نماز استسقاء میں دعا کی کیا کیفیت ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

نماز استسقاء میں دعا کی کیا کیفیت ہے؟

جواب:

استسقاء میں دعا سب سے اہم جزو ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالخصوص دعائے استسقاء انتہائی عاجزی اور درماندگی کے ساتھ کرتے تھے، آسمان کی طرف ہاتھ اٹھانے میں مبالغہ کرتے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغلوں کی سفیدی تک دکھائی دیتی۔
❀ سیدنا عمیر مولی ابی اللحم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إنه رأى النبى صلى الله عليه وسلم يستسقي عند أحجار الزيت قريبا من الزوراء قائما يدعو يستسقي رافعا يديه قبل وجهه لا يجاوز بهما رأسه
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زوراء کے قریب احجار الزیت نامی جگہ کے پاس دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر بارش کے لیے دعا کر رہے تھے۔ ہاتھ چہرے تک اٹھائے ہوئے، انہیں سر سے اوپر نہیں لے جا رہے تھے۔
(مسند الإمام أحمد: 5/223، سنن أبی داود: 1168، وسندہ صحیح)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (354ھ) (878) نے صحیح کہا ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كان النبى صلى الله عليه وسلم لا يرفع يديه فى شيء من دعاء إلا فى الاستسقاء، وإنه يرفع حتى يرى بياض إبطيه
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سوائے استسقاء کے کسی دعا میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے، استسقاء میں اتنے بلند ہاتھ اٹھاتے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آ جاتی۔
(صحیح البخاری: 1031، صحیح مسلم: 895)
ہاتھ اٹھانے میں جس قدر مبالغہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا میں کرتے تھے، وہ دوسری دعاؤں میں دکھائی نہیں دیتا تھا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارے مال ہلاک ہو گئے اور راستے کٹ گئے، اللہ سے دعا کیجیے کہ ہم پر بارش نازل فرمائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی:
اللهُمَّ أَغِثْنَا، اللهُمَّ أَغِثْنَا، اللهُمَّ أَغِثْنَا
اے اللہ! ہم پر بارش نازل فرما، اے اللہ! ہم پر بارش نازل فرما، اے اللہ! ہم پر بارش نازل فرما۔
(صحیح البخاری: 1014، صحیح مسلم: 897)
(صحیح بخاری: 1029) میں ہے:
رفع الناس أيديهم معه يدعون
لوگ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگے۔
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے، تو آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہ تھا۔ اچانک بادل پہاڑوں کی طرح نمودار ہوئے، ابھی منبر سے اترے نہ تھے کہ میں نے بارش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک پر گرتی دیکھ لی۔
(صحیح البخاری: 1033، صحیح مسلم: 897)
❀ ایک روایت میں ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دیہاتی نے عرض کیا: ہم ڈوب گئے، رب سے دعا کیجیے کہ بارش روک دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اللہ! ہمیں چھوڑ کر، گردونواح میں بارش نازل فرما، دو تین بار یہ دعا فرمائی، چنانچہ بادل مدینہ منورہ سے بائیں اور دائیں جانب چھٹنے لگے، مدینہ کے مضافات میں بارش ہونے لگی، ہمارے ہاں فوراً بارش رک گئی، اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ، کرامت اور دعا کی قبولیت سمجھائی۔
(صحیح البخاری: 6093)
❀ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ روتے ہوئے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اللہ! ہمیں مفید، خوشگوار اور نفع مند بارش عطا فرما، جو نقصان دہ نہ ہو، جلدی آنے والی ہو، تا خیر کرنے والی نہ ہو۔ ان پر آسمان برسنے لگا۔
(سنن أبی داود: 1169، وسندہ حسن)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (311ھ)(1416) نے صحیح کہا ہے۔ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
(خلاصة الأحكام: 2/879)
امام حاکم رحمہ اللہ (405ھ) (1/327) نے اس کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) نے ان کی موافقت کی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بارش کے لیے دعا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ اسْقِ عِبَادَكَ وَبَهَائِمَكَ وَانْشُرْ رَحْمَتَكَ وَأَحْيِ بَلَدَكَ الْمَيِّتَ
اے اللہ! اپنے بندوں اور چوپایوں کو پانی پلا، اپنی رحمت پھیلا اور مردہ زمین کو زندہ کر دے۔
(سنن أبی داود: 1176، وسندہ حسن)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) نے اس کی سند کو حسن متصل قرار دیا ہے۔
(خلاصة الأحكام: 2/880)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے