نماز باجماعت کا حکم: فرضیت، دلائل اور فقہی موقف
ماخوذ : فتاوی ارکان اسلام

نماز باجماعت کے احکام: مکمل وضاحت

نماز باجماعت کی اہمیت اور اتفاق علماء

تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ نماز باجماعت اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم الشان عبادت اور اطاعت ہے۔ اس کی تاکید قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں کثرت سے موجود ہے۔ یہ عبادت نہایت فضیلت والی ہے اور حتیٰ کہ حالتِ خوف میں بھی اس کا حکم دیا گیا ہے۔

قرآن مجید سے دلیل

اللہ تعالیٰ نے حالتِ خوف میں بھی نماز باجماعت کا حکم دیا ہے:

﴿وَإِذا كُنتَ فيهِم فَأَقَمتَ لَهُمُ الصَّلوةَ فَلتَقُم طائِفَةٌ مِنهُم مَعَكَ وَليَأخُذوا أَسلِحَتَهُم فَإِذا سَجَدوا فَليَكونوا مِن وَرائِكُم وَلتَأتِ طائِفَةٌ أُخرى لَم يُصَلّوا فَليُصَلّوا مَعَكَ وَليَأخُذوا حِذرَهُم وَأَسلِحَتَهُم…﴾
(سورة النساء، آيت 102)

’’اور (اے پیغمبر) جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے…‘‘

احادیث مبارکہ سے دلائل

رسول اللہ ﷺ کی کئی احادیث باجماعت نماز کی فرضیت کو واضح کرتی ہیں:

نبی ﷺ کا سخت انداز اختیار کرنے کا ارادہ:
«وَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِالصَّلٰوةِ فَتُقَامَ…فَاُحَرِّقُ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ بِالنَّارِ»
(صحیح البخاری، الاذان، باب وجوب صلاة الجماعة، حدیث: ۶۴۴، صحیح مسلم، المساجد، حدیث: ۶۵۱)
’’میرا ارادہ ہے کہ میں نماز کا حکم دوں اور اقامت کہی جائے، پھر کسی کو کہوں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے، اور میں کچھ افراد کو لے کر ان لوگوں کے گھروں کو جا کر آگ لگا دوں جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے۔‘‘

اذان سن کر جماعت میں شریک نہ ہونے والے کی نماز قبول نہ ہونے کا ذکر:
«مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَجبِ فَلَا صَلَاةَ لَهُ اِلاَّ مِنْ عُذْرٍ»
(سنن ابن ماجه، باب التغليظ فی التخلف عن الجماعة، حدیث: ۷۹۳)
’’جو اذان سنے اور پھر جماعت میں حاضر نہ ہو تو اس کی نماز نہیں، الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔‘‘

نابینا صحابی کو جماعت میں حاضر ہونے کا حکم:
«هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ؟»…«فَأَجِبْ»
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: ۶۵۳)
’’کیا تم اذان سنتے ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پس جواب دو (یعنی جماعت کے ساتھ نماز ادا کرو)۔‘‘

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مشاہدہ:
«لَقَدْ رَأَيْتُنَا…إِلَّا مُنَافِقٌ معلوم النفاق، أَوْ مَرِيضٌ…»
(صحیح مسلم، حدیث: ۶۵۴)
’’میں نے صحابہ کرام کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرتے دیکھا، اور صرف وہی شخص جماعت سے پیچھے رہتا تھا جو یا تو منافق ہوتا یا بیمار، اور بیمار کو بھی دو آدمی سہارا دے کر صف میں کھڑا کرتے تھے۔‘‘

عقلی دلیل

عقل بھی اسی بات کی متقاضی ہے کہ نماز باجماعت واجب ہو، کیونکہ امتِ اسلامیہ ایک وحدت ہے اور اس وحدت کو مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عبادات بھی اجتماعی طور پر ادا کی جائیں۔ نماز چونکہ سب سے افضل اور اہم عبادت ہے، اس لیے اس کا باجماعت ادا کیا جانا ضروری ہے۔

فقہی اختلاف اور درست موقف

علماء اس پر متفق ہیں کہ نماز سب سے افضل عبادت ہے، تاہم اختلاف اس بات پر ہے کہ:

✿ کیا جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا نماز کی صحت کے لیے شرط ہے؟
✿ یا جماعت کے بغیر نماز ادا ہو جاتی ہے مگر یہ گناہ ہے؟

درست موقف یہ ہے کہ:

نماز باجماعت ادا کرنا واجب ہے۔
یہ صحتِ نماز کے لیے شرط نہیں ہے۔
جو شخص بغیر عذر کے جماعت ترک کرے وہ گناہ گار ہوگا۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے باجماعت نماز کو انفرادی نماز سے افضل قرار دیا ہے۔ اور کسی چیز کو افضل قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ دوسرے طریقے پر بھی عمل جائز ہے، اگرچہ وہ کم تر ہے۔

نتیجہ

ہر عاقل، بالغ، مرد مسلمان پر واجب ہے کہ خواہ وہ سفر میں ہو یا حضر میں، نماز باجماعت کا اہتمام کرے۔ یہ نہ صرف دینی ذمہ داری ہے بلکہ امت کی وحدت اور اجتماعی شعور کی علامت بھی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1