سوال
نمازِ تراویح سنت کے مطابق گیارہ رکعت ہیں، لیکن اگر کوئی شخص گیارہ سے زیادہ پڑھنا چاہے تو کیا یہ جائز ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نفلی عبادات کے بارے میں اللہ رب العزت نے کوئی خاص تعداد یا قید مقرر نہیں فرمائی۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًۭا فَإِنَّ ٱللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ﴾ (البقرة:١٥٨)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إن الله قال من عادى لى وليافقدآذنته بالحرب وماتقرب الى عبدى بشىءأحب إلى مماافترضت عليه ومايزال عبدى يتقرب إلى بالنوافل حتى أحبه فاذاأحببته كنت سمعه الذى يسمع به وبصره الذى يبصربه ويده التى يبطش بهاورجله التى بمشى بهاوإن سالنى لاعطينه ولئن استعاذنى لأعيذنه وماترددت عن شىءأنافاعله ترددى عن نفس المومن يكره الموت وأناأكره مسائته)) (بخاری: 6502)
‘‘اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جو میرے کسی ولی کو تکلیف دے تو میں اس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔ اور میرا بندہ میری طرف تقرب حاصل نہیں کرتا مگر ان چیزوں کے ذریعے جو میں نے فرض کی ہیں۔ اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میری قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے تو میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پھر میں اس کا کان، آنکھ، ہاتھ اور پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے، دیکھتا ہے، پکڑتا ہے اور چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں اور اگر پناہ مانگے تو پناہ دیتا ہوں۔’’
نبی کریم ﷺ کا بیان
نبی کریم ﷺ نے نوافل کی کوئی خاص حد مقرر نہیں فرمائی۔ صحیح حدیث میں ہے:
((خمس صلوات فى اليوم والليلةفقال هل على غيرهاقال لاإلاأن تطوع قال رسول اللهﷺوصيام رمضان قال هل على غيره قال لاإلاأن تطوع قال وذكرله رسول اللهﷺالزكاةقال هل على غيرهاقال لاإلاأن تطوع قال فادبرالرجل وهو يقول والله لاأزيدعلى هذا ولاأنقص قال رسول اللهﷺأفلح إن صدق)) (بخاری: 47)
‘‘ایک شخص نے نبی ﷺ سے اسلام کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں۔ اس نے پوچھا: کیا اس کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ فرمایا: نہیں، سوائے اس کے کہ تو نفل پڑھے۔ پھر آپ ﷺ نے رمضان کے روزوں کے بارے میں فرمایا: یہ فرض ہیں۔ اس نے پوچھا: کیا ان کے علاوہ بھی ہیں؟ فرمایا: نہیں، مگر اگر تو نفلی روزے رکھے تو تیرے اختیار میں ہے۔ پھر آپ ﷺ نے زکوٰۃ کے بارے میں بتایا، تو اس نے کہا: کیا اس کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ فرمایا: نہیں، مگر اگر تو نفلی ادا کرے تو یہ بھی تیرے اختیار میں ہے۔ وہ شخص جانے لگا اور کہنے لگا: اللہ کی قسم! نہ میں اس سے زیادہ کروں گا نہ کم۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: کامیاب ہو گیا اگر یہ سچ کہے۔’’
نفلی عبادت کی حد
اس حدیث سے بھی واضح ہے کہ نبی ﷺ نے نفلی عبادت کی کوئی خاص حد مقرر نہیں کی۔ یہ ہر شخص پر منحصر ہے کہ وہ کتنی نفلی عبادت کر سکتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان دل کی رغبت، اخلاص اور مناجاتِ الٰہی کی لذت کے لیے نوافل میں اضافہ کرتا ہے، اور اس کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس صورت میں اسے چاہیے کہ نفلی عبادت کرے۔
لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اتنے افراط سے کام نہ لے کہ تھکن، سستی یا کج روی اس پر غالب آ جائے، یا فرائض سے غفلت ہونے لگے۔
نفلی عبادات میں اعتدال
جب کوئی شخص ان شرائط کا خیال رکھے تو جتنی چاہے نفلی عبادت کرے، اس میں کوئی قباحت نہیں۔
لیکن جہاں تک نمازِ تراویح کا تعلق ہے، تو بلا شک و شبہ سنت کے مطابق تراویح صرف گیارہ رکعت ہیں۔ اس پر مزید اضافہ کرنا صرف نفلی عبادت میں اضافہ شمار ہوگا۔
◄ تراویح سنتِ مؤکدہ کے طور پر گیارہ رکعت ہی ہیں۔
◄ اگر کوئی ان کے علاوہ نفل کی نیت سے اور رکعتیں پڑھتا ہے تو یہ جائز ہے۔
◄ لیکن ان زائد رکعات کو فرائض، واجبات، لوازم یا سننِ مؤکدہ نہ سمجھا جائے۔
◄ اور نہ ہی ان رکعات کو چھوڑنے والوں کو برا یا مجروح کہا جائے۔
◄ اگر ان کو فرائض یا سننِ مؤکدہ کے درجے میں سمجھا جائے تو یہ اللہ کی حدود سے تجاوز ہوگا۔
◄ اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے وہی ظالم ہے۔
ایسی صورت میں یہ نفل عبادت قربتِ الٰہی کا ذریعہ نہیں ہوگی، بلکہ بدعتِ سیئہ شمار ہوگی، جو کسی حال میں پسندیدہ نہیں۔
تاریخی پہلو
یہ بات درست ہے کہ بعض لوگ بیس رکعت پڑھتے تھے، جیسا کہ عہدِ فاروقی (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور) میں ہوا، جسے سنن الکبریٰ للبیہقی میں بیان کیا گیا ہے اور اس کی سند بھی جید ہے۔ بلکہ بعض صحابہ بیس سے بھی زیادہ رکعات ادا کرتے تھے۔
اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعت باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن اس پر اضافے سے منع نہیں کیا۔
خلاصہ
◈ حق بات یہی ہے کہ سنتِ مسنونہ سے نمازِ تراویح گیارہ رکعت ہی ثابت ہے۔
◈ اگر کوئی شخص نفل کی نیت سے زیادہ رکعتیں پڑھ لے تو یہ بھی جائز ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب