسے:
• حافظ ابو بکر آجرّی،
• شیخ ابو محمد عبد الرحیم المصری،
• شیخ حافظ ابو الحسن المقدسی رحمہم اللہ۔
◄ ابو بکر بن ابو داؤد فرماتے ہیں: میں نے اپنے والد (امام ابو داؤد) کو یہ کہتے سنا کہ نماز تسبیح کے بارے میں اس روایت کے علاوہ کوئی صحیح حدیث نہیں۔
◄ امام مسلم بن حجاج رحمہ اللہ نے فرمایا: اس باب میں اس سے بہتر سند کوئی نہیں۔
◄ امام حاکم نے کہا کہ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا زاد کو یہ نماز سکھائی۔
خلاصہ
◄ متعدد جلیل القدر محدثین نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
◄ البتہ نماز تسبیح کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کا ثبوت خیر القرون میں موجود نہیں۔
◄ جیسا کہ ہمارے ہاں یہ رواج چل پڑا ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں میں اس کا اہتمام جماعت کی صورت میں کیا جاتا ہے، تو یہ طرزِ عمل دراصل بدعات کے فروغ کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
نتیجہ
نماز تسبیح کا ثبوت روایات کی بنیاد پر موجود ہے اور اسے کئی محدثین نے صحیح یا حسن قرار دیا ہے۔ لیکن اس نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کا طریقہ خیر القرون میں ثابت نہیں، لہٰذا جماعت کی صورت میں اس کا اہتمام کرنا بدعت کے فروغ کا سبب بن سکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب