نمازی کے آگے سے گزرنے کا حکم اور اہل حدیث کا فتویٰ
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ جلد 1، صفحہ 393

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء اہل حدیث اس مسئلہ میں کہ ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے اور اس کے آگے کا آدمی نماز سے فارغ ہوچکا ہے۔ کیا نماز سے فارغ شدہ آدمی اٹھ کر جا سکتا ہے، یا کہ وہیں بیٹھا رہے؟ آپ نمازی کے آگے سے گزرنے کی حد ذکر کر کے بتائیں کہ اٹھ کر جانے والا آدمی اس حد سے گزرنے والا گناہ گار تو شمار نہیں ہوگا؟
(حافظ محمد خان مکان نمبر ۲۶، گلی نمبر۲، عبداللہ کالونی، سرگودھا شہر)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز کا معاملہ نہایت اہم ہے اور اس میں بےحد احتیاط کی ضرورت ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کے لیے یہ بہتر ہے کہ وہ چالیس دن یا اس سے بھی زیادہ مدت تک کھڑا رہے، مگر نمازی کے آگے سے نہ گزرے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ کسی نماز پڑھنے والے کی نماز کو توڑنا یا اس میں خلل ڈالنا ایک بہت بڑا گناہ ہے، لہٰذا اس سے اجتناب لازم ہے۔

البتہ اگر کسی کو سخت جلدی ہو اور وہ نمازی کی فراغت تک انتظار نہ کرسکتا ہو تو شریعت نے اس کے لیے یہ رعایت دی ہے کہ وہ نمازی کے سامنے سے تین چار صفوں کا فاصلہ چھوڑ کر گزر جائے۔ ان شاءاللہ اس صورت میں گزرنے والے پر گناہ لازم نہ ہوگا اور نہ ہی نماز ادا کرنے والے کی نماز میں کوئی خلل آئے گا۔

علماء حدیث نے ان دونوں احادیث کے درمیان یہی تطبیق بیان کی ہے، اور یہ دونوں احادیث مشکوۃ المصابیح کتاب الصلوۃ میں مذکور ہیں۔

فتویٰ

◈ شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کوئی نمازی کے سامنے سے تین چار صفوں کے فاصلے پر ہو تو وہ گزر سکتا ہے۔
◈ لیکن بہتر اور تقویٰ یہ ہے کہ نماز سے فارغ ہونے والا شخص نمازی کی فراغت تک وہیں بیٹھا رہے۔
◈ یہی زیادہ مناسب اور افضل ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے