نماز بغیر وضو یا غسل پڑھنے پر اعادہ واجب ہے؟ مکمل فتویٰ
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ جلد 3، نماز سے متعلق مسائل، صفحہ 100

بے وضو نماز کا اعادہ: وضاحت اور دلائل

سوال:

اگر غسل فرض ہو لیکن بھول کر کچھ نمازیں صرف وضو کرکے پڑھ لی جائیں، تو جب یاد آئے تو کیا ان نمازوں کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے یا صرف استغفار کافی ہے؟
(اعجاز احمد، گوجرہ ٹوبہ ٹیک سنگھ)

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلے میں کوئی صریح حدیث موجود نہیں ہے، البتہ فقہاء اور محدثین کے اقوال اور عمل کی روشنی میں راہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

امام عبدالرحمان بن مہدی اور سفیان ثوری کا مکالمہ

امام عبدالرحمان بن مہدی فرماتے ہیں:

قال ابن مهدي: قلت لسفيان الثوري: تعلم ان أحداً قال: يعيد ويعيدون عن حماد؟ قال: لا

(یعنی: میں نے سفیان ثوری سے پوچھا کہ کیا آپ کو علم ہے کہ کسی نے یہ کہا ہو کہ نماز پڑھنے والا اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے سب دوبارہ نماز پڑھیں؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، صرف حماد نے ایسا کہا ہے۔)

سنن دارقطنی 1/365، حدیث 1359 (سندہ حسن)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا عمل

حضرت عبداللہ بن عمر بن حفص بن عاصم العمری نے نافع سے روایت کیا:

حضرت ابن عمرؓ نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی، پھر انہیں یاد آیا کہ ان کا ہاتھ شرمگاہ سے لگ گیا تھا۔ اس پر انہوں نے دوبارہ وضو کیا، لیکن مقتدیوں کو نماز دہرانے کا حکم نہیں دیا۔

سند کی حیثیت

عبداللہ العمری کی روایت نافع سے حسن شمار ہوتی ہے، اگرچہ وہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہیں۔

◈ امام عثمان بن سعید الدارمی نے امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے پوچھا: نافع سے العمری کی روایت کیسی ہے؟
جواب: "صالح” یعنی اچھی ہے۔
تاریخ عثمان بن سعید الدارمی: 523، تاریخ بغداد 10/20، ت5135

◈ امام ترمذی رحمہ اللہ نے العمری عن نافع کی روایت کو "ھذا حدیث حسن” قرار دیا۔
حدیث 854

◈ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی العمری عن نافع کی سند سے حدیث بیان کی۔
صحیح مسلم: 2132

◈ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس سند میں شک ظاہر کیا۔
جزء رفع الیدین: 83، صحیح ابن خزیمہ قبل حدیث 1431، 1860

اجماع صحابہ اور امام عبدالرحمان بن مہدی کا قول

امام عبدالرحمان بن مہدی رحمہ اللہ (متوفی 198ھ) نے فرمایا:

وهو هذا المجتمع عليه الجنب يعيد ولا يعيدون ما أعلم فيه اختلافا

(یعنی: اس پر اجماع ہے کہ جنبی شخص (جس پر غسل فرض ہے) نماز دہرائے گا، مگر اس کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کو نماز دہرانے کی ضرورت نہیں، مجھے اس میں کوئی اختلاف معلوم نہیں۔)

سنن دارقطنی 1/365، حدیث 1357 (سندہ صحیح)

یہ اجماع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع ہے، جس کی مخالفت صرف حماد بن ابی سلیمان نے کی ہے۔

السنن الکبریٰ للبیہقی 2/401

سفیان ثوری کا مؤقف

بعد میں امام سفیان ثوری (تبع تابعین رحمہ اللہ) نے بھی وہی مؤقف اختیار کیا جو حماد کا تھا۔

مصنف ابن ابی شیبہ 2/45، حدیث 4577 (سندہ حسن)

خلاصہ: نماز کا اعادہ واجب ہے

اگر کوئی شخص بھول کر یا غلطی سے بے وضو نماز پڑھ لے تو اس پر ان نمازوں کا اعادہ واجب ہے۔

مقتدیوں کے لیے حکم: نماز دہرانا ضروری نہیں

اگر امام غلطی سے بغیر وضو نماز پڑھا دے، اور مقتدیوں کو اس بات کا علم نہ ہو تو ان کی نماز صحیح مانی جائے گی۔ اس مسئلے پر جمہور سلف صالحین کا اجماع ہے۔

سیدنا عمر بن خطابؓ کا واقعہ

سیدنا شرید القَضِی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حالتِ جنابت میں نماز پڑھا دی، بعد میں خود نماز دہرائی، لیکن مقتدیوں کو نماز دہرانے کا حکم نہیں دیا۔

السنن الکبریٰ 2/399، 400
سنن دارقطنی 1/364، حدیث 1364 (سندہ حسن)

امام ابن قدامہ کا بیان (المغنی)

"اگر امام بے وضو یا جنبی حالت میں جماعت کروائے، اور وہ خود بھی اور مقتدی بھی اس بات سے لاعلم ہوں، تو مقتدیوں کی نماز صحیح ہے، جبکہ امام کی نماز باطل ہے۔ اس کی تائید اجماع صحابہ سے ہوتی ہے۔”

المغنی لابن قدامہ 2/99-100 (ندیم ظہیر)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1